بلاگ
Time 06 ستمبر ، 2019

دشمن سے مقابلے کے لئے

آج چھ ستمبر ہے، ہم سال چھ ستمبر کو یومِ دفاع کے طور پر مناتے ہیں۔ 1965ء کی جنگ کے واقعات کو یاد کرتے ہیں، یہی وہ جنگ تھی جس میں پاک فوج کے جوانوں نے چونڈہ کو بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا تھا، یہی وہ جنگ تھی جس میں میجر عزیز بھٹی شہید اور میجر عباسی شہید نے لاہور کے ایک کنارے پر دشمن کے ارادوں کو جان دے کر روکا تھا، یہی وہ جنگ تھی جس میں کرنل شفقت عباس بلوچ نے واہگہ سے بھارتی فوجیوں کی دوڑیں لگوائی تھیں، بھارتی فوج اپنا اسلحہ، توپیں، ٹینک چھوڑ کر بھاگ گئی تھی۔

یہی وہ جنگ تھی جس میں قوم کا جذبۂ ایمانی پوری طرح جاگ رہا تھا، ہر طرف حب الوطنی کے ترانے تھے، روحانیت پوری طرح آشکار تھی، اس جنگ میں کئی ایسے واقعات رونما ہوئے جن کے یادگار روحانی پہلو ہیں۔ پاکستانی جوان نعرۂ تکبیر بلند کرتے تو دشمن پر لرزہ طاری ہو جاتا۔ اس جنگ میں روحانی لوگوں نے کیسے مدد کی یہ پھر کبھی لکھوں گا، آج کشمیر پہ لکھ رہا ہوں جہاں ہر شہید کو سبز ہلالی پرچم میں دفن کیا جاتا ہے، جہاں کے لوگ ’’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘ کے نعرے بلند کرتے ہوئے پوری وادی کو گرما دیتے ہیں۔

آج پورا کشمیر قید میں ہے، یہ قید ظلم کی بنیاد پر ہے اور ظلم کی حکومت زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی۔ اگرچہ پوری دنیا میں کشمیریوں کے لئے آوازیں بلند ہو رہی ہیں، ہمارے وزیراعظم نے کشمیریوں کی آزادی تک ہر پلیٹ فارم پر لڑنے کا عہد کیا ہے مگر پھر بھی حکمت کاروں کی خدمت میں چند گزارشات ہیں۔ یہ گزارشات واقعات میں ملفوف کرکے پیش کر رہا ہوں، ان گزارشات کو تاریخ کے اوراق میں لپیٹ کے دے رہا ہوں کیونکہ محبت سے آپ دل جیت سکتے ہیں، علاقے فتح نہیں کر سکتے، علاقے فتح کرنے کے لئے لڑنا پڑتا ہے۔ دشمن کے ارادوں کو چیرنا پڑتا ہے، جنگوں کو جیتنا پڑتا ہے اور یاد رہے کہ جنگیں وہی جیتتے ہیں جن کی حکمت عملی عمدہ ہو، جو دلیری اور بہادری سے لڑیں، جن کی شجاعت کے ساتھ حکمت بھی لڑ رہی ہو۔

خواتین و حضرات! ایران میں انقلاب آیا، شاہ ایران فرار ہوا تو ایرانی اخبارات میں خبر شائع ہوئی ’’شاہ رفت‘‘ اس خبر کی اشاعت کے بعد ایک صحافی نے امام خمینی سے کہا کہ ’’آج ایران کے اخبارات میں دو لفظوں کی شہ سرخی شائع ہوئی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ کل کے اخبارات میں بھی دو لفظوں کی شہ سرخی شائع ہو، آپ کیا کہیں گے؟‘‘ امام خمینی نے بڑے تحمل سے سوال سنا اور پھر بڑے سکون سے کہا ’’اللہ اکبر‘‘ اگلے دن ایران کے اخبارات میں جو شہ سرخی شائع ہوئی وہ تھی’’اللہ اکبر‘‘ ۔

شاہ ایران کئی استعماری طاقتوں کا چہیتا تھا، اس لئے ان طاقتوں نے انقلابِ ایران کو مخالفانہ نگاہوں سے دیکھا۔ شاید آپ میں سے بہت کم لوگوں کو علم ہو کہ ایرانی انقلاب کے بانی امام خمینی کشمیری تھے۔ ان کے والد ایران پڑھنے گئے تھے اور پھر قم سے ہوتے ہوئے خمین کے ہو کر رہ گئے۔ آج بھی امام خمینی کے بھائی کی قبر پر اکبر ہندی لکھا ہوا ہے۔ انقلاب کے بعد امام خمینی رہبر تھے اور موجودہ ایرانی رہبر سید علی خامنہ ای صدر تھے۔ اس وقت خطۂ عرب میں کئی ملکوں میں مسلمانوں کو اسرائیلی ظلم کا سامنا تھا۔ اسرائیل کے ارادے بھی خطرناک تھے، حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے امام خمینی نے پانچ نکات پر مشتمل حکمت عملی ترتیب دی۔

