جنگ بچوں کا کھیل نہیں

معروف بھارتی صحافی ، پروگرام اینکر ، کالم نگاراور تجزیہ کار راج دیپ سردیسائی نے حالیہ کالم میں بلکل درست لکھا کہ جنگ کوئی کرکٹ کامیچ نہیں ہے، لائن آف کنٹرول پر بھارتی حملے کو سیاسی تماشے کے درجے تک نہ گرایا جائے۔ انہوں نے سوال کیا کہ " کیا 2019 کے انتخابات پلوامہ اور پاکستان کی بنیاد پر لڑے جائیں گے؟" راج دیپ نے کہا کہ پلوامہ حملے سے ہفتوں پہلے ہی انتخابی جنگ کی لکیریں کھنچی جا چکی تھیں۔ بی جے پی کی قیادت مضبوط حکومت کے حق اور کمزور مخلوط حکومت کے خلاف بات کررہی تھی جبکہ ان کے مخالفین اور حزب اختلاف کی جماعتیں مودی حکومت کے بے روزگاری میں اضافے سے کاشتکاروں کی بدحالی کے ساتھ عوام کی خوش حالی کے پروگرام پر عمل درآمد میں ناکامی پر اپنی توجہ مرکوز کیے تھی۔

لائن آف کنٹرول پر حملے کے بعد بی جے پی کے سیاسی قیادت انتخابی مہم کو ایک طاقتور جارحانہ قوم پرستی کے ساتھ نریندر مودی کو ایک ایسے لیڈر کی طرح پیش کرنے کی کوششوں میں ہے جو دشمن کو سبق سکھانے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ اس پروپیگنڈے کا مقصد عوام کو باور کرانا ہے کہ انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف ووٹ مودی کے خلاف نہیں ہے بلکہ ملک دشمنوں کی حمایت کا ووٹ ہو گا۔ دوسرے لفظوں میں مودی کے مخالفین ملک دشمن ہیں۔

دوسری جانب جنگی جنون کے نشے میں دھت اور پاگل پن میں مست بھارتی میڈیا بھی عوام کے جذبات کو بھڑکا نے اور جنگ کی حمایت کرنے پر تلا ہے ۔ ساتھ ہی بھارتی شوشل میڈیا ایکٹوسٹس کی فوج بھی اس دوڑ میں آگے آگے ہے۔ اگر کوئی بھارتی صحافی یا تجزیہ کار حکومتی نمائندوں سے چبھتے ہوئے سوالات پوچھنے کی جرات کرتا ہے تو وہ اسے فوری طور پر ملک دشمن قرار دے کر خاموش کروا نے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ عوام میں جعلی اور خود ساختہ جھوٹی خبریں، افواہیں اور غلط فہمیاں پھیلانے میں حائل آوازوں کو دبایا جا سکے۔

بھارت کے معتدل صحافتی حلقوں کا ماننا ہے کہ پلوامہ دھماکے کی وجہ خفیہ ایجنسیوں اور سکیورٹی اداروں کی ناکامی ہو یا بھارتی حکومت کی غیرواضح کشمیر پالیسی یا کچھ اور بھارتی حکومت اپنی ساری ناکامیوں اور خامیوں کو پاکستان سے جنگی کیفیت پیدا کر کے قومی اتحاد کی ضرورت کے پیچھے چھپانے کی کوشش کررہی ہے۔

راج دیپ کہتے ہیں کہ بھارت میں دیوانگی اور جنون کی انتہا ئی نامعقول حدود تک پہنچ گئی کہ اب کرکٹ کے لیجنڈز سنیل گواسکر اور سچن تنڈلکر کی حب الوطنی پر بھی سوال اُٹھائے گئے کیونکہ وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ 2019 کے ورلڈکپ میچ کے بائیکاٹ کے حامی نہیں ہیں۔

ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا ہے کہ جب بی جے پی نے اپنی جماعت اور قیادت کو ہندو قوم پرستی سے جوڑا ہو۔ یہی حربہ بی جے پی نے مودی کی قیادت میں 2002 کے گجرات کے متنازع انتخابات میں استعمال کیا تھا۔ اس سے قبل بھی گودھرا اسٹیشن پر ٹرین کے ڈبّے میں آگ سےہونے والی ہلاکتوں کا الزام نہ صرف پاکستان بلکہ بھارتی مسلمانوں پر لگا کر انہیں انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایاگیا ۔ ظلم و بربریت کے اس وقعے میں نہ صرف ہندو مذہبی جنونیت بلکہ گجراتی قومیت کو اُبھارا گیا ۔ ان فسادات میں 2000 سے زائد مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا تھا ۔ تاہم اس صورت حال میں ہوئے انتخابات کا نتیجہ بی جے پی کی دوتہائی اکثریت سے کامیابی تھی۔

بھارتی معتدل حلقے سوال کرتے ہیں کہ کیا بی جے پی 2002 کا انتخابی ماڈل اب 2019 کے انتخابات میں بھی استعمال کر کے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے ؟

اس سوال کا جواب تلاش کریں تو معلوم ہو گا کہ 2002 اور 2019 میں فرق صرف اتنا ہے کہ اس کہانی کا محور کشمیری مسلمان، پاکستان، جیش محمد اور اندرونی و بیرونی دشمنوں سے خطرات کی جھوٹی اور من گھڑت باتیں ہیں ۔ اس خوفناک کہانی کو انتخابی حربے کے طور پر جان بوجھ کر پھیلایا جارہا ہے ۔ اس کی ایک مثال بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما امیت شاہ کی آسام کی حساس ڈسٹرکٹ لاکھم پور میں تقریر کرتے ہوئے اعلان کرنا ہے کہ بی جے پی آسام کو دوسرا کشمیر نہیں بننے دے گی۔

بھارت کی انتخابی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر اور پاکستان انتخابات کا مرکز نہیں رہے۔ یہاں تک کہ 1999 میں اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں بی جے پی کی کارگل جنگ کے فوری بعد انتخابات میں کامیابی کے موقع پر بھی نہیں ۔

بھارتی میڈیا کو سمجھنا چاہیے کہ جنگ کا ماحول پیدا کر کے قوم کو متحد تو کیا جا سکتا ہے اور کسی سیاسی جماعت کو شمالی بھارت اور بالخصوص اتر پردیش جیسے علاقوں میں کہ جہاں خونریز ی کے اثرات اب تک موجود ہیں پاکستان کے خلاف سخت رویے کی بنیاد پر فیصلہ کن حمایت بھی حاصل ہو سکتی ہے۔ لیکن دو ایٹمی پڑوسیوں کے درمیان تنازع کوہوا دینا انتہائی خطرناک اور مہلک ثابت نہیں ہو گا ۔

امن کے حامی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ “اُڑی” جیسی فلموں کے ذریعے عوام میں جوش جذبہ پیدا کرنا آسان ہے لیکن حقائق پر ایک نگاہ ڈال کر یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ موجودہ حالات انتہائی محتاط رویے کا تقاضہ کرتے ہیں۔

بھارتی ٹی وی شوز میں جنگی جنون کے نشے میں مست ہو کر جس قسم کی لاپرواہی اور بچگانہ پن کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اینکر اور مہمانوں کی حساس معاملات کا کوئی شعور نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بھارتی ٹی وی چینلز زیادہ سے زیادہ ریٹنگ کی دوڑ میں جنگی جنونیت کو ہوا دے رہے ہیں جس کے منفی اثرات بھارتی عوام کو برداشت کرنا ہوں گے۔ ہر ذی شعور یہ ہی کہے گا کہ کسی بھی حکومت کی محض انتخابات میں کامیابی کے لیے زیادہ ووٹ لینے کے چکر میں جنگ کے نام پر قومی سالمیت سے کھیلنا کسی طور درست حکمت عملی نہیں ہو سکتی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