مری سے کشمیر تک — کراچی سے نکلنے والے ایک 'سیلفی ٹور' کی روداد

سیلفیز کے متوالوں کو کسی تاریخی مقام سے دلچسپی تھی، نہ خوب صورت مناظر سے۔ گروپ کے بیش تر ارکان دل کش قدرتی مناظر کے بجائے کھانے میں زیادہ دل چسپی رکھتے تھے۔

کاغان، ناران، مری اور مظفر آباد کی برف باری دیکھنے کے لیے جب ہم نے سیّاحتی ٹور کا پروگرام ترتیب دیا، تو مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے پچاس سے زائد خواتین و حضرات، بچّوں سمیت سامان لیے تیار تھے۔

 ہم نے کراچی سے راول پنڈی تک چلنے والی نئی ٹرین سروس ’’رحمان بابا‘‘ کا انتخاب کیا۔ واضح رہے کہ مذکورہ ٹرین کے افتتاح کے موقع پر وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے خصوصی اعلان کیا تھا کہ نئی ٹرین سروس کی خوشی میں 23 دسمبر کو کراچی سے راولپنڈی تک مسافروں کو آدھی قیمت یعنی صرف ساڑھے 6 سو روپے میں ٹکٹ دیئے جائیں گے۔ تاہم، باوجود کوشش کے ہم 23 دسمبر 2018ء کے لیے ٹکٹس حاصل کرنے میں کام یاب نہ ہوسکے۔

مجبوراً اگلے روز کی بکنگ کروائی اور 24 دسمبر کو نئی نویلی ٹرین میں براجمان ہوکر عازمِ سفر ہوگئے۔

’’رحمان بابا ایکسپریس‘‘ اپنے نام کی طرح اس طرح چل رہی تھی کہ جیسے مسافر کسی مقدّس مقام کی زیارت کے لیے جارہے ہوں۔ یہاں مختلف اشیاء بیچنے والوں کا شور و غوغا تھا اور نہ بھکاریوں کے ٹولے، ہرسُو خاموشی کا راج! اس پر مستزاد یہ کہ ڈائننگ کار سے محروم اس نئی ٹرین سروس کے اسٹاپس بھی بہت کم تھے۔

 خیر کراچی سے صبح 10 بجے روانہ ہونے والی یہ ٹرین دوسری صبح 9 بجے راولپنڈی کے یخ بستہ اسٹیشن پہنچ گئی۔ فیض آباد کے ایک ہوٹل میں ہمارے کمرے پہلے ہی سے بُک تھے۔ جہاں پہنچتے ہی کُک نے قورمے کی دیگ چڑھا دی۔

فیض آباد ایک طویل بس اڈہ ہے، جہاں سے پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر سمیت ملک بھر کے لیے سیکڑوں کی تعداد میں گاڑیاں مل جاتی ہیں۔

دوسرے دن راولپنڈی کے جڑواں شہر، اسلام آباد کی قابلِ دید جگہوں سے بھرپور لطف اندوز ہوئے۔ جن میں لوک ورثہ، شکر پڑیاں، فیصل مسجد اور لیک ویو گارڈن شامل تھا۔ 

سیلفیز کے متوالوں کو کسی تاریخی مقام سے دل چسپی تھی، نہ خوب صورت مناظر سے۔ گروپ کے بیش تر ارکان دل کش قدرتی مناظر کے بجائے کھانے میں زیادہ دل چسپی رکھتے تھے

جب سے موبائل فون سے سیلفی کا رواج شروع ہوا ہے، بچّے، بڑے، جوان سب ہی اس کے دیوانے ہوگئے ہیں۔ ہمارے سیّاحتی گروپ میں شامل اکثر سیّاح بھی کسی بھی موقع کے ہاتھ سے جانے سے قبل ہی آس پاس سے بے نیاز ہوکر سیلفیز کے لیے ہاتھ بلند کرلیتے۔ یہ سلسلہ پورے ٹور کے اختتام تک جاری رہا، کبھی قائداعظم اور نہرو کے مجسّمے کے ساتھ، تو کبھی فیصل مسجد کے مینار تلے، کبھی لِیک ویو کی کشتیوں میں، تو کبھی شکرپڑیاں کے درختوں کے ساتھ۔ سیلفیز کے متوالوں کو کسی تاریخی مقام سے دل چسپی تھی، نہ خوب صورت مناظر سے۔ گروپ کے بیش تر ارکان دل کش قدرتی مناظر کے بجائے کھانے میں زیادہ دل چسپی رکھتے تھے۔

