ایک شخص جس کا ذاتی دکھ درختوں سے محبت میں بدل گیا

 
سکلانی نے اپنے ذاتی دکھ کو درختوں کی محبت میں تبدیل کر دیا۔فوٹو کریڈٹ؛ ٹوئٹر

کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دنیا میں کچھ ایسا کر جاتے ہیں کہ ان کے جانے کے  بعد بھی انھیں یاد رکھا جاتا ہے۔دنیا بھر سے ایسے  بہت سے ناموں میں ایک نام وشویشور دت ساکلانی کا بھی ہے۔

بھارت سے تعلق رکھنے والے ساکلانی نے اپنی آخری سانس 96 برس کی عمر میں رواں سال کے آغاز میں لی، لیکن وہ کچھ ایسا کرگئے ہیں جس کی وجہ سے ان کے ہم وطن ان کا نام بطور'ٹری مین آف اتاراخان' ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

ساکلانی نے اپنی تمام زندگی درخت لگانے میں گزار دی۔ اس اکیلے شخص نے اپنے بنجر آبائی گاؤں میں 50 لاکھ درخت لگا کر اسے ہرے بھرے جنگل میں تبدیل کر دیا۔

ساکلانی نے اپنی زندگی کا پہلا درخت آٹھ سال کی عمر میں لگایا اور پھر تمام زندگی یہی کام کیا جب تک ان بینائی نے ان کا ساتھ دیا۔ تاہم تب تک ان کا آبائی گاؤں پجارگاؤں بنجر چٹانوں سے ایک سرسبز جنگل میں تبدیل ہوچکا تھا۔

سکلانی کی پودوں سے محبت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔وہ درختوں کو اپنا بچہ یا اپنا دوست کہتے تھے۔لیکن یہ بات کم لوگ ہی جانتے ہیں کہ لاکھوں کی تعداد میں درخت لگانے والے اس شخص نے اس طرح اپنے دکھوں کا مداوا کرنے کی کوشش کی ہے۔

 ان کے  رشتے دار بتاتے ہیں کہ سکلانی اپنے سگے بھائی کے انتقال کے بعد روز پورے دن کے لیے  جنگلوں میں گم ہوجاتا تھا اور وہاں پودے لگاتا رہتا تھا۔1985 میں اپنی پہلی بیوی کے انتقال کے بعد اپنے درد کو ہلکا کرنے کے لیے سکلانی نے مزید درخت لگانے شروع کر دیے۔

ایسا محسوس ہوتا تھا کہ سکلانی نے اپنے مرحوم بھائی اور مرحومہ بیوی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے یہ بیڑا اٹھایا ہے۔

سکلانی کے گاؤں کے لوگ اس کاوش کی وجہ سے ان سے بہت عقیدت رکھتے ہیں۔ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔شروع شروع میں گاؤں کے لوگ سکلانی کے اس عمل کی مخالفت کرتے رہے یہاں تک انھیں مارا پیٹا بھی گیا۔ 

ان تمام مشکلات کے باوجود سکلانی نئے درختوں کو لگاتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے عدالتی فیصلہ بھی حاصل کر لیا کہ درخت اگانا کوئی جرم نہیں ہے۔

سکلانی اپنے جنگل کو دس سال تک بڑھاتے رہے۔بینائی کھو دینے کے بعد انہوں نے یہ کام روک دیا۔لیکن اس وقت تک وہ 120 ایکڑ پر 50 لاکھ درخت لگا چکے تھے۔

ماحول کو بچانے کے لیے کوششیں کرنے پر انھیں 1986 میں اندرا پریا درشانی ایوارڈ سمیت کئی دیگر ایوارڈز  سے بھی نوازا گیا۔

کچھ سال قبل ساکلانی کو اپنے پیاروں کے بچھڑنے کے دکھ کے بعد ایک اور دکھ بھی اٹھانا پڑا۔ جنگل میں لگ جانے والی آگ کے باعث ساکلانی کے کئی عزیز درخت جل کر راکھ ہوگئے صرف اتنا ہی نہیں ان کے اپنے گاؤں کے کچھ لوگ ان درختوں کو نقصان پہچانے کے درپے رہتے ہیں۔

اس صدمے کے باوجود سکلانی کا یقین تھا کہ ہر بارش میں یہ درخت واپس اگتے رہیں گے۔

سکلانی کے بیٹے کا کہنا ہے کہ اس کے والد ان درختوں کو اپنے 50 لاکھ بچے کہتے تھے اور اب میں اپنے والد کو ان ہی جنگلوں میں ڈھونڈوں گا۔

مزید خبریں :