بلاگ
Time 10 اپریل ، 2019

'باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے'

'باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے'

اس مضمون کا عنوان ثاقب لکھنوی کے  شعر کا پہلا مصرعہ ہے ،کیونکہ یہ حسب حال ہے، شعر کا دوسرا مصرعہ زیادہ مقبول ہے اور وہ بھی حسب حال ہی ہے۔

'جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا  دینے  لگے' 

گزشتہ دنوں ایک خبر نظر سے گزری  ، خبر یہ تھی کہ 'ادویہ ساز کمپنیوں نے ادویات کی قیمتوں میں 100 فیصد ازخود اضافہ کردیا

 یہ خبر روز بہ روز مہنگائی کے بوجھ سے غربت کے دلدل میں دھنستی ہوئی عوام پر مہنگائی کے ایٹم بم کی طرح گری تھی۔

حکومت نے جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں 9 سے 15 فیصد تک اضافہ کیا مگر ادویات بنانے والی کمپنیوں نے حکومتی نوٹیفکیشن کی آڑ میں 100 فیصد تک اضافہ کر دیا۔ قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے جان بچانے والی ادویات کو بھی نہیں بخشا گیا اور بظاہر انہوں نے یہی سوچا کہ غریب جہاں دوائی کے لیے 100 روپے کا انتظام کرتا ہے وہاں ایک صفر بڑھا کر 1000 روپے کا انتظام کر لے گا۔

بات بڑھانے سے قبل دل جلانے کے لیے چند ادویات کی پرانی اور حالیہ قیمتوں کا جائزہ لے لیں: 

ان میں سے زیادہ تر ادویات وہ ہیں جن کا استعمال عام ہے۔

شوگر اور امراض قلب کی بیماری جتنی عام ہے اس کی دوائیاں اتنی مہنگی۔

ادویات کے اسٹور اور کمپنیوں کے مالکان اپنی اپنی مجبوریوں کا رونا روتے ہیں لیکن عوام کی مجبوری سمجھنے کو کوئی تیار نہیں ہے۔

نئی حکومت کے وعدے عوام کے دلوں کو لگے تھے لیکن اقدامات دل بند کر دینے والے لگ رہے ہیں۔

یہ اضافی قیمتیں عوام کے مسائل میں اضافے اور  وسائل کی کمی کی کڑی ثابت ہوں گی۔

ادویہ ساز کمپنیوں کے اس اقدام کے بعد تو فارماسوٹیکل سیکٹر کے مافیا بن جانے پر یقین آچکا ہے۔ لیکن یہ کھیل تو پرانا ہے ، کب سے کھیلا جا رہا ہے  کبھی دوا کو مارکیٹ سے غائب کرکے، اسے 'بلیک' کرکے تو کبھی بغیر اجازت بغیر مجبوری کے قیمت بڑھا کے۔ بس ہار عوام کی ہے اس کھیل میں۔

ادویات مہنگی کرنے کو غربت مٹانے کا آسان طریقہ ہی کہیں گے کہ، نہ غریب زندہ رہے گا اور نہ غربت میں اضافہ ہو گا۔غربت مکاؤ اور غریب پر مٹی پاؤ۔

یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے کہ جب حکومت بین الاقوامی مالیاتی ادرے " آئی ایم ایف" سے قرضہ لینے کی باتیں کر رہی ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ بجلی، گیس، پیٹرول وغیرہ کے ساتھ ڈالر کی سطح میں ہونے والا ہوش ربا اضافہ کسی کے کہنے پر نہیں بلکہ معیشت کی بحالی کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اسی لیے وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں گھبرانا نہیں ہے۔

ہمارے بزرگ اپنی بات سمجھانے کے لیے سبق آموز قصہ کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ انہی دنوں ایک قصہ سنا کہ ایک ملک کا بادشاہ اچانک مر گیا۔ بادشاہ کی کوئی اولاد نہیں تھی، کیا عوام کیا وزیر سب ہی پریشانی کا شکار ، ڈر لگا کہ حالات کا فائدہ اٹھا کر دشمن حملہ نہ کر دے۔

بہت غور و خوص کے بعد لوگوں نے فیصلہ کیا کہ جب تک کوئی قابل اور اہل شخص نا مل جائے کسی ایمان دار اور فقیر منش شخص کو سربراہ بنا دیا جائے۔

اور اسے وزیروں اور مشیروں کا انتخاب اپنی مرضی سے کرنے کا حق بھی دے دیا جائے  تاکہ امور مملکت چلانے میں آسانی رہے۔

اتفاق رائے کے بعد ایک فقیر اور سادہ لوح شخص کو امور مملکت چلانے کا اختیار دے دیا گیا۔ فقیر نے پہلا حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ " حلوے کی دیگیں چڑھا دی جائیں"، ملک کی غریب عوام کو دو وقت کی روٹی مشکل سے مل رہی تھی وہ حلوے کا سن کر جھومنے لگے۔

