مائیکرو پلاسٹکس، انسانی صحت کیلئے زہر قاتل

پلاسٹک کے ذرات ہمارے ماحول میں موجود ہر چیز میں شامل ہوچکے ہیں اور ہم جو غذا کھاتے ہیں وہ بھی اس سے محفوظ نہیں رہی — فوٹو: فائل 

دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ روزانہ کسی نہ کسی شکل میں پلاسٹک استعمال کرتا ہے تاہم ہماری زندگیوں میں عام استعمال ہونے والا یہ مٹیریل حیاتیاتی طور پر حل پذیر نہیں ہوتا۔

یہ پلاسٹک وقت کے ساتھ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ جاتا ہے جنھیں ’مائیکروپلاسٹکس‘ کہا جاتا ہے۔ یہ مائیکرو پلاسٹکس ماحولیات اور انسانی صحت کیلئے انتہائی نقصان دہ ہیں۔ مائیکرو پلاسٹکس غذاؤں، خصوصاً سمندری غذاؤں میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔

مائیکرو پلاسٹکس کیا ہیں؟

مائیکرو پلاسٹکس، پلاسٹک کے انتہائی چھوٹےچھوٹے ذرات ہیں جو ماحول کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔ پلاسٹک کے ان چھوٹے چھوٹے ذرات کا قطر 0.2 انچ (5ملی میٹر) سے بھی کم ہوتا ہے۔ 

پلاسٹک کے ذرات ٹوتھ پیسٹ اور ایکسفولیئنٹ پراڈکٹس میں شامل چھوٹے چھوٹے دانوں کی صورت تیار کیے جاتے ہیں یا پلاسٹک کی بڑی تھیلیاں ٹوٹ ٹوٹ کر انسانی آنکھ سے نہ دیکھے جانے والے ذرات کی صورت ماحول میں شامل ہوجاتی ہیں۔

مائیکروپلاسٹکس سمندروں، دریاؤں، ندیوں اور مٹی میں شامل ہوجاتے ہیں اور غذا کے ذریعے جانوروں کے معدے تک پہنچ جاتے ہیں۔

بین الاقوامی سمندروں میں مائیکرو پلاسٹکس کی موجودگی سے متعلق تحقیق کا آغاز 1970ء کے عشرے سے کردیا گیا تھا اور 5 عشرے قبل ہی یہ معلوم ہوچکا تھا کہ امریکی ساحل کے قریب بحر اوقیانوس میں یہ بڑی مقدار میں موجود ہیں۔ 

آج 5 عشرے بعد دنیا میں پلاسٹک کا استعمال کہیں زیادہ بڑھ چکا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ آج بین الاقوامی سمندروں، دریاؤں، ندیوں اور ماحول میں پلاسٹک کی موجودگی خطرناک حدوں کو چُھورہی ہے۔ 

اندازہ ہے کہ ہر سال بین الاقوامی سمندروں میں 8.8 ملین ٹن پلاسٹک اور اس کا کچرا شامل ہورہا ہے۔

غذا میں مائیکروپلاسٹکس

پلاسٹک کے ذرات ہمارے ماحول میں موجود ہر چیز میں شامل ہوچکے ہیں اور ہم جو غذا کھاتے ہیں وہ بھی اس سے محفوظ نہیں رہی۔

ایک حالیہ مطالعے میں سمندری نمک کے 15 مختلف برانڈز کا جائزہ لیا گیا جس کے مطابق فی پاؤنڈ نمک میں پلاسٹک کے 273 ذرات پائے گئے (یعنی فی کلو گرام نمک میں 600 ذرات)۔ ایک اور مطالعے میں شہد کے مختلف برانڈز میں فی پاؤنڈ 300 مائیکرو پلاسٹک فائبر یعنی 660 فائبر فی کلوگرام پائے گئے۔

— فوٹو: فائل 

کھانے پینے کی اشیا میں پلاسٹک کے ذرات کا سب سے بڑا ذریعہ سمندری غذا ہے،  پلاسٹک کے ذرات سمندر میں عام ہوچکے ہیں اور مچھلیاں و دیگر سمندری حیات اپنی غذا لیتے وقت پلاسٹک کے یہ ذرات لامحالہ کھاجاتی ہیں۔

ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کئی اقسام کی مچھلیاں غلطی سے پلاسٹک کو اپنی خوراک سمجھتے ہوئے کھالیتی ہیں جس کے باعث ان کے جگر میں نقصان دہ کیمیائی مادے جمع ہوجاتے ہیں۔ 

