پیدائش سے قبل ہی بچوں کے امراض قلب کے علاج کا تعین ممکن


وائلٹ پیدائشی دل کے عارضے کے کامیاب علاج کے بعد ایک صحت مند زندگی گزار رہی ہے۔ فوٹو کریڈٹ : بی بی سے 

طبی میدان میں تحقیق کار جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کا سہارا لیتے ہوئے نئے نئے معرکے سر کرنے میں مصروف ہیں، انہی معرکوں میں ایک معرکہ طبی تحقیق کاروں کا ماں کے بطن میں موجود بچے کے دل کا بے مثال عکس بنانے کا بھی ہے۔

سائنسدانوں نے تحقیق کے لیے حاملہ خواتین کے ایم آر آئی مشین میں اسکین کروانے اور تھری ڈی ماڈلز تخلیق کرنے والے کمپیوٹر کی مدد لی، خواتین کے بطن میں موجود ننھے دھڑکتے ہوئے دلوں کے تھری ڈی ماڈلز بنا لیے۔ ان ماڈلز نے پیدائش کے بعد بچوں کےعلاج کے مرحلے کو انتہائی آسان بنا دیا ہے۔

اس پروجیکٹ پر کام کرنے والی کنگ کالج لندن اور گائز اینڈ سینٹ تھامس کی ٹیم کا کہنا کہ اس سے پیدائشی طور پر دل کی بیماریوں والے بچوں کی نگہداشت میں بہتری آئے گی۔

اس ٹیکنالوجی کے استعمال کی ایک مثال ہیں وائلٹ وئینا۔ ماں کے پیٹ ہی میں دل کے جان لیوا عارضے میں مبتلا وائلٹ وئینا کی بیماری کا ڈاکٹروں کو پہلی دفعہ ایک نارمل الٹرا ساؤنڈ کے دوران معلوم ہوا۔ اس وقت وائلٹ اپنی ماں کے شکم میں 20 ہفتے مکمل کر چکی تھی۔

بیماری کی مزید تفصیل میں وائلٹ کی ماں کو معلوم ہوا کہ دنیا میں آنے سے قبل ننھی سی جان کے دل میں شریانوں کے سکڑنے کا عمل شروع ہو چکا ہے اور بچی کے دل میں دو چھوٹے سوراخ بھی ہیں۔

بچی کی ماں کربی لیا نے برطانوی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ اس نے دنیا میں آنے کے بعد بچی کی جان بچانے کے لیے ڈاکٹروں کو پیدائش سے قبل ہی پلان بنانے کی اجازت دے دی تھی۔ پیدائش کے بعد مجھے اس بچی کو چھونے کی اجازت نہیں تھی اور ڈاکٹروں نے بچی کو فوراً ہی ادویات پر ڈال دیا تھا۔

ڈاکٹروں کے فوری اقدام اور پہلے سے علاج کے لیے منصوبہ بندی کرنے میں اس تھری ڈی ماڈل نے اہم کردار ادا کیا۔ پیدائش کے ایک ہفتے بعد ہونے والی سرجری کے نتیجے میں بچی اب صحت مندانہ زندگی گزارنے کے قابل ہو چکی تھی۔

کمپیوٹر سافٹ ویئر نے انتہائی باریکی سے دل کے مختلف عکسوں کو جوڑ کر ایک بہتر تصویر بنائی ورنہ اسکین میں ننھے سے تیزی سے دھڑکتے ہوئے دل کو دیکھ کر اس کی جانچ ممکن نہ تھی۔



کنگ کالج کے ڈاکٹر ڈیوڈ للیوڈ کا کہنا ہے کہ وہ امید رکھتے ہیں کہ اس طرح سے پیدائش سے قبل دل کے عارضوں میں مبتلا بچوں کے دل کی جانچ اب ایک عام طریقہ کار بن جائے گا۔

ڈاکٹر کے مطابق جن ہسپتالوں میں پہلے سے ایم آر آئی مشین موجود ہے وہاں ایک اچھے کمپیوٹر کے ساتھ اس ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔

مزید خبریں :