فاتحانہ پسپائی کا ایک سال

دوسری جنگِ عظیم جاری تھی اور برطانیہ کو آغاز میں شکست پر شکست ہو رہی تھی۔ اُن دنوں ریڈیو سے خبروں میں کہا جاتا کہ برٹش فورسز نے فاتحانہ پسپائی اختیار کی ہے۔ ’فاتحانہ پسپائی‘ کے الفاظ میرے ذہن میں محفوظ رہے اور آج اپنے ملکی حالات پر نگاہ ڈالتا ہوں، تو فاتحانہ پسپائی کے مناظر وقفے وقفے سے دیکھنے میں آتے ہیں۔

 جناب عمران خان کی حکومت کا ایک سال مکمل ہو گیا ہے جس پر اُن کے پروانے اُنہیں مبارکباد دینے کے ساتھ ساتھ اسے پاکستان کی تاریخ کا بہترین سال قرار دے رہے ہیں۔ 

سچی بات یہ ہے کہ جناب عمران خان کو اقتدار میں آنے سے پہلے اور اقتدار تک پہنچنے کے بعد غیر معمولی حالات کا سامنا کرنا پڑا اور چرخ نیلی فام اس کے خلاف سازشوں میں مصروف رہا۔ سیاسی حریفوں نے انتخابات سے حاصل ہونے والے مینڈیٹ کو جعلی قرار دینے میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیے اور اُنہیں ’سلیکٹڈ وزیراعظم‘ کے لقب سے پکارا جبکہ ایک عمر رسیدہ سیاستدان نے اُن پر مینڈیٹ چرانے کا الزام لگایا تھا۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے وزیراعظم اِن تمام حملوں کے خلاف پوری قوت کے ساتھ ڈٹے رہے اور ایک فاتحانہ شان سے اُمورِ مملکت چلاتے رہے۔

عمران خان جب اپوزیشن میں تھے اور کاروبارِ حکومت سے یکسر ناواقف تھے، تو اُنہوں نے ایک اصولی بات کہی کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس بار بار جانے کے بجائے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا اور اپنے فیصلے خود کرنا چاہیے، مگر جب وہ اقتدار میں آئے اور لاغر معیشت سے خوف آنے لگا تو آئی ایم ایف سے ایک آبرو مندانہ معاہدہ کر لیا اور اُس پر عمل درآمد کے لئے اپنی ٹیم کو رخصت کر کے آئی ایم ایف کے جہاںدیدہ افراد فیصلہ سازی کے منصب پر فائز کر دیئے اور اِس امر کا بھی خیال رکھا کہ سیاسی اور عسکری قیادت ایک صفحے پر رہیں اور اِس ضمن میں اُنہوں نے کسی تکلف سے کام نہیں لیا۔

اعلیٰ دماغ مستقبل میں دور تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن کبھی کبھار اُن سے غلطی بھی سرزد ہو جاتی ہے۔ عمران خان کی سوچ تھی کہ نریندر مودی انتخابات میں کامیاب ہونے کے بعد ایک ذمہ دار وزیراعظم کے طور پر کشمیر کا مسئلہ حل کرنے میں دلچسپی لیں گے۔

وہ پلوامہ کا خونیں ڈرامہ رچا کر انتخابات میں دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہو گئے۔ دریں اثنا عمران خان امریکہ گئے اور صدر ٹرمپ نے اُنہیں خوشخبری دی کہ بھارتی وزیراعظم نے مجھ سے مسئلہ کشمیر میں ثالثی کرنے کے لئے کہا ہے۔ اِس پر وزیراعظم پاکستان نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ ایسا کریں گے، تو ایک ارب سے زائد لوگوں کی دعائیں لیں گے۔ 

وہ چونکہ خود راست باز اور دل کے صاف ہیں، اِس لئے اُنہوں نے صدر ٹرمپ اور وزیراعظم مودی پر اعتبار کیا اور یہ سمجھا کہ کشمیر کے دیرینہ تنازع کا حل نکلنے والا ہے۔