 ہم کہتے، فلاں میوزیم میں موہن جودڑو اور کیلاش کی قدیم تہذیب کے ماڈلز آراستہ ہیں، تو وہ رات کے کھانے کا مینیو پوچھتے۔ ہم کہتے، شکر پڑیاں میں اسلام آباد شہر کا پلان بنایا گیا ہے، تو وہ لبرٹی کے چائے خانوں کا احوال پوچھتے۔ غرض ایک دن گزار کر ہم نے مظفر آباد کا رخ کیا۔

اسلام آباد سے مظفر آباد کوسٹر کا کرایہ فی فرد ساڑھے 3 سو روپے ہے۔ یہ حسین مناظر سے بھرپور سفر ہے، سڑک کے اطراف درختوں کی شاخیں برف کے بوجھ سے لدی جُھک کر تعظیم دیتی ہیں، پرندوں کی چہکار کی مدھر آوازیں پیچھا کرتی ہیں، درختوں سے جدا ہوتے پتّوں سے ڈھکی سڑک ایک ابدی خاموشی میں بہتی چلی جاتی ہے۔

فوٹو/ راقم الحروف—۔

سرخ وسفید بچّے مقامی میووں کی تھیلی لیے سیّاحوں کے منتظر رہتے ہیں اور گاڑی رکتے ہی ان کی مسکراہٹ پھول کی طرح کِھل اٹھتی ہے۔ کہیں کناروں پر جمی برف پر ان کے ماں باپ رنگین شالیں فروخت کرتے نظر آتے ہیں، مگر ان تمام مناظر سے بے نیاز ہمارا پورا گروپ 'بلاول، بلاول' گانے پر ڈانس کرنےمیں مگن تھا۔

مظفر آباد ایک بڑا شہر ہے، جس کے درمیان سے دریائے نیلم گزرتا ہے۔ تاہم، اس وقت یہ کراچی کے کسی گندے نالے کا منظر پیش کررہا تھا۔ تھوڑے فاصلے پر پیربالہ کے محلّے میں ایک قابلِ رہائش ہوٹل دیکھ کر ہم نے وہاں ڈیرے ڈال لیے۔ 

اکتوبر 2005ء کے خوف ناک زلزلے کے بعد سے 13 برس گزرنے کے باوجود یہ شہر بربادی کا منظر پیش کرتا ہے۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، کچرے کے ڈھیر اور بے پناہ ہجوم ایک سیلِ رواں کی مانند نظر آتا ہے۔ کشمیر کا نام سن کر ٹور گروپ کے ذہین افراد نے یہ تصوّر کرلیا کہ چغے اور فرغل پہنے کشمیری حسینائیں درختوں پر جھولتی نظر آئیں گی اور یہاں کے مرد شمی کپور کی طرح گیت گاتے ہوں گے ؎’’یہ چاند سا روشن چہرہ، زلفوں کا گھنیرا سایہ، یہ جھیل سی نیلی آنکھیں‘‘، مگر یہ سب کچھ بارڈر کے اُس پار تو ممکن ہے، یہاں تو پاکستان ہی لگ رہا تھا، جہاں بجھے بجھے چہروں پر افلاس کی دراڑیں تھیں اور جہاں کے لوگ خشک جھاڑیوں کی طرح زندگی گزار کر سخت موسموں کی بھینٹ چڑھ کر گم نامی کی موت مرجاتے ہیں۔

فوٹو/ راقم الحروف—۔

مظفر آباد سے پیرچناسی ساڑھے 9 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہاں کی بَل کھاتی سڑک بنانے والوں کو جتنا خراجِ تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔ 10 افراد ایک سوزوکی میں بیٹھ سکتے ہیں، جس کا کرایہ صرف دو ہزار روپے ہے۔ یہاں ہر منظر ٹھٹھکنے پر مجبور کرتا ہے۔ پہاڑیوں سی پھوٹتی منجمد آبشاریں منجمد سی ہوگئی ہیں، سڑک کے درمیان چلتی بھیڑ، بکریاں ٹس سے مس نہیں ہوتیں، پھل، پھولوں کی خوشبو اور گہرے سیاہ بادل ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔

پہاڑ کی چوٹی پر برف کے انبار ہیں، جن کے درمیان شاہ حسین بخاری کے مزار کا سبز گنبد دکھائی دیتا ہے۔ یہاں سیکڑوں سیّاح گھومتے پھرتے دکھائی دیئے، بہت سے اپنے موبائل فون کی بیٹریز چارج کرنے کے لیے عارضی دکانوں کے باہر ہجوم لگائے ہوئے تھے۔ ان دکانوں سے چائے اور پکوڑے مل جاتے ہیں۔

