پنجاب کے ضلع خانیوال سے جنوب مشرق کی طرف تقریباً 45 کلومیٹر دور ایک چھوٹا مگر تاریخی شہر تلمبہ آباد ہے اور یہ عموماً معروف عالم دین مولانا طارق جمیل کے آبائی گھر کے حوالے جانا جاتا ہے لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ تلمبہ کی ایک بڑی پہچان گھڑ نیزہ بازی ہے۔
تلمبہ نیزہ بازی کا مرکز ہے جہاں ایک پرائیویٹ کلب محمدیہ حیدریہ سلطانیہ اعوان نیزہ بازی کلب تقریباً گزشتہ 20 برس سے گھڑ سواری کے شوقین افراد کے لیے ٹینٹ پیگنگ (نیزہ بازی) کے مقابلوں کا انعقاد کر رہا ہے۔
گزشتہ ماہ یہیں پاکستان نے نیزہ بازی کے چھ عالمی ریکارڈ قائم کیے جن کا جائزہ اس وقت گنیز ورلڈ ریکارڈ کی ٹیم لے رہی ہے اور امید ہے کہ آئندہ چند ماہ میں اس کا باقاعدہ اعلان بھی کر دیا جائے گا۔
پاکستان نے کون کون سے عالمی ریکارڈ قائم کیے اور اس میں کتنے ماہر گھڑ سواروں نے حصہ لیا؟ اس حوالے سے آگے آپ کو بتائیں گے لیکن پہلے اس کھیل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگرچہ "نیزہ بازی" کا لفظ کسی کے لیے بھی نیا نہیں لیکن یہ کھیل کس طرح کھیلا جاتا ہے اور اس کے بنیادی اصول کیا ہیں شاید بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں۔
اسے جواں مردی، دلیری اور بہادری کا کھیل کہا جائے تو بالکل بھی غلط نہ ہو گا کیونکہ اس میں کھلاڑی کو تیز رفتار گھوڑے کو سنبھالنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف اپنا توازن برقرار رکھنا ہوتا ہے بلکہ اپنی نظر ایک چھوٹے سے ہدف جسے کلا کہا جاتا ہے اس پر مرکوز کرکے اسے نیزے کی مدد سے اکھاڑنا ہوتا ہے۔
نیزہ بازی کے کھیل کا آغاز کب، کہاں اور کیسے ہوا اس حوالے سے تاریخ میں کئی باتیں ملتی ہیں۔ انہی میں سے ایک یہ کہ چوتھی صدی قبل مسیح میں جنگجوؤں نے اس کھیل کی ابتداء کی جس کا مقصد فوجیوں کو گھڑسواری کے دوران تلوار زنی اور نیزہ بازی کی مشق کرانا تھا۔
اس حوالے سے ایک خیال یہ بھی ہے کہ اس کھیل میں استعمال ہونے والی تیکنیک سکندر اعظم کی جنگی تیکنیک سے لی گئی ہے۔
ایشین اور یورپین سلطنتوں نے اس کھیل کو مزید آگے بڑھایا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ کھیل مقبولیت حاصل کرتا گیا۔
گھڑ سواری کی بین الاقوامی تنظیم کے حکام کا خیال ہے کہ اس کھیل کی ابتداء قرون وسطیٰ (چھٹی صدی عیسوی سے سولہویں صدی عیسوی کا دور) کے دوران ایک جنگی حکمت عملی کے طور پر ہوئی جس کے ذریعے گھڑ سوار اپنے لبمے نیزوں اور تلواروں کی مدد سے ہاتھیوں پر سوار جنگجوؤں کا مقابلہ کیا کرتے تھے۔
کہا جاتا ہے کیونکہ پرانے وقتوں میں گھوڑوں پر سوار فوجیں صبح سویرے اپنے دشمن پر حملہ کرکے ان کے ٹینٹ اکھاڑ پھینکتی تھیں جب کہ اس کھیل میں بھی زمین میں دھنسے ہوئے کلے (کھجور یا کسی دوسری نرم لکڑی کا ٹکڑا) نیزے کی مدد سے اکھاڑا جاتا ہے اس لیے اس کھیل کا نام بھی ٹینٹ پیگنگ ہی مشہور ہو گیا۔
اس وقت یہ کھیل پاکستان، بھارت، آسٹریلیا، اومان، قطر اور جنوبی افریقا میں دلچسپی کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔
