پاکستان
Time 11 فروری ، 2019

’تعلیم کو کاروبار بنالیا، نجی اسکولوں کو بند اور نیشنلائز بھی کرسکتے ہیں‘


اسلام آباد: سپریم کورٹ میں نجی اسکولوں کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران جسٹس گلزار نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ  نجی اسکولوں کی انتظامیہ کی آنکھ میں شرم کا ایک قطرہ بھی نہیں ہم اسکولوں کو بند  اور نیشنلائیز بھی کرسکتے ہیں۔

سپریم کورٹ میں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے 2 نجی اسکولوں کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔

دورانِ سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے نجی اسکول کے حکام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی جرأت کیسے ہوئی کہ اسکول فیس کے عدالتی فیصلے کو ڈریکونیئن فیصلہ کہا، والدین کو لکھے گئے آپ کے خطوط توہین آمیز ہیں۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ آپ کس قسم کی باتیں لکھتے ہیں، ہم آپ کے اسکولوں کو بند کر دیتے ہیں، نیشنلائز بھی کرسکتے ہیں، سرکار کو کہہ دیتے ہیں کہ آپ کے اسکولوں کا انتظام سنبھال لے۔

عدالت کے اظہارِ برہمی پر نجی اسکول کے وکیل نے کہا کہ ہم عدالت سے معافی کے طلب گار ہیں، دوبارہ ایسا نہیں ہوگا۔

اس پر جسٹس گلزار نے کہاکہ ٹھیک ہے آپ تحریری معافی نامہ جمع کرادیں ہم دیکھ لیں گے، آپ کے پاس کالا دھن ہے یا سفید، ہم آڈٹ کرالیتے ہیں، تعلیم کو کاروبار بنالیا ہے، اسکول پیسے بنانے کی کوئی صنعت نہیں، نجی اسکولوں کی انتظامیہ کی آنکھ میں شرم کا ایک قطرہ بھی نہیں، نجی اسکولوں سے بچے کتنی بیماریاں لے کر نکلتے ہیں۔

نجی اسکول کےوکیل نے عدالت کو بتایا کہ عدالت کی تضحیک کا کوئی ارادہ نہیں تھا، عدالتی فیصلے پر عمل کرکے فیس کم کردی ہے۔ْ

جسٹس گلزار احمد نے مزید ریمارکس دیے کہ عدالتی فیصلے کے بعد کس قسم کی باتیں کی گئیں،نجی اسکولوں سے کیوں نہ نمٹ لیں، حکومت کو نجی اسکول تحویل میں لینے کا حکم دے دیتے ہیں، اسکول انڈسٹری یا پیسہ بنانے کا شعبہ نہیں، نجی اسکول والے بچوں کے گھروں میں گھس گئے ہیں اور زہرل گھول دیا ہے، نجی اسکول والے بچوں کے والدین سے ایسے سوال پوچھتے ہیں جن کا تصور نہیں کرسکتے، والدین بچوں کو سیر کرانے کہاں جاتے ہیں، نجی اسکول یہ پوچھنے والے کون ہوتے ہیں، جس اسکول کی فیس زیادہ ہو وہی مشہور ہوجاتا ہے۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔ 

مزید خبریں :