پاکستان
Time 23 جولائی ، 2019

جج ویڈیو اسکینڈل: ایف آئی اے کو تین ہفتوں میں مکمل تحقیقات کا حکم

فائل فوٹو

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے جج ارشد ملک کے ویڈیو کیس پر ایف آئی اے کو تین ہفتوں میں مکمل تحقیقات کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل کیس کی سماعت کی جس میں اٹارنی جنرل نے دلائل دیے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 16 جولائی کو ارشد ملک نے الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 کے تحت ایف آئی اے کو درخواست دی جس پر ایف آئی اے نے سائبر کرائم کی شقوں کے تحت مقدمہ درج کیا، اس میں شق 20، 21 اور 24 کا اطلاق کیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جج ارشد ملک بیان حلفی جمع کراچکے ہیں، ایف آئی اے کو شکایت بھی درج کراچکے ہیں اور ایف آئی اے سائبر کرائم کے تحت مقدمہ بھی درج کر چکی ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سائبر کرائم کی سزا 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جُرمانہ ہے، فحش ویڈیو یا تصویر بنانے کی سزا 5 سال قید اور 6 لاکھ روپے جُرمانہ ہے، کسی کو نقصان پہنچانےکے لیے ویڈیو یا تصویر پھیلانے کی سزا 3 سال قید اور 10 لاکھ جرمانہ ہے جب کہ الیکٹرانک جعل سازی پر تین سال قید اور ڈھائی لاکھ روپےجُرمانہ ہے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے نے ملزم طارق محمود کو اس کیس میں گرفتار کیا ہے کیونکہ انہوں نے میاں سلیم رضا نام کے شخص کو ویڈیو فروخت کی اور سلیم رضا نے یہ ویڈیو ناصر بٹ کو بیچ دی۔

انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے نے طارق محمود کا ریمانڈ لے کر جیل بھیج دیا ہے جب کہ ناصر بٹ اور سلیم رضا دونوں ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ نواز شریف نے اپیل کب دائر کی تھی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جج کے مطابق نواز شریف سے ملاقات اپریل میں ہوئی تھی اور انہوں نے بروقت اپیل دائر کی تھی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اگر اپیل اپریل میں دائر ہوئی تھی تو جج نے اپریل میں اس کا جائزہ کیسے لیا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آڈیو ویڈیو رکارڈنگ الگ الگ کی گئی۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیاپریس کانفرنس میں پیش کی جانے والی ویڈیو جعلی تھی؟ آڈیو ویڈیو کو مکس کرنے کا مطلب ہے اصل مواد نہیں دکھایا گیا، اگر جج صاحب کہتے ہیں کہ یہ اصل ویڈیو نہیں تو اصل ویڈیو سامنے آنی چاہیے۔

اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا اصل ویڈیو سامنے لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ سارے معاملے پر توہین عدالت کی کارروائی بھی تو کی جاسکتی ہے جو چیئرمین نیب بھی کرسکتے ہیں۔

اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ فریقین کے الزامات کی حقیقت جانناچاہتی ہے، عدالت نے تمام الزامات کی سچائی کا جائزہ لینا ہے اور ہم نے عدالت کے تقدس کو برقرار رکھتے ہوئے کام کرنا ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نےویڈیو اسکینڈل سے متعلق دائردرخواستوں کی مخالفت کی ہے، قانونی فورم دستیاب ہے تو کمیشن بنانے کی ضرورت نہیں جب کہ پیمرا قانون کا اطلاق ٹی وی چینل پر ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کسی نے ہائیکورٹ میں کوئی درخواست نہیں دی حالانکہ ملزم جیل میں بیٹھا ہے، اگر رہائی کے لیے ویڈیو منظرعام پرلائی گئی تو ہائیکورٹ میں کوئی درخواست کیوں نہیں دی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک آپشن یہ بھی ہے کہ ہم تمام درخواستیں خارج کردیں اور آخری آپشن یہ ہے کہ عدالت اس کی تحقیقات کروائے۔

چیف جسٹس نے حکم دیا کہ ویڈیو اسکینڈل کیس میں ایف آئی اے تین ہفتوں میں مکمل تحقیقات کرے، ہم اندھیرے میں ہاتھ پاؤں نہیں چلانا چاہتے ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے ویڈیو اسکینڈل کیس کی سماعت 3 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل کا پس منظر

6 جولائی 2019 کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے پریس کانفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں مبینہ طور پر یہ بتایا گیا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو نواز شریف کو سزا سنانے کے لیے بلیک میل کیا گیا۔ اس بنیاد پر مریم نواز نے یہ مطالبہ کیا کہ چونکہ جج نے خود اعتراف کرلیا ہے لہٰذا نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کو کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کیا جائے۔

تاہم جج ارشد ملک نے ویڈیو جاری ہونے کے بعد اگلے روز ایک پریس ریلیز کے ذریعے اپنے اوپرعائد الزامات کی تردید کی اور مریم نواز کی جانب سے دکھائی جانے والی ویڈیو کو جعلی۔ فرضی اور جھوٹی قرار دیا۔

اس معاملے پر کابینہ اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان نے مؤقف اپنایا کہ اعلیٰ عدلیہ کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔ وزیراعظم کے بیان کے بعد جج ارشد ملک کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم قام چیف جسٹس عامر فاروق سے ملاقات ہوئی، اس کے بعد قائمقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ سے ملاقات کی۔

ان اہم ملاقاتوں کے بعد 12 جولائی 2019 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائمقام چیف جسٹس عامر فاروق نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا جس کے بعد وزرات قانون نے ان کو مزید کام سے روکتے ہوئے ان کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس کردیں۔

اس دوران جج ارشد ملک کا ایک بیان حلفی بھی منظر عام پر آیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز نے انہیں رشوت کی پیشکش کی۔

جج ارشد ملک نے بیان حلفی میں بتایا کہ وہ مئی 2019 کو خاندان کے ساتھ عمرے پر گئے، یکم جون کو ناصر بٹ سے مسجد نبویؐ کے باہر ملاقات ہوئی، ناصر بٹ نے ویڈیو کا حوالہ دے کر بلیک میل کیا۔

بیان حلفی کے مطابق انہیں (ارشد ملک) کو حسین نواز سے ملاقات کرنے پر اصرار کیا گیا جس پر انہوں نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا، حسین نواز نے 50 کروڑ روپے رشوت کی پیشکش کی، پورے خاندان کو یوکے، کینیڈا یا مرضی کے کسی اور ملک میں سیٹل کرانے کا کہا گیا، بچوں کیلئے ملازمت اور انہیں منافع بخش کاروبار کرانے کی بھی پیشکش کی گئی۔

ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کے حوالے سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی جس پر 16 جولائی کو سماعت ہوگی۔ اس حوالے سے تین رکنی بنچ قائم کیا گیا جس کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ ہیں جبکہ دیگر ارکان میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس عمر عطاء بندیال شامل ہیں۔

خیال رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر2 کے جج ارشد ملک اہم کیسز کی سماعت کررہے تھے جن میں سابق صدر آصف زرداری کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کیس، سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور کیس اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے خلاف ریفرنس بھی شامل ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نوازشریف کو جج ارشد ملک نے ہی العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی جب کہ فلیگ شپ ریفرنس میں بری کیا تھا۔

مزید خبریں :