اولمپک کونسل آف ایشیا نے ٹینٹ پیگنگ (نیزہ بازی) کو باقاعدہ ایک کھیل کی حیثیت سے 1982 میں تسلیم کیا۔
گھڑ سواری کے بین الاقوامی ادارے نے 2004 میں اسے گھڑ سواری کے باقاعدہ کھیل کا حصہ تسلیم کیا جس کے بعد اس کھیل کی باقاعدہ عالمی چیمپئن شپ بھی ہونے لگیں۔
لیکن انٹرنیشنل ٹینٹ پیگنگ فیڈریشن کی بنیاد 21 مارچ 2013 کو بھارتی ریاست ہریانہ میں ہونے والی ٹینٹ پیگنگ چیمپئن شپ کے موقع پر رکھی گئی جس میں پاکستان کا کردار بھی بنیادی تھا۔
پاکستان کے ملک عطا محمد خان المعروف پرنس ملک عطا کی مشاورت سے بھارت کی گھڑ سوار فیڈریشن کے حکام نے انگلینڈ، آسٹریلیا، مصر، امریکا، لبنان، یونان، سوڈان، سری لنکا اور قطر سمیت 17 ممالک کے نمائندوں کا ایک اجلاس طلب کیا جس میں نیزہ بازی کی عالمی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی۔
اِس وقت اس تنظیم کا ہیڈکوارٹر اومان میں ہے اور دنیا کے 35 ممالک انٹرنیشنل ٹینٹ پیگنگ فیڈریشن کے رکن ہیں۔
اب تک نیزہ بازی کے تین عالمی کپ منعقد ہو چکے ہیں۔ پہلا عالمی مقابلہ عمان میں 2014 میں کھیلا گیا جس میں پاکستان، سمیت 9 ممالک شریک ہوئے اور جنوبی افریقا نے اعزاز اپنے نام کیا۔
دوسرا عالمی کپ 2016 میں مصر میں ہوا جس میں میزبان ٹیم نے ہی کامیابی سمیٹی جب کہ نیزہ بازی کا تیسرا عالمی میلا متحدہ عرب امارات میں ہوا جس میں مصر نے اپنے اعزاز کا کامیاب دفاع کیا۔
پاکستان میں ٹینٹ پیگنگ یا نیزہ بازی کا کھیل بنیادی طور پر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں کھیلا جاتا ہے لیکن بلوچستان اور سندھ کے بھی کچھ حصوں میں اس کے مقابلے ہوتے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وقت 200 رجسٹرڈ کلب ہیں جن میں سے 130 کلب صرف پنجاب میں چل رہے ہیں جب کہ باقی خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر میں ہیں اور وقتاً فوقتاً ان کے علاقائی اور صوبائی سطح پر مقابلے بھی ہوتے رہتے ہیں۔
سرکاری سطح پر بھی یہ کھیل کھیلا جاتا ہے لیکن سیاست، اقربا پروری اور وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اس کھیل کو سرکاری سے زیادہ نجی سطح پر فروغ مل رہا ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں اس کھیل کو فروغ دینے میں نجی کلبز کا کلیدی کردار ہے تو یہ ہرگز غلط نہیں ہو گا۔ یہ پرائیویٹ کلبز اپنے اپنے علاقوں میں مختلف ٹورنامنٹس منعقد کراتے ہیں جن میں پاکستان بھر سے کھلاڑی شرکت کرتے ہیں۔
اس کا ثبوت تلمبہ شہر کے نواحی علاقے حسین پور آڑی والا میں پاکستان کے سب سے بڑا نیزہ بازی پرائیویٹ کلب محمدیہ حیدریہ سلطانیہ اعوان نیزہ بازی کلب گزشتہ 20 سال سے باقاعدگی سے منعقد کرا رہا ہے۔
مذکورہ کلب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کئی کھلاڑی پاکستان کی قومی ٹیم کا بھی حصہ ہیں اور بین الاقوامی سطح پر بھی ملک کی نمائندہ کر چکے ہیں۔
اس کلب کے سربراہ سلطان محمد علی کا کہنا ہے کہ ٹورنامنٹس باقاعدگی سے منعقد کرانے کا مقصد نوجوانوں کو صحتمند سرگرمی کی فراہمی کے ساتھ اس کھیل کی بین الاقوامی سطح پر تشہیر بھی ہے۔
