ڈاکٹروں کی لکھائی خراب کیوں ہوتی ہے؟

وقت کی کمی کے باعث کچھ طبی اصطلاحات کے مخفف استعمال کیے جاتے ہیں۔ فوٹو: شٹر اسٹاک

کہتے ہیں ڈاکٹر بننے کے لیے ڈگری کے ساتھ ساتھ خراب ہینڈ رائٹنگ کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف خراب ہینڈ رائٹنگ کے حامل افراد ہی ڈاکٹر بننے کی خواہش اور اہلیت رکھتے ہیں۔

اس حوالے سے ایک رائے یہ بھی ہے کہ ڈاکٹروں کو جلدی جلدی بہت زیادہ لکھنا پڑتا ہے اور لکھے بغیر اس کام کا گزارہ نہیں ہے۔

ڈاکٹر بروکاٹو کے مطابق اگر دن میں کسی کو  10 سے 12 گھنٹے لکھنا پڑے تو پھر اس کا خوش خط ہونا بہت مشکل ہے۔ مسلسل لکھنے کے نتیجے میں ہاتھ تھک جاتے ہیں۔

جینیسس پین سینٹرز کے پین مینجمنٹ اور ایم ڈی اشر گولڈ اسٹین کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کی ہینڈ رائٹنگ خراب اس لیے ہو جاتی ہے کہ ہاتھ کا سائز چھوٹا ہونے کی وجہ سے ہاتھوں کے پٹھے تھک جاتے ہیں اس لیے ممکن نہیں ہے کہ ہینڈ رائٹنگ کو خوبصورت بنایا جا سکے۔

اگر ڈاکٹر کو ہر مریض کے ساتھ ایک گھنٹا گزارنے کا موقع ملے تو یقیناً وہ آہستہ آہستہ لکھ سکتا ہے لیکن ہوتا اس کے بر عکس ہے،  اوسطاً ڈاکٹر ہر مریض کو 15 منٹ دیتا ہے تو ایک گھنٹے میں وہ 4 مریضوں کی ہسٹری اور اس کے لیے نسخہ لکھتا ہے۔ 

ڈاکٹر تھم کے مطابق اگر آپ کو کوئی مشکل لفظ لکھنا پڑے اور آپ کے پاس اسے چیک کرنے کے لیے خود کار چیک یا لغت بھی موجود نا ہو تو آپ کیا کریں گے، آپ اسے کھینچ کر لکھیں گے تاکہ غلطی کو چھپا سکیں اور ڈاکٹروں کے پاس بہت سی ایسی مشکل اصطلاحات ہوتی ہیں جنہیں اسپیلینگ سمیت یاد رکھنا ایک مشکل کام ہوتا ہے۔

کچھ اصطلاحات ایسی ہیں وقت کی کمی کی وجہ سے جن کے مخفف استعمال کیے جاتے ہیں جیسے کہ  'کیوڈی' کا مطلب ہے دن میں ایک، اور 'ٹی آئی ڈی'  کا مطلب ہے دن میں تین وقت۔ میڈیکل اسٹور پر موجود لوگ ان تمام اصطلاحات سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں۔

میڈیکل نسخے میں ہونے والی چھوٹی سے چھوٹی غلطی بھی کوئی بڑا نقصان کر سکتی ہے۔

2006 میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال میں 7000 سے زیادہ لوگ نسخے میں غلطی کی وجہ سے موت سے کی آغوش میں چلے گئے۔

اسپتال بھی اب جدت کو اپناتے ہوئے الیکٹرانک ریکارڈز کا طریقہ کار اپنا رہے ہیں جن میں غطیوں کی گنجائش کم ہونے کا امکان ہوتا ہے۔

الیکٹرانک ریکارڈز ہونے کے باوجود ڈاکٹروں کے ہاتھ سے لکھنے کو ختم  نہیں کیا جا سکتا۔