کربلا اور کشمیر

آج دس محرم ہے، آج کے دن نواسۂ رسولؐ نے اپنے 72ساتھیوں سمیت جان کا نذرانہ پیش کیا تھا، آج کے دن نے دنیا کو دو حصوں میں بانٹ دیا تھا۔ ایک طرف جھوٹ، ایک طرف سچ۔ کربلا میں کم تعداد میں لوگ حق پر تھے اور کثیر تعداد رسوائیوں میں پلنے والے درندوں کی تھی۔ کربلا میں ایک طرف ظالم قوتوں کی وہ فوج تھی جسے مال و زر کربلا میں لائے تھے، دوسری طرف چند حق پرست دین بچانے آئے تھے۔

گلستانِ اہلِ بیتؓ کی طرف سے راہِ حق میں دی گئی یہ قربانی اتنی لازوال ہے، اتنی بے مثال ہے کہ دنیا بھر کی قربانیاں اس کے سامنے ہیچ۔ نہ حسینؓ سے پہلے کوئی ایسی قربانی دے سکا اور نہ کوئی بعد از حسینؓ ایسا کر سکے گا۔ لوگ قیامت تک اسی قربانی کو یاد کرتے رہیں گے۔

اگر خاندانِ محمدﷺ یہ قربانی نہ دیتا تو سچائی کا سورج ہمیشہ کے لئے ڈوب جاتا، دینِ حق ختم ہو جاتا، باطل قوتوں کا راج قائم ہو جاتا، لوگ شریعت کو بھول جاتے، لوگ رشتوں کا احترام بھول جاتے، لوگ شرافت بھول جاتے، لوگ جبر کے سامنے ڈٹ جانا بھول جاتے، لوگوں کو اصول اور اخلاق کے چراغ بجھے ہوئے ملتے، روشنی بھلا دی جاتی، تیرگی کا راج ہوتا مگر نواسۂ رسولؐ نے یادگار قربانی دے کر ایک ایسا پرچم بلند کر دیا، جسے آپ سچائی کا علم کہہ سکتے ہیں، جسے آپ روشنی کا راستہ کہہ سکتے ہیں، جسے آپ باطل قوتوں کی شکست کہہ سکتے ہیں۔ 

کربلا کے میدان نے واضح کردیا کہ یزید ایک فریب کا نام تھا، حسینؓ حق کا نام ہے، یزید جھوٹ تھا، حسینؓ سچ ہے۔ یزید نے بدر میں واصلِ جہنم ہونے والوں کا بدلہ لینے کی کوشش کی، وہ اس کوشش میں خود مٹ گیا، حسینؓ آج بھی دلوں میں زندہ و جاوید ہے۔ حسینؓ کے نام لیوائوں میں مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی ہیں مگر یزید کا نام لیوا کوئی نہیں، اگر کوئی ہے بھی تو حرفِ ندامت کی مثل جبکہ ذکر ِحسینؓ عقیدت کے ساتھ حرفِ حق کی مانند۔

چودہ سو برس ہونے کو ہیں دنیا ذکرِ حسینؓ سے خالی نہیں، آج بھی لوگ مظلوم کربلا سے روشنی لیتے ہیں، کربلا کے میدان نے فتح و شکست کے معیار بدل دیئے، کربلا نے سچ اور جھوٹ میں لکیر کھینچ دی۔ بس اس میدان میں حق جیت گیا، جھوٹ ہار گیا۔