سلطان محمد علی کے مطابق اگر حکومت اس کھیل پر تھوڑی سی توجہ دے اور کھلاڑیوں کو سہولیات فراہم کی جائیں تو پاکستان میں اس قدر ٹیلنٹ موجود ہے کہ ہم اس کھیل میں دنیا بھر میں اپنا لوہا منوا سکتے ہیں۔
قومی ٹیم کے لیے عالمی سطح پر کھیلنے والے کھلاڑیوں سلطان بہادر عزیز اور سلطان صفدر کا کہنا ہے کہ اس کھیل کو سیاست سے پاک کرکے ہم بین الاقوامی سطح پر گھڑ سواری اور نیزہ بازی میں پاکستان کا نام روشن کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں اس حوالے سے اب تک ایک عالمی مقابلہ منعقد ہوا ہے۔ 2014 میں فیصل آباد میں انٹرنیشنل نیزہ بازی چیمپئن شپ منعقد ہوئی تھی جس میں مختلف ممالک کی 8 ٹیموں نے حصہ لیا تھا۔
نیزہ بازی کے کھیل میں گراؤنڈ کی بنیادی لمبائی تقریبا 100 میٹر ہوتی ہے جس میں 70 فٹ کے فاصلے پر ہدف (کلا) زمین میں گڑھا ہوتا ہے، گھڑ سوار نقطہ آغاز (اسٹارٹ لائن) سے گھوڑے کو دوڑانا شروع کرتا ہے اور زمین میں گڑھے ہوئے ہدف کو نیزے کی مدد سے اکھاڑتا ہوا فنش لائن عبور کرتا ہے ۔
لیکن درحقیقت یہ گراؤنڈ 100 سے تقریباً 4 گنا لمبے ہوتے ہیں کیونکہ گھوڑے زیادہ اور متوازن رفتار کے حصول کے لیے اسٹارٹ لائن کے بھی کچھ میٹر پیچھے سے بھاگنا شروع کرتے ہیں اور فنش لائن کے بعد انہیں رکنے کے لیے بھی طویل میدان کی ضرورت ہوتی ہے۔
نیزے کے ذریعے کلا اکھاڑ کر کامیابی سے فنش لائن عبور کرنے والے کھلاڑی کو 4 پوائنٹس ملتے ہیں۔ اگر کوئی کھلاڑی کلا اکھاڑتا تو ہے لیکن اس کا کلا فنش لائن سے پہلے ہی نیزے سے گر جاتا ہے اس کے حصے میں دو پوائنٹس آتے ہیں جب کہ کلا نہ اکھاڑ سکتے والے کھلاڑی کو صفر نمبر ملتا ہے۔
انٹرنیشنل ٹینٹ پیگنگ فیڈریشن کے مطابق اس کھیل کے لیے تلوار کی کم سے کم لمبائی دو فٹ 8 انچ اور زیادہ سے زیادہ 2 فٹ ساڑھے 11 انچ ہونی چاہیے۔
اسی طرح نیزے کی کم سے کم لمبائی 7 فٹ دو انچ اور زیادہ سے زیادہ لمبائی 9 فٹ ہونی چاہیے لیکن پاکستان اور بھارت میں مقامی سطح پر ہونے والے مقابلوں میں نیزوں کی لمبائی 6 فٹ 2 انچ سے 12 فٹ تک ہوتی ہے جو کہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ نیزے سے مختلف ہے۔
کوالیفائنگ راؤنڈ میں کھلاڑیوں کو زیادہ مواقع دینے کے لیے کلے (ہدف) کی چوڑائی 6 سینٹی میٹر رکھی جاتی ہے۔
دوسرا راؤنڈ ناک آؤٹ ہوتا ہے جس میں پیگ (کلے) کی چوڑائی 4 سینٹی میٹر ہوتی ہے جسے مقامی زبان میں آڑی کہا جاتا ہے اور جو لوگ ہدف کو کامیابی سے نشانہ بناتے رہتے ہیں وہ اگلے راؤنڈ میں جاتے رہتے ہیں۔
اگلے راؤنڈ کو مقامی زبان میں پرٹاڑی کہا جاتا ہے جس میں پیگ کی چوڑائی کم کر کے دو سینٹی میٹر کر دی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ مقامی سطح پر کھیلے جانے والے نیزہ بازی کے ٹورنامنٹس میں جیوری کم رفتار سے دوڑنے والے گھوڑے کو وارننگ بھی جاری کرتی ہے لیکن بین الاقوامی سطح پر ہونے والے مقابلوں میں نقطہ آغاز اور نقطہ اختتام پر باقاعدہ کیمرے لگے ہوتے ہیں اور یہ دورانیہ 7 سیکنڈ میں طے کرنا ہوتا ہے بصورت دیگر ہر سیکنڈ کے حساب سے پوائنٹس کم ہوتے رہتے ہیں۔