فوٹو/ راقم الحروف—۔

برف کی سفیدی پر جابجا پان اور گٹکے کی پچکاریوں کے نقش و نگار دیکھ کر اندازہ ہوا کہ رنچھوڑ لائن، کراچی سے بھی لوگ آئے ہیں۔ رات واپس ہوٹل پہنچے، تو کڑاہی گوشت تیار تھا۔ گرم گرم روٹی سے لذت کام و دہن کے بعد کشمیری قہوے نے لطف دوبالا کردیا۔

دوسرے روز مظفر آباد سے مری کا سفر درپیش تھا۔ برف کے باعث یہ راستہ قدرے طویل ہوجاتا ہے اور اس کا کرایہ فی فرد 3 سو روپے مقرر ہے۔ یاد رہے کہ ہر جگہ ہوٹل میں ڈبل بیڈ کا کرایہ ایک ہزار روپے ہے، مگر مری کے ہوٹل مالکان سیزن میں کمانے کے لیے کمروں کے کرائے ساڑھے سات ہزار فٹ بلندی پر لے جاتے ہیں، خصوصاً مال روڈ پر ایک کمرا 5 سے 6 ہزار روپے میں بھی بہ مشکل ملتا ہے۔ 

برف کی سفیدی پر جابجا پان اور گٹکے کی پچکاریوں کے نقش و نگار دیکھ کر اندازہ ہوا کہ رنچھوڑ لائن، کراچی سے بھی لوگ آئے ہیں۔

مظفر آباد سے ہماری کوسٹر مری کی طرف روانہ ہوئی تو کوہالہ پل کے بعد برف باری کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سیّاحتی گروپ کے لیے یہ ایک ناقابلِ فراموش منظر تھا۔ ان میں سے بیشتر نے برف باری صرف فلموں میں دیکھ رکھی تھی، بس رک گئی اور سب باہر آگئے۔ کچھ محسوس کرنے کے بجائے اندھا دھند موبائل نکالے گئے اور پھر سیلفیاں ہی سیلفیاں، سیلفیز کا سلسلہ دراز ہوتا دیکھ کر ڈرائیور نے اُس وقت تک ہارن سے ہاتھ نہیں اٹھایا، جب تک تمام لوگ سیٹوں پر بیٹھ نہ گئے۔

فوٹو/ راقم الحروف—۔

کوہالہ سے آگے چھوٹی چھوٹی بستیوں اپرباسیاں، بیروٹ، اپر دیول، روسیاہ، بھوربن، کشمیری بازار اور جھیکا گلی کے بعد کوہ مری آجاتا ہے۔ اس سارے راستے پر جا بہ جا پاکستان کے امراء کی کوٹھیاں ہیں، ڈرائیور نے بتایا، ’’یہ علاقے ہمارے سیاست دانوں کے پسندیدہ مقامات ہیں، جو کسی بھی طرح کما کر ان گلیات میں گھر بنالیتے ہیں اور پھر ملک کی 'اچھی طرح' خدمت کرکے اپنی 'تھکن' اتارنے یہیں آتے ہیں، کوئی ان سے پوچھے، جناب عالی! اسکول بناؤ، اسپتال بناؤ، مگر کون پوچھے؟‘‘

مری پہنچ کر کسی اچھے ہوٹل کی تلاش میں نظریں دوڑائیں تو قریب ہی ایک ہوٹل کا مالک ہماری طرف بڑھا اور سلام کے بعد انتہائی خندہ پیشانی سے کہنے لگا، ’’مری بس اڈے کے آس پاس سستے ہوٹل مل جاتے ہیں، ان ہوٹلز کے ایجنٹس سیّاحوں کو زبردستی اپنے ساتھ لے جانے کے لیے تل جاتے ہیں، بعض اوقات اس تکرار کے نتیجے میں کوئی بڑا جھگڑا بھی ہوجاتا ہے تو پھر سوشل میڈیا اور چینلز کے لیے بریکنگ نیوز بن جاتی ہے۔ مگر کیا کریں صاحب! یہ غریب لوگ ہیں، ان کے لیے سردیوں کے دس پندرہ دن اور گرمیوں کی دو مہینے کی چھٹیاں ہیں۔‘‘

