ناسا کی 60 روز تک بستر پر لیٹنے والوں کیلئے زبردست پیشکش

بستر ایک مصنوری خلائی چیمبر کے طور پر کام کرے گا۔ فوٹو کریڈٹ : ناسا

امریکی خلائی تحقیقی ادارے کی جانب سے چاند، ستاروں اور کہکشاؤں کی خبریں آنا معمول کی بات ہے لیکن اب ناسا کی جانب سے آنے والی ایک پیشکش نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی ہے، خصوصاً ان لوگوں کی جو بستر پر لیٹے لیٹے ہی چاند تارے توڑ کر لانے کے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔

جی ہاں! یہ پیشکش ہے 60 دن بستر پر لیٹ کر گزارنے کی جس کے عوض ناسا آپ کو 18500 ڈالر دے گا۔ 

سائنسدانوں کے لیے مریخ پر انسانوں کے بس جانے سے قبل  یہ جاننا ضروری ہے کہ انسانی جسم پر وہاں رہنے کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

خلا کا سفر نہ صرف مشکل بلکہ پُر خطر بھی ہے اس لیے ناسا اور یورپین اسپیس ایجنسی (ای سا) نے مشترکہ طور پر ایک بیڈ ریسٹ اسٹڈی کے انعقاد کا اعلان کیا ہے۔

اس تحقیق کے لیے اسپیس ایجنسیز نے 2 درجن رضاکاروں کی تلاش شروع کی ہے جو 60 دن بستر پر لیٹ سکیں۔ دوسروں کے لیے یہ آرام جب کہ سائنسدانوں کے لیے یہ کام ہوگا جس سے وہ یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے خلا کا سفر کیسے خلا نوردوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔

رضاکاروں کو اس کے لیے جرمنی کے شہر کیلون کا سفر کرنا پڑے گا۔ رضاکارانہ طور پر اس تحقیق کا حصہ بننے والے امید واروں کے لیے ضرروی ہے کہ ان کی عمر 24 سے 55 کے درمیان ہو۔ وہ صحت مند ہوں اور جرمنی زبان بولنے کے اہل ہوں۔

اس تحقیق کا آغاز رواں سال ستمبر میں کیا جائے گا۔ تحقیق کا کل دورانیہ 89 دن ہے جس میں سے بستر پر جانے سے قبل امیدواروں کو ماحول سے عادی ہونے کے لیے 05 دن دیے جائیں گے۔

60 دن بستر پر گزارنے کے بعد 14 دن بحالی کے لیے ملیں گے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا خلا نورد اپنا وقت گزارتے ہیں۔

بستر پر لیٹے رہنے کے 60 دن کے دوران شرکاء کو کھانے سے لے کر حوائج ضررویہ تک تمام کام بستر پر لیٹے لیٹے ہی کرنے ہوں گے۔ وہ ٹی وی دیکھنے کے ساتھ ساتھ مطالعہ بھی کر سکیں گے۔

سائنسدانوں کی جانب سے شرکاء کو آن لائن کورسز میں داخلہ لینے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔

یہ بستر ایک مصنوعی خلائی چیمبر کے طور پر کام کرے گا۔ یہ  تحقیق نہ صرف خلا نوردوں کے لیے مفید ثابت ہو گی بلکہ اس سے زمین پر رہنے والوں کی عام انسانی بیماریوں کو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی۔

یہ تحقیق سائنسدانوں کی کڑی نگرانی میں کی جائے گی اور پوری تحقیق کے دوران طبی عملہ، فزیوتھراپی کا عملہ، سائنسدان اور ماہر غذائیت ہمہ وقت وہاں موجود رہیں گے۔

مزید خبریں :