نیزہ بازی کا کھیل چونکہ کھیلا ہی گھوڑوں پر جاتا ہے اس لیے اس میں گھوڑوں کی نسل، ان کا رنگ، خوبصورتی، اس کا قد اور اس کے بھاگنے کا انداز بھی بہت اہمیت اور پسندیدگی کا حامل ہوتا ہے جب کہ گھوڑوں کے دلچسپ نام بھی ان کو منفرد بناتے ہیں۔
مقامی سطح پر ہونے والے مقابلوں میں آپ کو فراری، روڈ پرنس، جنگل کا بادشاہ، سمندری چیتا، چالاک ہرنی، ریڈ روز، وائٹ فلاور، لال رانی، سفید ملکہ، افلاطون ، سکندر یا ان جیسے اور متعدد دلچسپ اور منفرد نام سننے کو ملیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں پائی جانے والی گھوڑوں کی نسل کو گھڑ سواری کے لیے انتہائی موزوں قرار دیا جاتا ہے کیونکہ پاکستانی نسل کے گھوڑے بغیر جھٹکوں کے زمین پر مضبوط گرپ کے ساتھ بھاگتے ہیں جس سے ناصرف گھڑسوار کے گرنے کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے بلکہ اس سے گھڑسوار کی کمر میں درد ہونے کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔
سفید رنگ کے گھوڑے کو مقامی زبان میں نقرہ کہا جاتا ہے، ریڈش یا بھورے رنگ کے گھوڑے کو کمید اور کالے رنگ والے گھوڑے کو مشکا کہا جاتا ہے، یہ تینوں الفاظ فارسی سے لیے گئے ہیں۔
اسی طرح بھارت میں دو اقسام کے گھوڑے نیزہ بازی کے لیے استعمال ہوتے ہیں، ایک مارواڑی اور کاٹھیاواڑی۔
یورپ میں 6 مختلف اقسام کے گھوڑے نیزہ بازی کے کھیل میں استعمال ہوتے ہیں جن میں تھوروبرڈ، عربین اور ارجنٹینین نسل کے گھوڑے زیادہ مشہور ہیں۔
افریقا، آسٹریلیا اور مشرقی وسطیٰ کے کھلاڑی دستیاب گھوڑے استعمال کرتے ہیں۔
گھوڑے کے 16 بند (چار چھوٹے، چار موٹے، چار بڑے اور چار لمبے) ہوتے ہیں جس سے اس کی پہچان ہوتی ہے کہ گھوڑا خوبصورتی اور دوڑ میں کتنا اچھا ہے۔
ٹینٹ پیگنگ کے عالمی مقابلے میں دنیا بھر سے 12 سے 16 ٹیمیں شریک ہوتی ہیں اور ہر بار ہر ٹیم کو فٹبال کی طرح کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنا پڑتا ہے۔
پاکستان نے اب تک نیزہ بازی کا کوئی ورلڈ کپ تو نہیں جیتا لیکن پاکستانی ٹیم کا شمار دنیا کی بہترین ٹیموں میں ہوتا ہے اور ابوظہبی میں کھیلے گئے آخری ورلڈکپ میں بھی پاکستانی ٹیم 7 ویں نمبر پر آئی تھی۔
قومی نیزہ بازی ٹیم کے کھلاڑی سلطان بہادر کا کہنا ہے کہ پہلے لاہور میں ہونے والا ہارس اینڈ کیٹل شو کا نیزہ بازی کے شوقین حضرات بڑی بے صبری سے انتظار کرتے تھے، 2004 تک تسلسل کے ساتھ جاری رہنے کے بعد حالات خراب ہونے کے باعث یہ ایونٹ بند کرنا پڑا، پھر 2015 میں ایک بار دوبارہ اس شو کو شروع کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس بار بھی سیکیورٹی وجوبات کی بناء پر بند کر دیا گیا۔
پنجاب میں جشن بہاراں کے موقع پر سرگودھا میں ہونے والے نیزہ بازی کے مقابلوں کا شدت سے انتظار کیا جاتا تھا۔
