شفیق لہجہ اور جاندار مسکراہٹ کے ساتھ خدیجہ بی بی زندگی کا یہ سبق سنا کر کچھ لمحوں کے لیے چپ ہو گئیں لیکن انگلیاں پہیے پر چلتی رہیں۔
جھریوں زدہ چہرے کو دیکھ کر احساس ہوا کہ اس پر وقت بہت ہی کڑا گزرا ہے ، لیکن جس پر گزرا اس نے بہت حوصلے، ہمت اور محنت سے اسے جھیلا ہے۔ یہ جھریاں تو صرف گزرے وقت کی نشانیاں ہیں۔
پھر ان کی زبان یادیں دہرانے لگی، "25 سال کی تھی، بیوہ ہو گئی، دو بچوں کا ساتھ تھا بیٹا اور بیٹی ، گھر والا آرمی میں تھا مگر اس کے مرنے کے بعد معلوم ہی نہیں تھا کہ مرنے والے کا کچھ حساب کتاب بھی ہوتا ہے۔"
خدیجہ بی بی بتاتی ہیں کہ کم عمری میں بیوہ ہوئی تو اس وقت کام تو کچھ نہیں آتا تھا، بس اتنا معلوم تھا کہ زندگی کا بوجھ خود اٹھانا ہے۔
"مٹی واحد چیز تھی جسے ہاتھ لگاسکتی تھی۔۔۔مٹی سونا تو نہ بنی لیکن پیٹ ضرور بھرنے لگی۔"
خدیجہ بی بی نئی کراچی کے علاقے 'کمہار واڑا' میں مٹی کے برتنوں کی ایک فیکٹری میں کام کرتی ہیں جہاں پر ان کے ساتھ یومیہ اجرت پر 15 سے 20 مزید لوگ بھی کام کرتے ہیں۔
'کمہار واڑا' میں مٹی کے برتنوں کی 10 سے 15 فیکٹریاں موجود ہیں اور ان میں کام کرنے والا ہر فرد اپنے کام میں ماہر ہے۔
مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ پہلے یہاں ان فیکٹریوں کی تعداد زیادہ تھی اور گھروں پر بھی کام ہوتا تھا لیکن اب کام ختم ہوتا جا رہا ہے۔
خدیجہ بی بی کے ساتھ اسی احاطے میں کام کرنے والا حامد دھیمے لہجے میں بات کرتے ہوئے اتنے انتہائی مہارت کے ساتھ اپنی انگلیوں سے مٹی کے ڈھیر کو گلدان کی شکل میں اٹھا رہا تھا۔ وہ اسے دو حصوں میں بناتا اور یوں جوڑتا کہ نشان تک نظر نہ آتا۔
دماغ اور نظریں اپنے کام پر ہی مرکوز کیے حامد نے بتایا کہ "مجبوری ہے کچھ اور کرنا نہیں آتا۔۔۔اب تو لڑکے اس کام کی طرف رخ بھی نہیں کرتے۔ یہاں سے پہلے یہ سارا کام لیاری میں تھا، وہاں آبادی بڑھنے لگی تو زمین ہمارے لیے کم ہو گئی ۔وہاں سے اٹھ کر بلدیہ ٹاون میں ٹھکانا بنایا وہاں بھی یہی حال ہوا۔ اب یہاں آئے ہوئے 7 سے 8 سال ہو چکے ہیں۔ دیکھیں یہاں سے کہاں جاتے ہیں، ادھر بھی چاروں طرف آبادی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کے بعد تو لگتا ہے کہ یہ کام اب صرف بند ہی ہوگا۔"
حامد کے مطابق اس کام میں پہلے صرف کمہار خاندان تھا لیکن اب ہر قوم کے لوگ اس میں ہیں اور ان میں سے کچھ تو کمہاروں سے زیادہ کامیاب ہیں۔
اسی احاطے میں حامد کے قریب ہی بیٹھے ہوئے عبدالحمید دیوار پر ٹانگنے والے گملے بناتے ہیں۔ بات کرتے ہوئے لہجے میں ہلکی سی تلخی ضرور تھی لیکن سچائی اور کھرا پن بھی تھا۔