ایک اور ہوٹل مالک نے بتایا۔ ’’سیزن میں یہ لوگ کچھ پیسے کما کر اپنے گاؤں لوٹ جاتے ہیں، مری کا بائیکاٹ کرنے والوں کو یہ چینل والے نہیں بتاتے کہ پہاڑوں میں بسنے والے یہ غریب لوگ ان سیّاحوں سے کچھ ملنے کی آس میں آتے ہیں۔ یہ برفانی ہواؤں میں اپنے بچّوں کو چیتھڑے پہناکر اس امید پر آتے ہیں کہ واپس جاکر انہیں روٹی کھلاسکیں۔ سیزن نہ ہو تو یہ لوگ بے آب و گیاہ ویرانوں میں بھٹکتے پھرتے ہیں، جن کی موت پر ماتم کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔‘‘

 مری کے دکان داروں نے جگہ جگہ برف پر کرسیاں لگا کر الاؤ بھڑکا دیئے ہیں۔ ان پر بیٹھنے والوں کے لیے لازم ہے کہ دکان سے چائے یا سموسے خریدیں، ورنہ کرسی پر مفت بیٹھنے کی اجازت نہیں

ہوٹل مالک کی بات سن کر ہم نے فی کمرا تین ہزار میں لے لیا۔ مری کے مال روڈ پر سر ہی سر دکھائی دیئے۔ فیشن ایبل لڑکے لڑکیوں کی پریڈ مارچ، سڑک کےکونے پر بنے ڈاک خانے پر جمع ہو رہی تھی، اُس دن نیو ائر نائٹ تھی، جگمگاتی دکانوں کے باہر تِکّے اور چرغوں کی سنسناہٹ تھی۔ آئس کریم اور کافی کی خوشبو تھی، اقبال لائبریری کی دیدہ زیب عمارت سے بے نیاز نئے شادی شدہ جوڑے ایک دوسرے کے چہرے پڑھنے میں مگن تھے۔

فوٹو/ راقم الحروف—۔

ہولی ٹرینیٹی چرچ، جسے چرچ آف انگلینڈ بھی کہا جاتا ہے، انگریزوں کے بنائے ہوئے اس مرقعِ حسن کو دیکھنے کے بجائے تمام تر لوگوں کی توجّہ کپڑوں اور جوتوں کی دکانوں پر رہتی ہے۔ مری کے دکان داروں نے جگہ جگہ برف پر کرسیاں لگا کر الاؤ بھڑکا دیئے ہیں۔ ان پر بیٹھنے والوں کے لیے لازم ہے کہ دکان سے چائے یا سموسے خریدیں، ورنہ کرسی پر مفت بیٹھنے کی اجازت نہیں۔

مری کی گہما گہمی سے نکل کر ایوبیہ جائیں، تو ایک سکون سا مل جاتا ہے۔ راستے میں آنے والے پراسرار جنگلات، دھند آلود پگڈنڈیاں اور برف پوش پہاڑوں سے گزرتے ہم خیبر پختونخوا میں داخل ہو گئے۔ یہاں بندر پوائنٹ بچّوں کا پسندیدہ مقام ہے، جہاں کنارے سے گہری کھائی میں کھانے کی کوئی چیز اچھالی جائے، تو فوراً بندروں کی ایک فوج سڑک پر آجاتی ہے۔ یہ اس قدر نڈر ہیں کہ سیّاحوں کے ہاتھ تک سے اشیاء چھین کر لے جاتے ہیں۔ ہم نے اپنے گروپ کے ساتھیوں کو دیکھا، تو وہ پرجوش انداز میں سیلفیز لے رہے تھے، جن کے پس منظر میں بندر ہی بندر تھے۔ 

ایوبیہ کو نیشنل پارک کا درجہ حاصل ہے۔ یہاں نصف صدی قبل چیئر لفٹ لگائی گئی تھی، آج اس کا ٹکٹ ساڑھے تین سو روپے ہے۔ یہ علاقہ ٹریکرز کے لیے بےحد موزوں ہے، مختلف راستے حسین مناظر سے ہوکر گزرتے ہیں۔ ایوبیہ سے ڈونگا گلی کا ٹریک ایک گھنٹے میں طے کیا جاسکتا ہے۔

سیّاحوں کے لیے شدید برف باری ایک شاندار نظارہ سہی، مگر ان علاقوں میں بسنے والے غریبوں کے لیے ایک سفید کفن کی صورت بچھ جاتی ہے۔ ان کی زندگی مفلوج ہوکے رہ جاتی ہے، مگر یہ سخت سردی میں بھی زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں، اگر سیّاح اس وقت اپنے ساتھ اضافی لحاف یا گرم کپڑے، تحفے میں ان غریب پہاڑی باشندوں کو دے دیں، تو واقعی نئے پاکستان کا آغاز ہوسکتا ہے!