ہزاروں لاشوں کی گتھی مزید الجھ گئی

 ہلاک شدگان میں مقامی افراد کے ساتھ دیگر اقوام کے لوگ بھی شامل ہیں۔ فوٹو: فائل 

ہمالیہ کی دوسری جانب بھارت میں موجود منجمد جھیل ’’روپ کُنڈ‘‘ میں ہزاروں لاشوں کی موجودگی تاحال معمہ بنی ہوئی ہے کیونکہ سابقہ خیال کے برعکس اب ماہرین کا کہنا ہے کہ ہلاک شدگان میں مقامی افراد کے ساتھ دیگر اقوام کے لوگ بھی شامل ہیں۔ 

ماہرین نے یہ بات انہوں نے لاشوں کے ڈی این اے تجزیے کے بعد کہی ہے جس سے یہ معاملہ مزید الجھ گیا ہے۔

تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ علاقے میں زبردست ژالہ باری اور کرکٹ کی گیند جتنی سائز کے برف کے گولے گرنے سے یہ لوگ ہلاک ہوئے اور کوئی سایہ دار مقام نہ ہونے کی وجہ سے تمام لوگ ہلاک ہو گئے لیکن گتھی اب بھی باقی ہے کہ یہ لوگ یہاں کرنے کیا آئے تھے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق روپ کنڈ میں یہ لاشیں دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک برطانوی سپاہی نے سطح سمندر سے 16 ہزار فٹ بلندی پر سروے کے دوران دریافت کی تھیں جس کے بعد انہیں اسی حالت میں چھوڑ دیا گیا تھا تاہم 2004 میں بین الاقوامی تحقیقی گروپ نے یہاں پہنچ کر لاشوں کے نمونے جمع کیے اور اب وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مرنے والوں میں یونانی اور دیگر اقوام کے لوگ بھی شامل تھے۔

رپورٹ کے مطابق ڈی این اے تجزیہ بتاتا ہے کہ لاشیں ایک ہزار سال پرانی ہو سکتی ہیں۔

اس تحقیق میں شامل سینئر محقق اور بھارت کے بیربل ساہنی انسٹی ٹیوٹ کے ڈاکٹر نیرج رائے کہتے ہیں کہ روپ کنڈ جھیل پرانے دور سے ہی افواہوں کی گردش میں رہی ہے اور یہ بھی معمہ ہے کہ ہلاک شدگان کون تھے، اس مقام پر کیوں آئے اور کیسے مرے۔

محققین کے مطابق ڈی این اے رپورٹ بتاتی ہے کہ ہلاک شدگان کا تعلق تین مختلف اقوام سے تھا جن میں سے ایک کا تعلق بھارت، دوسرے کا یونان جب کہ تیسرے کا مشرقی بحیرہ روم کے علاقوں سے ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے محقق ایڈوین ہارنی کہتے ہیں کہ روپ کنڈ جھیل میں پائے گئے ڈھانچے دیکھ کر ہم حیران رہ گئے کیونکہ پہلے یہ مقام صرف مقامی دلچسپی کا موضوع تھا لیکن اب مزید تحقیق کرنا پڑے گی۔