میدانِ کربلا میں لڑنے والوں کی وضاحت حفیظ جالندھری نے بہت خوب کی ہے کہ ؎

اُدھر ہیں دشمنانِ دیں، اِدھر فقط امام ہیں

مگر عجیب شان ہے غضب کی آن بان ہے

کہ جس طرف اٹھی ہے تیغ بس خدا کا نام ہے

یہ بالیقیں حسینؓ ہے، نبیؐ کا نورِ عین ہے

خواتین و حضرات! کربلا ایک درس گاہ ہے، دنیا بھر کے مظلوموں کی طرح کشمیری بھی اس درس گاہ سے سبق حاصل کرتے ہیں، آج کشمیری حق کی خاطر کھڑے ہیں، وہ کسی ظلم کو، کسی جبر کو خاطر میں نہیں لا رہے۔ باطل سے ٹکرا رہے ہیں۔ آج اہلِ کشمیر پر زندگی کے کواڑ بند کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، انہیں مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ باطل کو تسلیم کریں، وہ یزیدیت کو مان لیں، اسی لئے ان کی خوراک بند ہے، ان کی ادویات بند ہیں جیسے فرات پر یزیدی لشکر کے پہرے تھے، آج پورے کشمیر میں بھارتی افواج کے پہرے ہیں مگر تمام تر صعوبتوں کے باوجود، ظلم و جبر کے سائے میں کشمیری راہِ حسینؓ کے مسافر بن گئے ہیں، انہیں موت کا خوف نہیں رہا، وہ شہادت کو فضیلت سمجھتے ہیں، انہیں جھکانے میں باطل قوتیں ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ 

درس گاہِ حسینؓ سے روشنی و رہنمائی پانے والے کشمیری ظلم کے سامنے دیوار بن گئے ہیں جیسے لشکر یزید پریشان تھا، آج ویسے بھارتی فوج پریشان ہے۔ بھارتی فوجی موت سے ڈرتے ہیں، طاقت کے بل بوتے پر ظلم کی آخری حدوں کو چھوتے ہیں مگر ایک انجانا خوف ان کا پیچھا کرتا رہتا ہے۔ کشمیریوں نے کربلا سے بہت سیکھا ہے، وہ راہِ حق میں قربان ہونے کو ترجیح دیتے ہیں، مال و زر کی حیثیت ان کے سامنے کچھ نہیں۔ 

پوری وادی میں خون رس رہا ہے، ہر طرف بارود کی بُو ہے، گلیوں میں گشت کرتی فوج، ہر طرف بندوقوں کے سائے، چھلنی کرتی ہوئی پیلٹ گنیں، ظلم و بربریت اپنے عروج پر مگر دوسری طرف کشمیری جوانوں کے حوصلے بلند، حسینؓ کے پیروکار جبر کے خلاف لڑتے ہوئے، بے خطر سری نگر کی گلیوں میں لبیک یا حسینؓ کے نعروں کے ساتھ نکلتے ہیں، باطل قوتوں کی دوڑیں لگواتے ہیں۔

آج دس محرم ہے، آج بھی سری نگر، پلوامہ، بڈگام میں جلوس نکلیں گے، باندی پورہ، بارہ مولا اور اننت ناگ میں بھی پرچم حسینؓ بلند ہو گا۔ آج گاندربل، کلگام اور کپواڑہ میں بھی کربلا کو یاد کیا جائے گا۔ شوپیاں اور اُدھم پور میں جلوس نکلیں گے۔ راجوڑی، پونچھ اور کشتواڑ میں حسینؓ کے پیروکار نکلیں گے، جموں میں بھی ایسا ہی ہو گا اور لداخ میں تو کوئی انہیں روکنا چاہے بھی تو نہیں روک سکے گا۔ کشمیری راہِ حسینؓ پے چلتے رہے تو بہت جلد وہاں ظلم کا خاتمہ ہو جائے گا، اب دیر نہیں بہت قریب ہے کہ کشمیر سے باطل قوتیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نکل جائیں گی۔ محسن نقوی یاد آ گئے کہ

تجھے اس سے اتنا حسد ہے کیوں؟

جو نبیؐ کی آنکھ کا نور ہے

جو علیؓ کی روح کا چین ہے

کبھی دیکھ اپنے خمیر میں

کبھی پوچھ اپنے ضمیر سے

وہ جو مٹ گیا وہ یزید تھا

جو نہ مٹ سکا وہ حسینؓ ہے

مزید خبریں :