 بادشاہ نے اہم امور اپنے قریبی فقیر ساتھیوں کے حوالے کیے اور خود اطمینان سے بیٹھ گیا۔ فقیر کے ساتھیوں کے پاس اختیارات آتے ہی وہ بے اختیار ہونے لگے۔ خزانے کا فقیر بھاگتا ہوا مال خانے گیا تا کہ دیکھا جائے کہ وہاں کیا کچھ دھرا ہے۔ لیکن فقیر کو یہ دیکھ کر بہت مایوسی ہوئی کہ خزانہ تو خالی پڑا ہے۔ فقیر دوڑا دوڑا آیا اور بادشاہ کو بتایا۔ بادشاہ نے خود بھی سن رکھا تھا کہ مرنے والے بادشاہ نے خطیر رقم بطور  قرض  لے رکھی تھی اور اب یہ قرض نئے بادشاہ کو سود سمیت واپس کرنا تھی۔ فقیر وزیر خزانہ نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ فکر کی بات نہیں ہم سلطنت کا خزانہ لوٹنے والوں سے دولت واپس لے لیں گے دولت کے انبار لگ جائیں گے۔

فقیر ساتھی نے فوراً ہی دوست امیر ملکوں سے بھیک مانگنے کا منصوبہ بنا لیا۔کیونکہ اسے معلوم تھا کہ سب جانتے ہیں کہ یہ بادشاہ تھوڑا وکھرا ہے۔ بادشاہ یہ منصوبہ سن کر بہت خوش ہوا اور حکم دیا کہ "حلوے کی دیگیں چڑھا دی جائیں"۔

زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ بادشاہ کو قلعے کی حفاظت پر مامور ایک فقیر نے خبر دی کہ دشمن ملک حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ اس کی کیا مجال کی وہ ہم پر حملہ کرے ۔ اس نے رعایا کو خوش کرنے کے لیے وہی حکم دیا " حلوے کی دیگیں چڑھا دی جائیں"۔

 دشمن کی فوجوں نے حملہ آور ہونے کی نیت سے قلعے کے اطراف پڑاو ڈال لیا۔ بادشاہ کو خبر دی گئی تو اس نے وہی حکم دہرایا،" حلوے کی دیگیں چڑھا دی جائیں"۔

ہوتے ہوتے دشمن ملک کی افواج محل کی جانب بڑھنے لگیں ۔ بادشاہ کو خبر دی گئی تو فقیر منش نے کہا کہ ''حلوے کی دیگیں چڑھا دی جائیں''۔ محل کے دربان نے کہا کہ بادشاہ سلامت یہ وقت حلوے کی دیگیں پکانےکا نہیں ہے ملک کو بچانے کا ہے۔ بادشاہ نے جو یہ سنا تو تاج اتار کی تخت پر رکھا اور کہا کہ میں تو چلا اب ، تم لوگ جسے ملک چلانا آتا ہو اسے اپنا بادشاہ بنا لو اور اپنا حلوہ خود پکا لو۔

کہنے کو یہ ایک قصہ ہے لیکن ہماری ملکی تاریخ کی تلخ تاریخ کو بھی  ظاہر کرتا ہے۔

دوائیوں کی قیمتوں پر بہت شور مچا تو ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) نے غیرقانونی طور پر ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کرنے والی  دوا ساز کمپنیوں کے خلاف کارروائی بھی ڈال دی۔

وفاقی وزیر نے بیان داغا کہ عوام کو معیاری اور مناسب قیمت پر ادویات کی فراہمی ممکن بنائیں گے۔

لیکن ڈری سہمی عوام کو اس بیان سے کچھ خاص امید نہیں ملی، نہ جانے کیوں یقین سا ہے کہ یہ بیان بھی بس ایک سیاسی بیان ہی ہوگا کیونکہ ملکی تاریخ ثابت نہیں کرتی کہ بڑھی ہوئی قیمتیں کبھی نیچے بھی آئی ہوں۔

اب بھی وقت ہے کہ حکومت ہوش کے ناخن لے اور عوامی مفاد میں درست فیصلے کرے۔ بیمار معیشت اور اربوں ڈالر قرض کے بوجھ تلے دبے ملک کو بھنور سے نکالنا تو دور کی بات ہے ،یہاں تو عوام کا جینا اور مرنا دونوں ہی مشکل میں ڈال دیے گئے ہیں۔

گزشتہ دنوں میرے ایک عزیز انتقال کر گئے۔ ان کی قبر کے لیے ڈیفنس فیز ون کے قبرستان گئے ۔ گورکن سے رابطہ کیا تو اس نے بتایا کہ قبرستان میں داخلی راستے کے نزدیک قبر 50 ہزار روپے میں ملے گی۔ کچھ دور 25 ہزار روپے میں قبر خریدی اور تدفین کی۔

 روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے کے لارے پر تو یہ عوام عرصہ ہوگیا سسک سسک کر جی رہی تھی، اب اس سے  کفن کا "کپڑا" اور دفن کے لیے دو گز زمین بھی چھین لی گئی ہے۔

خواجہ آصف کا جملہ بھی کیا خوب تھا:

کچھ شرم ہوتی ہے ، کچھ حیا ہوتی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