زائد المعیاد چیزیں کھانے کا انوکھا تجربہ

فائل فوٹو

عام طور پر بازار کی کوئی چیز خریدتے وقت اس کی مدت معیاد دیکھی جاتی ہے لیکن میری لینڈ کا رہائشی اس سے قطع نظر جان بوجھ کر ایکسپائر ڈیٹ یعنی زائد المعیاد چیزیں کھانے کا عادی ہے۔

اسکاٹ ناش نامی شہری نے پہلے مہینوں پرانا دہی کھایا اس کے بعد 10 ہفتہ قبل ہی ایکسپائر ہونے والی کریم اور روٹیاں کھائیں۔

اسکاٹ ناش نے اپنے اس تجربے کو بلاگ کے ذریعے دنیا سے شئیر کیا اور بتایا کہ بعض اشیاء ایسی ہوتی ہیں جن پر تاریخ لکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی جن میں نمک،شہد اور بچوں کے وائپس شامل ہیں۔

انہوں نے لکھا کہ نمک خود کروڑوں سال پرانا ہوتا ہے اور اس پر ایکسپائر تاریخ کس طرح مرتب کی جاسکتی ہے؟ 

انہوں یہ اعتراف کیا کہ بعض کمپنیاں چاہتی ہیں کہ لوگ تیزی سے ان کا کھانا تلف کریں تاکہ وہ اسٹور سے نئی غذائیں اور اشیاء خرید سکیں اور ان کا منافع بڑھتا رہے۔

اسکاٹ ناش خود بھی ایک ماحولیات دان ہیں اور ایک نامور فوڈ اسٹور کمپنی کے مالک بھی ہیں۔ 

انہوں نے اپنے اسٹور میں رکھی اشیاء کا جائزہ لیا اور تقریباً ان تمام اشیا کو کھانے کا کامیاب تجربہ کیا جو کے تاریخ کے اعتبار سے اپنی مدت ختم کرچکی تھیں۔

اسکاٹ نے بتایا کہ اگر کھانے کی شکل، ذائقے اور بو میں کچھ فرق ہوجائے تو آپ اسے نہیں کھا سکتے لیکن بعض لوگ بہترین کھانوں کو بھی معیاد ختم ہونے کے ایک روز بعد کی تلف کردیتے ہیں۔


اس تجربے سے آگاہ کرنے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ اشیاء کو ایکسپائر ڈیٹ ہونے کہ باوجود بھی کھا لیا جائے بلکہ اشیاء پر لکھی گئی تحریروں کا مقصد بیان کرنا ہے۔ تقریباً ہر شے پر ان دو تحریروں میں سے کوئی ایک تحریر درج ہوتی ہے، best if use by یا used by۔

ان سے کسی بھی پروڈکٹ کی کوالٹی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، best if used by کا مطلب ہے کہ پروڈکٹ کا ذائقہ خراب ہوسکتا ہے لیکن اب بھی  استعمال کے قابل ہے جب کہ used by کا مطلب ہے کہ لکھی گئی تاریخ کے بعد اس پروڈکٹ کا استعمال نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ 

مزید خبریں :