سندھ پولیس کا 'کراچی لولی پاپ'

— 

گزرے زمانے میں پولیس نے اپنی ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے ایک "جِنگل " یا عرف عام میں اشتہار بنایا جس کے بول تھے

پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی

کریں دل سے ان کی مدد آپ بھی

لیکن ہوا پھر یوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پولیس کے فرائض کی ادائیگی کو " ہفتہ" منانے تک محدود کر دیا گیا۔ خاص طور پر سندھ پولیس اپنی فرض شناسی دکھانے سے زیادہ جتانے کے لیے ہفتہ منانے کا اعلان کرکے اس کی کچھ اس طرح تشہیری مہم چلاتی ہے کہ جیسے یہ ان کا کام نہیں بلکہ عوام پر ایک احسان ہے۔ خصوصاً کراچی والوں کو طفل تسلی دینے کے لیے کبھی "ہفتہ ٹریفک" منایا جاتا ہے تو کبھی"سیاہ شیشوں اور فنسی نمبر پلیٹوں کے خلاف مہم" ، کبھی ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل کے نام پر مہم تو کبھی ہفتہ خوش اخلاقی منایا جانے لگا ہے۔

اب رہی سہی کسر سندھ پولیس کے سربراہ کلیم امام کے "اسٹریٹ کرائم کے خلاف " ہفتہ منانے کے اعلان نے پوری کر دی۔ چلیے کراچی والوں پر ایک اور احسان کرنے کی "بابرکت سعادت" حاصل کی جارہی ہے۔ یہ تو شاید کراچی کے عوام جانتے ہی ہوں گے کہ پولیس کا کام جرائم پر قابو پانا تو نہیں ہے مگر وہ اس شہر کی خاطر یہ کام کرنے کے لیے اپنا ایک قیمتی "ہفتہ" وقف کرے گی۔ لیکن ایک ہفتہ گزرنے کے بعد شہری جانے اور ان کا کام، پولیس اپنے "کام" میں مصروف ہو جائے گی پھر کوئی شکایت نہ کرے کہ پولیس کچھ نہیں کرتی۔

ویسے ایک ہفتہ کام کرنا بھی کوئی معمولی بات تو نہیں، اگر پولیس اہلکار یہ بھی نا کریں تو کوئی ان کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ کیوں کہ اگر کسی نے بھولے سے بھی آواز اٹھانے کی کوشش کی تو وہ "چھتورل" لگے گی کہ نانی یاد آ جائے ۔ پہلے میرا خیال تھا کہ عوام کی جان، مال، عزت اور آبرو کی حفاظت پولیس کا کام ہے۔ اسی کے ساتھ میں سمجھتا تھا کہ قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنانا بھی پولیس کا کام ہے۔ میں یہ سمجھتا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں پولیس کا شمار بھی ہوتا ہے۔ میرا تو یہ بھی خیال تھا کہ مجرمان کو پکڑ کرکیفر کردار تک پہنچانا بھی پولیس کے فرائض میں شامل ہو گا۔ سمجھا تو یہ بھی تھا کہ اندھے قانون کی آنکھیں پولیس ہوتی ہے۔ میرے نزدیک یہ وہ سچی حقیقت تھی جس سے انکار ممکن نہیں تھا۔ لیکن اگر یہ سچ تھا تو پھر جھوٹ کیا تھا؟

جھوٹ تو یہ تھا کہ تھانے فروخت ہوتے ہیں۔ جھوٹ یہ بھی تھا کہ پولیس کسی بے گناہ کو تنگ نہیں کرتی، جھوٹ کہتے ہیں لوگ کہ پولیس قانون کے نام پررشوت لیتی ہے۔ جھوٹ تو یہ بھی تھا کہ پولیس مجرمان کو پیسے لے کر چھوڑ دیتی ہے۔ یقیناً یہ بھی جھوٹ ہی ہو گا کہ پولیس اشرافیہ کی زر خرید غلام اور غریب عوام کے لیے قہر و غذب کا پیغام ہے۔ میں تو یہ بھی جھوٹ ہی سمجھتا ہوں کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں، بسوں، منی بسوں، ٹرکوں، رکشوں، ٹیکسیوں ، سوزوکیوں اور دیگرپبلک ٹرانسپورٹ والوں سے کبھی کوئی پیسے نہیں لیتی اور نا ہی عید ، بقر عید اور دیگر تہواروں پر لوگوں کو تنگ کر کے پیسے نہیں بٹورتی۔ اور یہ تو جھوٹ کیا ایک بہتان ہی ہو گا کہ پولیس کے کئی اہلکار مجرمان کے ساتھ نا صرف ملے ہوئے ہوتے ہیں بلکہ کئی وارداتوں میں ان کے ساتھ جرائم میں شامل بھی رہے ہیں ۔

قارئین یقین کریں کہ پولیس ایسی ہرگز نہیں جیسی وہ سمجھتے ہیں کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو پولیس ان کی خاطر ہر سال چار یا چھ بار انسداد جرائم اور قوانین پر عمل درآمد یقینی بنانے کے ہفتے نہیں مناتی۔

پولیس کو اپنا کام بھی تو کرنا ہوتا ہے جس میں وزیروں، مشیروں، بڑے بڑے سیاست دانوں، عوامی نمائندوں، وڈیروں، طاقتور اشرافیہ اور ان سب کے ماں باپ ، بیوی بچوں، بھائی بہنوں، دوستوں اور دیگر کی حفاظت کے علاوہ ان کی خواہشات کے مطابق عوام کو ان سے دور رکھنا بھی تو ہوتا ہے۔ اگر وہ اس ڈیوٹی میں ذرہ برابر کوتاہی کے مرتکب ہوں تو ان کی نوکری جا سکتی ہے۔