1۔جن علاقوں میں مزاحمتی تحریکیں چل رہی تھیں، انہی کی مقامی لیڈر شپ کو قبول کیا، انہی پر اکتفا کیا اور ان پر باہر سے لیڈر شپ مسلط نہ کی۔ یمن میں انصار اللہ، لبنان میں حزب اللہ، فلسطین میں پہلے الفتح پھر حماس اور جہاد اسلامی کو سپورٹ کیا، یہ مدد آج بھی جاری ہے۔ ہمیں بھی اسی حکمت عملی کے تحت کشمیر کی مقامی قیادت کو قبول کرنا چاہئے اور خاص طور پر مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کی جو بھی مقامی قیادت ہو، اس کی مدد کرنا چاہئے، ہمیں وہاں کے لوگوں کو مضبوط کرنا چاہئے۔

2۔ایرانیوں نے لڑنے والوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر برادرانہ مراسم قائم کئے، جو آج بھی قائم ہیں۔ ہمیں بھی کشمیر کی آزادی کے لئے لڑنے والوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر برادرانہ مراسم رکھنا چاہئیں۔ ہمیں اس وقت انہیں بھائیوں کی طرح سپورٹ کرنا چاہئے اور کسی بھی قیمت پر مدد سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے۔

3۔مزاحمتی تحریک کے لوگوں کے ساتھ باہمی احترام کا رشتہ ہونا چاہئے تاکہ مدد لینے اور دینے والے کو کسی بھی طرح کا کوئی بھی احساسِ ندامت یا احساسِ تکبر نہ ہو۔ اس طرح مزاحمتی تحریک بلا رکاوٹ زور پکڑتی ہے، ہمیں اس پر بھی غور کرنا چاہئے۔

4۔امام خمینی کی حکمت عملی کے تحت ایرانیوں نے مزاحمتی تحریکوں کے لوگوں کو اپنا محتاج نہیں بنایا بلکہ انہیں طاقتور بنایا، حزب اللہ اور حماس کی طاقت کو بڑھایا، ان کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا، اسی لئے آج وہ اپنے قوتِ بازو پر دشمن قوتوں کا مقابلہ کر رہے ہیں، پچھلے ہفتے بھی حزب اللہ نے اسرائیل کے اندر گھس کر کارروائی کی اور کئی اسرائیلی فوجیوں کو مار ڈالا۔ ہمیں بھی کشمیر میں مزاحمتی تحریکوں کو طاقتور بنانا چاہئے، انہیں باصلاحیت بنانا چاہئے جس طرح حزب اللہ اور حماس خود میزائل تیار کر لیتے ہیں، ہمیں بھی اس طرح کشمیریوں کو باصلاحیت بنانا چاہئے۔

5۔امام خمینی نے مزاحمتی تحریکوں کی قیادت کو ڈکٹیشن نہ دینے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ انہیں اپنے فیصلے خود کرنے دیں کیونکہ وہ میدان میں ہیں، وہ اپنے لئے بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں، ہمیں کشمیری قیادت سے متعلق یہی اصول اپنانا چاہئے۔ کشمیر میں نوجوان نسل بندوقوں کے سائے میں جوان ہوئی ہے، وہ اپنے لئے بہتر جنگی حکمت عملی ترتیب دے سکتی ہے، انہیں کسی قسم کے مجاہدین کی بھی ضرورت نہیں، وہ خود لڑنا اور دفاع کرنا جانتے ہیں، ہمیں صرف ان کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی مدد کرنا چاہئے، انہیں طاقتور بنانا چاہئے، ان کا ہم آواز بننا چاہئے۔ کشمیری نوجوانوں کے ایمان بہت پختہ ہیں، انہیں روحانیت پر پورا یقین ہے، وہ سب راہِ حسینی ؓکے مسافر ہیں، راہِ حق میں جان ہتھیلی پہ لئے پھرتے ہیں۔

حزب اللہ کے رہنما سید حسن نصراللہ سے ایک روز ان کے پاکستانی کلاس فیلو ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ راجہ ناصر عباس نے پوچھا ’’تمہاری اصل طاقت کیا ہے؟‘‘ اس پر حسن نصر اللہ نے کہا ’’اللہ پر توکل اور ایمان، اسی توکل اور ایمان کے سائے میں اپنی جنگی تیاری‘‘

اقبال نے کیا خوب کہا تھا؎

یقینِ محکم، عملِ پیہم، محبت فاتح عالم

جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