انہوں نے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں نہ تو بجلی ہے اور نہ ہی پانی جب کہ کی گندگی بھی بہت ہے۔
حامد کہتے ہیں کہ لوگ زور بازو پر یقین رکھتے ہیں اور ہم پاؤں کے زور پر۔ "بجلی نہ ہوئی تو ہم پاؤں سے یہ پہیہ چلاتے رہیں گے لیکن پانی کے بغیر ناممکن ہے۔۔۔ اس علاقے میں تولیہ انڈسٹری بھی موجود ہے اور ہم ان کا استعمال شدہ پانی استعمال کرنے پر مجبو رہیں۔"
حامد کہتے ہیں کہ میرے لیے یہ بھٹی نہیں ہے یہ صرف ایک کام ہے ، اب چاہے گرمی ہو یا سردی کوئی فرق نہیں پڑتا۔
فیکٹری کے احاطے میں شدید گرمی میں برتن پکانے والی بھٹی کے لیے خام مال بچھاتے ہوئے ماجد کچھ شرماتے ہوئے تو لگتے ہیں لیکن ہیں اپنے کام میں ماہر۔
ماجد نے بتایا کہ یہاں دو طرح کی بھٹیاں لگتی ہیں، ایک زمینی اور ایک ایمرجنسی بھٹی جسے آوا کہتے ہیں۔ زمینی آوے میں برتن تین سے چار دن میں پکتے ہیں اور ایمرجنسی بھٹی میں 12 گھنٹے میں۔
ان کا کہنا ہے کہ "مٹی کے اس کام سے کچھ نہیں ملتا۔۔۔دکاندار ہماری محنت سستے داموں یہاں سے خرید کر لے جاتے ہیں اور مہنگے داموں بیچتے ہیں۔"
ہمیں یہاں پر ایک فیکٹری کے مالک عرفان صاحب بھی ملے جو کہ مٹی کے برتنوں کے کاروبار اور ہنر کی الف بے سے خوب واقف ہیں۔
عرفان بتاتے ہیں کہ "پہلے یہاں کئی فیکٹریاں تھیں، لوگوں گھروں پر بھی یہی کام کرتے تھے لیکن اب تو صرف 10 یا 12 فیکٹریاں ہیں۔ مال بکے گا تو کام بھی ہو گا، ڈیمانڈ ہی ختم ہو گئی تو پیچھے فیکٹریاں بھی بند ہو گئیں۔"
عرفان نے ایک محاورے "آوے کا آوا بگڑنا" کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس میں بھی رسک بہت ہے کیونکہ بھٹی (آوا) کا بہت خیال رکھنا پڑتا ہے، اگر وقت سے ذرا پہلے یا تھوڑی سی بھی تاخیر سے برتن نکال لیں تو وہ ضائع ہوجاتے ہیں۔
برتنوں کی تیاری میں ایک اہم کام مٹی گوندھنا ہے جو کہ اس فیکٹری میں شاہ رخ کے ذمے ہیں۔
شاہ کہتے ہیں کہ "اب تو مجھے یاد بھی نہیں کہ میں نے کب یہ کام شروع کیا تھا نہ ہی پتا ہے کہ کب تک کرتا رہوں گا۔"
کام میں مستقل مگن شاہ رخ کے مطابق تہواروں پر ان کا کام بڑھ جاتا ہے، ورنہ تو وہ یوں ہی لگے رہتے ہیں اور دن بھر میں صرف 1500 سے 2000 سکوریاں بناتے ہیں۔
"یہاں کبھی کبھار اسٹوڈنٹ لوگ آتے ہیں شوقیہ کام سیکھنے۔ یا ہم لوگوں کو بلاتے ہیں کہ اسکول والے کہ ہم یہ کام انھیں کرکے بھی دکھائیں اور سکھائیں بھی۔ یہ کام شوق کی حد تک تو ٹھیک لگتا ہے سب کو لیکن اس میں روزی روٹی کوئی نہیں ڈھونڈتا کیونکہ سب کو معلوم ہے مٹی سے کیا ملنا ہے۔"