 ہجومِ کار میں اُن سے کوتاہی یہ ہوئی کہ جب بھارت کے جہاز بالاکوٹ میں آئے تھے اور اُنہوں نے بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزی کی تھی تو پاکستان کو اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل میں جانا اور اپنی خود مختاری پر حملے کا معاملہ اُٹھانا چاہئے تھا۔ 

اِسی طرح پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں اور وزارتِ خارجہ کو وزیرِاعظم نریندر مودی کے اُن اعلانات کا بروقت جائزہ لینا اور پیشگی حکمتِ عملی تیار کرنا چاہئے تھی جو وہ تواتر سے دے رہے تھے کہ کشمیر کا آئینی تشخص ختم کر دیا جائے گا۔ 

جناب عمران خان اب پاکستان کے وکیل بن گئے ہیں اور ہمارے وزیرِ خارجہ حج کی ادائیگی کا فریضہ چھوڑ کر میدانِ عمل میں اُتر گئے تھے اور روزانہ ٹیلی فون ڈپلومیسی کا نہایت عمدہ استعمال کر رہے ہیں۔ اب اُنہوں نے سلامتی کونسل کے مستقل رکن فرانس کے وزیر خارجہ کو بھی کسی حد تک اپنا ہم خیال بنا لیا ہے اور نسل کشی کی بنیاد پر کشمیر کا مسئلہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں لے جانے کی تیاری ہو رہی ہے۔

 اِن تمام کاوشوں کے باوجود نادان حزبِ اختلاف حکومت پر کشمیر کا سودا کرنے کا الزام لگا رہی ہے اور تحریک چلانے کی دھمکیوں پر اُتر آئی ہے۔ہمارے نام نہاد اہلِ بصیرت بھی عجیب و غریب لوگ ہیں۔ نیاز مندی پر اُتر آتے ہیں، تو کسی بھی حد سے گزر جاتے ہیں۔ ناراض ہوتے ہیںتو عیسیٰ کا بھی انکار کر دیتے ہیں۔

 اب وزیراعظم عمران خان نے فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کی بےپناہ قائدانہ صلاحیتوں اور خِطے کی بدلتی ہوئی نازک صورتحال کے پیشِ نظر اُن کی ملازمت میں تین سال کی توسیع کر دی ہے۔

 یہ فیصلہ قوم کے بہترین مفاد میں کیا گیا ہے۔ جنرل باجوہ نے ملک دشمن عناصر سے نجات دلانے، افغان امن کے عمل کو نتیجہ خیز بنانے اور معیشت کو سہارا فراہم کرنے میں زبردست کردار ادا کیا ہے اور 27فروری کی صبح بھارت کو منہ توڑ جواب دے کر ایک تاریخ تخلیق کی ہے۔

 اپنی عظمتوں اور خوبیوں کی بدولت اُن کی مزید تین سال کے لئے خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ اب اِس پر بھی نکتہ چینی ہو رہی ہے۔ عمران خان صاحب کا وہ انٹرویو بار بار دکھایا جا رہا ہے جو اُنہوں نے جنرل پرویز کیانی کی مدتِ ملازمت کی توسیع کے وقت دیا تھا اور کہا تھا کہ کسی بھی صورت ملازمت میں توسیع نہیں دینا چاہئے۔ انصاف کی آنکھ یہی فیصلہ دے گی کہ دونوں صورتوں میں زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔

 2010میں صاف نظر آتا تھا کہ وہ توسیع سیاسی بنیاد پر دی گئی تھی جبکہ جنرل باجوہ کی ملازمت میں توسیع کا اعلان تین ماہ پہلے ایک پُرسکون ماحول میں کیا گیا ہے، البتہ اپوزیشن نے اِس پر خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اُمید ہے کہ ماضی کے تجربات پیشِ نگاہ رکھتے ہوئے ہم بڑے اعتماد کے ساتھ پیش قدمی کر سکیں گے۔

مزید خبریں :