30 مئی ، 2019
کرکٹ کے بارہویں عالمی میلے کا آغاز انگلینڈ سے ہوچکا ہے جس میں 10 ٹیمیں مد مقابل ہوں گے۔
کرکٹ ورلڈکپ کا آغاز کب سے ہوا اور کون سی ٹیمیں عالمی چیمپئن رہیں اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
1975: ویسٹ انڈیز پہلا فاتح
ویسٹ انڈیز کی ٹیم ایسے کھلاڑیوں پر مشتمل تھی جنہیں محدود اوورز کی کرکٹ کا بہترین تجربہ تھا۔
1975 کے ورلڈکپ میں ویسٹ انڈیز نے لارڈز کے میدان میں آسٹریلیا کو شکست دے کر اعزاز اپنے نام کر چکی ہے۔
ویسٹ انڈیز کے کپتان کلائیو لائیڈ نے 102 رنز کی شاندار اننگز کھیل کر ٹیم کو جیت کے قریب کیا جب کہ باقی ٹیم نے بھی شاندار کھیل پیش کیا جس سے ٹیم 17 رنز سے کامیاب ہوکر عالمی چیمپئن بن گئی۔
1979: ایک بار پھر ویسٹ انڈیز کا غلبہ
پہلا ورلڈکپ جیتنے کے بعد 1979 کے دوسرے ورلڈکپ میں دفاعی چیمپئن ویسٹ انڈیز کی ٹیم پہلے کی نسبت زیادہ پر اعتماد تھی۔
دوسرے ورلڈکپ میں ویسٹ انڈیز کے اینڈی روبرٹس، مائیکل ہولڈنگ، جوئل گارنر اور کولن کرافٹ کی شکل میں بہترین فیلڈرز اور بولرز موجود تھے۔
انگلینڈ کے خلاف فائنل میں ویون رچرڈز نے شاندار کھیل پیش کیا اور 132 رنز کی اننگز کھیلی۔
اس طرح دوسرے ورلڈکپ میں ویسٹ انڈیز نے انگلینڈ کو 92 رنز سے شکست دے کر اپنے ٹائٹل کا دفاع کیا اور ورلڈکپ ٹرافی اٹھائی۔
1983: بھارت ورلڈکپ کا فاتح بنا
کرکٹ ورلڈکپ میں 2 مرتبہ کے دفاعی چیمپئن ویسٹ انڈیز کی جیت کی رفتار کو بھارت نے بریک لگا دی۔
گروپ مرحلے میں ویسٹ انڈیز سے بد ترین شکست کے بعد جب فائنل میں ایک بار پھر بھارت اور ویسٹ انڈیز مدمقابل آئے تو بھارت نے اس بار ویسٹ انڈیز کی ایک نہ چلنے دی۔
خلاف توقع کپل دیو کے شاندار کیچ کی وجہ سے بھارت نے ویسٹ انڈیز کو شکست دی اور کرکٹ کی تاریخ میں ورلڈ چیمپئن بن گیا۔
1987: ایشیاء آسٹریلیا کی حکمرانی
برصغیر میں پہلی بار ورلڈکپ کے انعقاد پر شائقین کرکٹ کو پاکستان اور بھارت کے درمیان فائنل کی توقع تھی لیکن ایسا نا ہوسکا۔
1987 کے ورلڈکپ فائنل میں آسٹریلیا اور انگلینڈ مدمقابل ہوئے، بھارت کے شہر کلکتہ کے میدان میں فائنل ٹاکرا ہوا جس میں آسٹریلیا کے 254 رنز کے تعاقب میں انگلینڈ نے آغاز میں مثبت کھیل پیش کیا لیکن بہترین مقابلے کے بعد آسٹریلیا نے انگلینڈ کو 7 رنز سے شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کر لیا۔
1992: ورلڈکپ ٹرافی پر پاکستان کی حکمرانی
اس بار آسٹریلیا اور انگلینڈ میں منعقد ہونے والے ورلڈکپ میں پہلی بار جنوبی افریقا نے حصہ لیا۔
اس ورلڈکپ کے ابتداء میں قومی ٹیم کی کارکردگی کچھ اچھی نہ تھی اور پاکستان کا مقابلے سے باہر ہونے کا خدشہ تھا لیکن عمران خان کی شاندار کپتانی کی بدولت پاکستان کھیل میں واپس آیا اور فائنل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوا۔
1992 کے ورلڈکپ کا فائنل پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ہوا جس میں کپتان عمران خان 72 رنز بنا کر ٹاپ اسکورر رہے اور پاکستان نے حریف ٹیم کو 249 رنز کا ہدف دیا۔
پاکستان نے انگلش ٹیم کو یہ ہدف پورا نہ کرنے دیا اور انگلینڈ کی پوری ٹیم 227 رنز پر پویلین لوٹ گئی، اس طرح پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں ورلڈ چیمپئن کہلایا۔
1996: سری لنکا کی انٹری
سری لنکا نے کرکٹ کو نئی تاریخ دی، جے سوریا اور رمیش کالووتھارانا کی بہترین فیلڈنگ اور جارحانہ اسٹروک نے ٹیم کو مضبوط کیا۔
یہ ٹورنامنٹ تنازعات میں گھرے رہنے کی وجہ سے زیادہ یاد رکھا گیا، سری لنکا 2 میچز ایک گیند کھیلے بغیر ہی ایسے جیت گیا جب ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا نے آئس لینڈ میں سیکیورٹی خدشات کی بناء پر کھیلنے سے انکار کر دیا۔