اس کے علاوہ سرکاری سطح پر مقامی حکومتوں کی جانب سے ضلعی سطح پر ٹورنامنٹس کا اہتمام کیا جاتا تھا لیکن بدقسمتی سے عدم دلچسپی اور عدم توجہی کے باعث سرکاری سطح پر ہونے والے ایونٹس تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔
سلطان بہادر کا کہنا ہے کہ اگر سرکاری سطح پر کوئی نیزہ بازی کا مقابلہ ہو بھی رہا ہے تو اس میں بدنظمی بہت زیادہ ہوتی ہے۔
قومی ٹیم کے کھلاڑیوں سلطان بہادر عزیز اور سلطان صفدر کا کہنا ہے کہ اگر بین الاقوامی سطح پر نیزہ بازی کے مقابلے پاکستان میں کرائے جائیں تو پاکستان میں اس حوالے سے بے پناہ صلاحیت موجود ہے اور انٹرنیشنل ایونٹ ہونے سے پاکستان میں غیر ملکی سیاحت بھی بڑھے گی جس سے ملکی معیشت کو بڑا فائدہ پہنچے گا۔
سلطان بہادر کے مطابق نجی سطح پر انٹرنیشنل ٹیموں کو بلانا بہت مشکل کام ہے کیونکہ ان کی رہائش، کھانے پینے اور دیگر سہولیات کا انتظام کرنا ایک مشکل کام ہے۔
سلطان بہادر کے بقول پاکستان میں مقامی سطح پر کھیلی جانے والی نیزہ بازی اور بین الاقوامی سطح پر کھیلے جانے والے ایونٹس میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ یہاں صرف کلے اکھاڑے جاتے ہیں جب کہ انٹرنیشنل مقابلوں میں پہلے تلوار کے ذریعے لیمن کٹنگ کے مقابلے ہوتے ہیں اور پھر نیزہ بازی کے مقابلے ہوتے ہیں۔
قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کا بتانا ہے کہ مقامی سطح پر صرف کلے اکھاڑنے کا مقابلہ ہوتا ہے جب کہ بین الاقوامی سطح پر ہونے والے مقابلوں میں لیمن کٹنگ اور ایک دو اضافی گیمز اس میں شامل کر دیئے جاتے ہیں لیکن اصل مقصد ہدف ہی ہوتا ہے جو گھڑ سوار کو ہی حاصل کرنا ہوتا ہے۔
سلطان بہادر کا کہنا ہے کہ اگر مقامی سطح پر نیزہ بازی کی بات کی جائے تو ہم دیسی نسل کے گھوڑے پر زیادہ آسانی محسوس کرتے ہیں لیکن اگر انٹرنیشنل سطح کی بات کی جائے تو آپ کو ہر طرح کے گھوڑے پر سواری آنی چاہیے کیونکہ بین الاقوامی سطح پر ہونے والے مقابلوں میں آپ اپنے گھوڑے نہیں لے جا سکتے، ان کی ٹرانسپورٹیشن بہت مہنگی ہوتی ہے۔
سلطان صفدر مزید کہنا تھا کہ مقامی گھوڑے استعمال ہونے کی وجہ سے مقامی ٹیم کو بہت فائدہ پہنچتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ڈربی اور پولو کی عالمی تنظیموں کی طرح انٹرنیشنل ٹینٹ پیگنگ فیڈریشن ابھی معاشی طور پر اتنی مستحکم نہیں ہے کہ ان کھیلوں کی طرح گھوڑوں کے پاسپورٹ بنوا سکے اور کھلاڑی اپنے ملک سے گھوڑے لا کر استعمال کر سکیں۔
شہری علاقوں کی نسبت دیہی علاقوں میں گھڑ سواری اور نیزہ بازی کا کھیل زیادہ مقبول ہے کیونکہ دیہاتوں میں رہنے والے لوگوں کے لیے گھوڑوں کی خوراک اور ماحول کی فراہمی آسان ہوتی ہے جب کہ شہری علاقوں میں یہ سہولیات میسر نہیں ہوتیں۔
سلطانیہ اعوان نیزہ بازی ٹورنامنٹ کی انتظامیہ کے مطابق ٹورنامنٹ کے دوران مندرجہ ذیل 6 عالمی ریکارڈ قائم کیے:
محمدیہ حیدریہ سلطانیہ اعوان نیزہ بازی کلب کی انتظامیہ نے ان ریکارڈز کی تمام ویڈیوز گنیز ورلڈ ریکارڈ کی انتظامیہ کو بھیج دی ہیں جو ان کا جائزہ لے کر پاکستان کے عالمی ریکارڈز کا باقاعدہ اعلان کرے گا۔