ایک اور حالیہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ پلاسٹک کے ذرات سمندر کی گہرائی میں موجود حیاتیات میں بھی موجود ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دور سمندر میں موجود مختلف النوع حیاتیات بھی پلاسٹک سےمحفوظ نہیں رہیں۔

مائیکروپلاسٹکس کس حد تک نقصان دہ ہیں؟

اگرچہ، تقریباً تمام سائنسی مطالعات سے ثابت ہوچکا ہے کہ پلاسٹک کے ذرات انسانی غذا میں موجود ہوتے ہیں تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ اس کے ہماری صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ درحقیقت ابھی بہت کم مطالعات میں مائیکرو پلاسٹکس کے انسانی صحت پر اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

پلاسٹک کو نرم اور لچکدار بنانے کیلئے Phthalates نامی ایک کیمیائی مادہ استعمال ہوتا ہے جس کے بارے میں تحقیق بتاتی ہے کہ یہ بریسٹ کینسر پیدا کرنے والے خلیوں میں اضافے کی وجہ بنتا ہے لیکن یہ تجربہ جرثوموں (مائیکرو آرگنزمز) پر کیا گیا ہے، اس لیے انسانوں پر اس کے اثرات کے حوالے سے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

ایک اور مطالعے کے تحت لیبارٹری میں چوہوں پر مائیکرو پلاسٹکس کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔ کھانے کے بعد پلاسٹک کے ذرات چوہوں کےجگر، گردوں اور آنتوں میں جاکر جمع ہوگئے جس کے باعث ان کے جگر میں فری ریڈیکلز کی پیداوار اور انھیں بے اثر کرنے کی جسمانی صلاحیت میں عدم توازن پیدا ہوتے دیکھا گیا۔ 

مزید برآں، اس کے نتیجے میں دماغ کے لیے نقصان دہ سمجھے جانے والے مالیکیولز کی سطح میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔ مطالعے کے مطابق، آنتوں سے ہوتے ہوئے پلاسٹک کے ذرات خون اور ممکنہ حد تک دیگر جسمانی اعضا میں شامل ہوجاتے ہیں۔

انسانی جسم میں پلاسٹک کی موجودگی

پلاسٹک کے ذرات انسانی جسم میں بھی پائے گئے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق مطالعے میں حصہ لینے والے 87 فیصد انسانوں کے جگر میں پلاسٹک فائبرز موجود تھے۔ 

— فوٹو: فنائنشل ایکسپریس 

محققین کے مطابق اس کی وجہ ہوا میں موجود مائیکرو پلاسٹکس ہوسکتے ہیں۔ 

ایک اور تحقیق کے مطابق ہوا میں موجود مائیکرو پلاسٹکس کے باعث پھیپھڑوں کے خلیے سوزش کا باعث بننے والے کیمیائی مادے پیدا کرسکتے ہیں، فی الحال یہ تجربہ ٹیسٹ ٹیوب اسٹڈی تک محدود ہے۔

پلاسٹک میں استعمال ہونے والے کیمیائی مادوں میں سب سے زیادہ تحقیق بسفینول  اے (BPA) پر کی گئی ہے۔ یہ کیمیائی مادہ عمومی طور پر پلاسٹک پیکیجنگ یا فوڈ اسٹوریج کنٹینرز میں استعمال ہوتا ہے جہاں سے یہ اس میں محفوظ کی گئی کھانے پینے کی اشیا میں شامل ہوسکتا ہے۔ 

کچھ ایسے شواہد ملے ہیں جن کے مطابق BPA تولیدی غدودوں (ری پراڈکٹیو ہارمونز) میں مداخلت کرتا ہے، بالخصوص خواتین میں۔

مائیکرو پلاسٹکس سے کیسے بچا جائے؟

پلاسٹک پیکیجنگ والی کھانے پینے کی غذاؤں کا استعمال ترک کرکے آپ مائیکرو پلاسٹکس کو اپنے جسم میں شامل ہونے سے بڑی حد تک روک سکتے ہیں۔ البتہ، ہوا کے ذریعے آپ کے جسم میں مائیکرو پلاسٹکس کی شمولیت کا خطرہ پھر بھی برقرار رہے گا۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اپنی زندگی میں ہر شکل میں پلاسٹک کے استعمال کو بتدریج کم یا ختم کردیں، اسی میں انسانیت اور ماحولیات کی بقا ہے۔

مزید خبریں :