فائنل میں سری لنکا کا سامنا آسٹریلیا سے ہوا، سری لنکا کے کپتان اروندا ڈی سلوا کی سنچری کی بدولت آسٹریلیا کو 241 رنز کا ہدف ملا جس کا کینگروز تعاقب نہ کر سکے۔
اس طرح سری لنکا نے یہ ورلڈکپ 7 وکٹوں سے جیت کر آسٹریلیا کو شکست کا مزہ چکھایا۔
1999: ٹرافی پر آسٹریلیا کی چھاپ
آسٹریلیا کو انگلینڈ میں منعقد ہونے والے ورلڈکپ کے ایڈیشن میں دوسری بار ٹائٹل جیتنے کے لیے کئی سخت مقابلوں کا سامنا کرنا پڑا۔
آسٹریلیا اور جنوبی افریقا کی درمیان ہونے والے سیمی فائنل نے انتہائی دلچسپ صورت اختیار کرلی تھی جب میچ ایلن ڈونلڈ کے رن آؤٹ کے باعث برابر ہوگیا اور سپر سِکس میں آسٹریلیا نے فتح سمیٹی۔
ورلڈکپ 1999 کا فائنل مقابلہ پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین ہوا جس میں پاکستان کی بیٹنگ ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور پوری ٹیم 132 رنز پر پویلین جا پہنچی۔
آسٹریلیا نے فائنل باآسانی 8 وکٹوں سے اپنے نام کیا اور ورلڈکپ ٹرافی پر اپنی چھاپ لگائی۔
2003: آسٹریلیا پر وارن کی کمی اثرانداز نا ہو پائی
اس ورلڈکپ میں آسٹریلوی ٹیم کے کھلاڑی شین وارن کا ڈرگ ٹیسٹ مثبت آیا لیکن آسٹریلیا کی ٹیم اتنی مضبوط تھی کے لیگ اسپنر کی کمی انہیں زیادہ محسوس نا ہوئی۔
ٹورنامنٹ میں میزبان ٹیم جنوبی افریقا کو بارش کے باعث سری لنکا سے ایک رن سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اس بار فائنل جوہانسبرگ کے میدان میں بھارت اور دفاعی چیمپئن آسٹریلیا کے درمیان کھیلا گیا۔
رکی پونٹنگ کے جارحانہ 140 رنز نے آسٹریلیا کی جیت میں اہم کردار ادا کیا اور بھارت کو 125 رنز سے شکست ہوئی۔ اس طرح آسٹریلیا ایک بار پھر عالمی چیمپئن کا تاج سر پر سجانے میں کامیاب ہوگیا۔
2007: وولمر کی موت ورلڈ کپ پر حاوی رہی
پاکستانی ٹیم کے کوچ کی وفات ورلڈکپ کے چارم پر حاوی رہی۔ بھارت ٹورنامنٹ سے جلد ہی باہر ہو گیا اور اس بار بھی آسٹریلیا پورے ٹورنامنٹ پر چھائی رہی۔
فائنل میں سری لنکا کے خلاف بارباڈوس کے میدان میں آسٹریلیا نے اپنی جیت کی روایت کو برقرار رکھا اور مسلسل تیسری بار کرکٹ کا عالمی چیمپئن بن گیا۔
2011: ٹنڈولکر بلآخر کامیاب
ٹورنامنٹ کی برصغیر میں واپسی پر بھارتی شائقین کرکٹ کے ذہنوں میں ایک ہی سوال تھا کہ کیا لٹل ماسٹر سچن ٹنڈولکر ٹیم کو ورلڈکپ جتواپائیں گے؟
اس بار بھارت نے اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا اور کوارٹر فائنل میں آسٹریلیا جب کہ سیمی فائنل میں پاکستان کو شکست دی۔
ورلڈکپ کا فائنل سچن ٹنڈولکر کے ہوم گراوْنڈ ممبئی میں بھارت اور سری لنکا کے درمیان کھیلا گیا۔
سری لنکا نے جے وردنے کی سینچری کی مدد سے بھارت کے حصے میں 274 رنز کا ہدف آیا جس کے تعاقب میں ٹنڈولکر کچھ نہ کرپائے اور صرف 18 رنز پر پویلین لوٹ گئے۔
لیکن بائیں ہاتھ کے بلے باز گوتم گمبھیر کے 97 اور کپتان دھونی کے 91 رنز کی بدولت بھارت نے سری لنکا کو 6 وکٹوں سے شکست دے کر ٹرافی اپنے نام کرلی۔
2015: آسٹریلیا نے اعزاز پھر واپس لے لیا
2015 کا فائنل ایونٹ کی دونوں میزبان ٹیموں یعنی آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان کھیلا گیا۔
آسٹریلیا نے ٹورنامنٹ کے آغاز میں ہی انگلینڈ کو 111 رنز سے شکست دے کر اپنی دھاک بٹھا دی تھی۔
فائنل میں کیوی ٹیم کی بیٹنگ لائن بری طرح ناکام ہوئی اور پوری ٹیم صرف 183 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔
آسٹریلیا نے یہ ہدف باآسانی 3 وکٹوں پر پورا کر کے کیوی ٹیم کو 7 وکٹوں سے شکست دی اور پانچویں مرتبہ ورلڈکپ ٹرافی اٹھانے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