یہاں کام کرنے والی خواتین میں صرف خدیجہ بی بی ہی نہیں بلکہ ہماری ملاقات حوا بی بی سے بھی ہوئی۔
سخت گرمی میں پکوڑے تلتی ہوئی حوا بی بی صبح 8 بجے سے شام 4 بجے تک پکوڑے تلتی ہیں۔ انھوں نے اپنی مدد آپ کے تحت گھر کے نزدیک ایک گلی میں چار اینٹیں جوڑ کر اس پر پھٹا پرانا کپڑا تان کر اپنی کچی دکان بنا رکھی ہے۔
ان کی اس چھوٹی سی کچی دکان سے آس پاس کے مٹی کے مزدور اپنے پیٹ کی بھٹی بجھاتے ہیں۔
حوا بی بی کہتی ہیں کہ "700 روپے سے یہ کام شروع کیا تھا۔ آج روز کا اتنا ہی کما لیتی ہوں۔ پہلے مٹی کے برتن بنانے والے کارخانے میں کام کرتی تھی۔ جتنی دن کی اجرت ملتی تھی اتنے میں وہ ایک دن بھی نہیں گزر سکتا تھا۔ پھر لوگوں کے گھر پر کام کیا۔ وہاں بھی محنت زیادہ اور مزدوری کم تھی۔اپنا کام ہے اور مجھے اسی میں آرام ہے۔"
کہمار واڑے کے باہر ہی سڑک کنارے کچے برتنوں کی بہت سی دکانیں ہیں۔ ان میں مختلف نقش و نگار کے ساتھ اور سادہ مٹی کے برتن ، روغنی برتن ،سجاوٹ کی اشیا گملے اور اینٹیں فروخت کے لیے موجود ہیں۔
ان میں سے ایک دکان کے مالک حفیظ نے مٹی کا پکا برتن بجاتے ہوئے بتایا کہ یوں تو روغنی برتن پنجاب سے آتا ہے خصوصاً گجرات سے، وہاں اس ہنر کے ایک سے بڑھ کر ایک ماہر پائے جاتے ہیں لیکن اس کی لاجسٹک مہنگی پڑتی ہے اور سامان خراب بھی بہت ہوتا ہے۔
مٹی کا ڈھیر مطلوبہ شکل میں ڈھل جانے کے بعد اسے تین سے چار دن تک کھلی ہوا میں سوکھنے کے لیے رکھ دیا جاتا ہے جس کے بعد اسے بھٹی کے حوالے کر دیا جاتا ہے جہاں یہ اپنا وقت پورا کرتا ہے۔مٹی کے اس برتن کے بننے کے ہر مرحلے پر بے شمار لوگوں کی محنت کا پسینہ شامل ہوتا ہے۔ مٹی کھودنے سے لے کر مٹی کو بھیگنے میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔ پھر بھیگی ہوئی مٹی کو گوندھا جاتا ہے۔ وہاں سے گندھی ہوئی مٹی کو چکی پر رکھنے کے بعد بجلی سے یا پاؤں سے پہیہ چلایا جاتا ہے۔
یہ کہانیاں کراچی کے کمہار واڑے کے ایک احاطے میں کام کرنے والے چند مزدوروں کی 'خود ان کی زبانی' ہیں۔ ورنہ اس جیسی اور ان سے ملتی جلتی کئی کہانیاں اس علاقے میں جابجا بکھری ہوئی ہیں۔
بے قدری کے باوجود اپنے کام میں ماہر یہ لوگ، جن کے ہاتھ مٹی میں اور آنکھیں آسمان پر لگی رہتی ہیں کہ کب ان کا ہنر 'آرٹ' بن کر صحیح داموں وصول ہو گا، کب ان کی قسمت بدلے گی مٹی کے انسان کے مٹی ہونے سے پہلے۔
'بول مٹی دیا باویا، تیرے دکھاں نے مار مکا لیا'