رہی بات یہ کہ غریب اور متوسط حیثیت کے لوگ ان کو کیا سمجھتے ہیں اور وہ ان کو غلط سمجھتے ہیں یا صحیح اس کی ان کو پروہ نہیں کیوں کہ ان کو نوکری دینے والے اور ان کی ترقی کی سیڑھی ان کے ساتھ ہے۔ اگرعوام کو اپنی جان مال اور عزت اور آبرو کی حفاظت کا مسئلہ درپیش ہے تو پولیس کیا کر سکتی ہے۔ پولیس ان کو مجرمان سے بچانے کے لیے تھانے میں بند کر سکتی ہے اور وہ یہی کرتی ہے۔

دراصل پولیس کے ساتھ بہت سارے لوگوں کا روزگار وابستہ ہے ان میں مخبروں کی فوج، پولیس کے لیے بھتہ جمع کرنے والے افراد ، علاقوں میں جوئے کے اڈے چلانے والوں، نشہ آور اشیاء فروخت کرنے والوں، علاقے کے بازاروں اور دکانداروں سے "منتھلی یا ماہانہ "اکھٹا کرنے والوں، ناجائز تجاوزات قائم کرنے والوں، زمینوں پر قبضہ کرنے والوں، ناکارہ بسوں، منی بسوں، پانی کے ٹینکروں، رکشوں اور دیگر درجنوں گاڑی مالکان ، فیکٹریوں اور کارخانوں سے ماہانہ جمع کرنے والوں سمیت لا تعداد لوگوں کا روزگار پولیس کے کام سے ہی تو جڑا ہے ورنہ یہ سب بیچارے بیروزگار ہو کر معاشرے کے لیے ناسور نہیں بن جائیں گے۔

لوگ پولیس پر یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ پولیس اہلکاروں نے جیلوں کو جرائم کی تربیت گاہوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ اچھا جی، کیا انہوں نے کوئی برا کام کیا ہے؟ وہ تو معصوم لوگوں کو جیلوں میں بند کر کے تجربہ کار مجرمان کی نگرانی میں آسان روزگار کمانے کے گر سکھا کر نیک کام سرانجام دے رہے ہیں۔ جیلوں میں قید مجرمان کو موبائل فون ، نشہ آور اشیاء ، ٹی وی اور دیگر سہولیات مہیا کر کے اگر ان سے رقم وصول کر لیتے ہیں تو آپ کا کیا جاتا ہے۔ ہاں اگر کوئی دوسرا ادارہ چھاپہ مار کر یہ چیزیں برآمد کر لیتا ہے اور اپنے ساتھ لے جاتا ہے تو اس سے پولیس کے لیے کمائی کے مزید مواقع پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ اشیاء لانے میں دیر تو نہیں لگتی بس پیسہ لگتا ہے۔

پولیس کے اہم کاموں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ کو اگر کسی سے شکایت ہے کہ وہ آپ سے کوئی جائز مطالبہ کر رہا ہے لیکن آپ اس سے انکاری ہیں تو پولیس آپ کی مدد کے لیے ہر وقت حاضر ہے، پیسے دیں اور اس "معصوم اور بے گناہ" کو باآسانی نا قابل ضمانت مقدمے میں اندر کر وادیں۔

آپ نے دیکھا نہیں کہ کراچی میں قتل ہونے والے نوجوان "شاہ زیب" کے قاتل کس شاہانہ انداز میں رہتے ہیں ۔ جیل تو نام کی ہے، ان کو وہاں دنیا جہاں کی سہولیات اور گھر جیسا آرام مہیا کیا جا رہا ہے۔ اگر کبھی کوئی جسٹس ثاقب نثار جیسا اعلیٰ عدلیہ کا سربراہ چھاپہ مار بھی دے تو اس مجرم کو بچانے کے لیے بڑے بڑے افسران حاضر ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی جیل کے بجائے کسی مہنگے اسپتال کے ائیر کنڈیشنڈ میں سزا کاٹنا چاہتا ہے تو۔ پولیس ہے نا۔ بس ان کا کہنا یہ ہے کہ "جتنا شہد ڈالیں گے، اتنا ہی میٹھا ہوگا"۔ ابھی پچھلے دنوں ایک ہوٹل نما اسپتال کے کمرے سے "شہد اور تیل" کی بوتلیں چیف جسٹس صاحب نے برآمد نہیں کی تھیں۔

اب میں اور کیا لکھوں کہ تقریبا" چار ماہ سے سندھ اسمبلی کا اجلاس جاری ہے اور ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ میرا خیال ہے کہ وہ "عالمی ریکارڈ" بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ان کی اس میراتھون کاوش میں اسپیکر کے ساتھ ان ارکان کا خصوصی تعاون شامل ہے جو جیل سے پیرول پر رہا ہو کر آرہے ہیں۔

تو ہم بات کر رہے تھے پولیس کے کراچی میں بے لگام ہوئے اسٹریٹ کرائم پر قابو پانے کے لیے منائے جانے والے "ہفتہ" کی تو ان حالات میں اگر وہ اپنے اہم ترین کاموں کو سرانجام دیتے ہوئے عوام کی خاطر اپنا ایک ہفتہ سڑک پر "ناکے" لگا کر مجرمان کو پکڑنے کی کوشش کرے گی تو یہ ان کا احسان ہی ہے۔ آپ یہ کیوں سمجھ رہے ہیں کہ وہ اس طرح عام لوگوں کو تنگ کر کے عیدی بٹورنے کا پلان بنا رہی ہے۔ یعنی آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ' ایک تیر سے دو شکار"۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