نامور بھارتی اداکار کا مقبوضہ کشمیر میں استصواب رائے کا مطالبہ

 افسوس ہوتا ہے جب لوگ کہتے ہیں کہ فوجی کشمیر میں مرنے کے لیے جارہے ہیں: بھارتی اداکار۔ فوٹو: فائل

پلوامہ میں ہونے والے حملے کے بعد بھارت میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے اور اب ایک نامور بھارتی اداکار و سیاستدان نے مقبوضہ وادی میں استصواب رائے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

چار روز قبل مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں خود کش کار بم دھماکے میں بھارتی سیکیورٹی فورس کے 44 اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔

بھارت کی جانب سے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بغیر تحقیقات کے ہی حملے کا الزام پاکستان پر دھر دیا گیا۔

پاکستان نے بھارتی الزام کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر بھارت کے پاس پاکستان کے ملوث ہونے کے شواہد ہیں تو پیش کرے، بغیر ثبوتوں کے الزام تراشی سے دنیا مطمئن نہیں ہو گی۔

ایک طرف بھارت کے انتہا پسند سیاستدانوں نے پاکستان کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے تو دوسری جانب خود بھارت میں پلوامہ حملے کے حوالے سے سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔

سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کو پلوامہ حملے کی مذمت میں پاکستان کا نام لینے پر شدید تنقید کا سامنا ہے اور انہیں نامور کامیڈی شو ’دی کپل شرما‘ سے بھی نکال دیا گیا ہے۔

ایک سابق بھارتی جنرل سابق بھارتی فوجی کمانڈر لیفٹننٹ جنرل (ر) دیپندرا سنگھ ہوڈا نے بھی پلوامہ حملے کے حوالے سے اعتراف کیا کہ پلوامہ حملے میں بھارت کا ہی بارود استعمال کیا گیا۔

بھارتی جنرل کا نیویارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ ممکن نہیں کہ اتنی بڑی مقدار میں بارود دراندازی کرکے اتنی دور لایا جاسکے کیوں کہ حملے میں ساڑھے سات سو پاؤنڈ بارود استعمال کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی فوجی چھاؤنی کہا جاتا ہے جہاں اس وقت تقریباً 7 لاکھ بھارتی فوجی تعینات ہیں۔

اب نامور بھارتی اداکار اور سیاستدان کمل ہاسن کا بیان بھی سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں استصواب رائے کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

کمل ہاسن نے کہا کہ بھارت کو آخر ڈر کس بات کا ہے، وہ کشمیر میں استصواب رائے کیوں نہیں کراتا؟

انہوں نے مزید کہا کہ افسوس ہوتا ہے جب لوگ کہتے ہیں کہ فوجی کشمیر میں مرنے کے لیے جارہے ہیں۔

بھارتی اداکار نے کہا کہ سیاستدان درست رویہ اپنائیں تو کوئی فوجی نہیں مرے گا۔

کمل ہاسن کو بھی مقبوضہ کشمیر میں استصواب رائے کے بیان پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔

مزید خبریں :