بلاگ
Time 13 ستمبر ، 2019

چند اہم باتیں

مہنگائی کا طوفان کیوں ہے، کاروبار کیوں ٹھپ ہو گیا ہے؟ ظاہر ہے یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا۔ اس کے لئے پاکستانی سیاستدانوں نے بڑی کوشش کی، بڑی محنت کی۔35 برس پہلے ہمارا ’’چہرہ‘‘ کیا تھا اور آج کیا ہے۔ موجودہ حالات کو سمجھنے کے لئے ان تمام برسوں پر غور کرنا ہو گا۔ 

1985 میں بھارتی کرنسی اور بنگلہ دیش کا ٹکہ ہم سے پیچھے تھا، ڈالر صرف 10 12 روپے کا تھا مگر آج بھارتی روپیہ اور بنگلہ دیش کا ٹکہ ہم سے آگے ہے، ڈالر 160کے لگ بھگ ہے۔ ذرا غور کیجئے پاکستان میں معیشت کے ماہرین میں صرف چھ سات نام ملیں گے، ان چھ سات افراد نے قوم کو ایسے گورکھ دھندے میں الجھایا کہ آج قوم کا بچہ بچہ مقروض ہے۔

یہ ہر حکومت کا حصہ رہے، پچھلی حکومت پر تنقید اور آنے والی حکومت کو معاشی خواب دکھاتے رہے۔ انہی نے معیشت کا بیڑہ غرق کیا، پاکستانی سیاستدانوں کو ان جادوگروں کی سمجھ نہ آسکی۔ قوم معاشی میدان میں ان چھ سات ناموں سے باہر نہ نکل سکی۔ سو میرے نزدیک آج پاکستانی معیشت کا جو حال ہے اس میں زیادہ قصور انہیں ماہرین کا ہے جو یہاں کام نہ ملنے کی صورت میں کسی نہ کسی عالمی ادارے سے منسلک ہو جاتے ہیں۔

 حیرت ہے کہ 35 برسوں میں یہی ماہرین قرضے لیتے رہے، یہی قرضوں کو ری شیڈول کرواتے رہے اور انہی ماہرین سے ہم معیشت کا علاج کرواتے رہے۔ یہ پاکستانی لیڈروں کی بدقسمتی تھی یا ان کے اپنے لوٹ مار کا کھیل تھا معیشت روز بروز کھوکھلی ہوتی رہی، عوام تو کچھ نہیں کر سکتے تھے، جو کر سکتے تھے وہ بھی چپ رہے۔ آخری دس برس تو ایسا گھناؤنا کھیل کھیلا گیا کہ سوائے لوٹ مار کے کچھ نظر ہی نہیں آتا۔

ایک اور اہم بات کرنا چاہتا ہوں اس بات کو میں نے برسہا برس سے محسوس کیا ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کے ساتھ دو طرح کے المیے رہے، نمبر ایک کسی بھی حکمران کو پانچ افراد کا گروہ گھیر لیتا ہے، یہ گروہ ایک دائرہ بنا لیتا ہے۔ یہ گروہ وزیراعظم یا صدر کو اپنی مرضی کے بغیر نہیں چلنے دیتا۔ یہ گروہ خوفناک طریقے سے لابنگ کر کے اپنی باتیں منواتا ہے، یہی گروہ حکمرانوں تک حقائق نہیں پہنچنے دیتا، پارٹی ورکرز کا پیغام بھی نہیں پہنچنے دیتا۔ آصف زرداری، یوسف رضا گیلانی، میاں نواز شریف اور پرویز مشرف اسی کا شکار رہے، عمران خان بھی کسی حد تک اسی کا شکار ہیں، ان سے بھی حقائق چھپائے جا رہے ہیں، ایک طرح سے یہ سیاسی المیہ بھی ہے۔ 

پاکستانی حکمرانوں کے ساتھ دوسرا بڑا المیہ پہلے سے بھی زیادہ خوفناک ہے، ٹیڑھا منہ کر کے انگریزی بولنے والے اور والیاں حکمرانوں کے قریبی افراد میں شامل ہو جاتے ہیں، بدقسمتی سے ہمارے حکمران انگریزی بولنے والوں کو ذہین سمجھنا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ ذہانت ان کے قریب سے بھی نہیں گزری ہوتی، امیروں کے یہ بچے چند برس انگلینڈ یا امریکہ میں رہ کر انگریزی بولنا سیکھ لیتے ہیں اور پھر پاکستان آ کر اپنے خاندانوں کے زور پر اقتدار کی غلام گردشوں میں ایسے ایسے بھاشن دیتے ہیں جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ 

واضح رہے کہ انگلستان اور امریکہ کے پاگل خانوں اور جیلوں میں بھی لوگ انگریزی ہی بولتے ہیں۔ جاپان، جرمنی، فرانس اور چین کی تمام تر ترقی غلامانہ سوچ سے نکل کر ہوئی۔ پاکستانی حکمرانوں کی بدقسمتی ہے کہ وہ ٹیڑھا منہ کر کے انگریزی بولنے والوں پر یقین کر لیتے ہیں حالانکہ اس کلاس کو زمینی حقائق کا ادراک ہی نہیں ہوتا، انہیں عام لوگوں کے مسائل اور وسائل کا پتا نہیں ہوتا۔ 

اس عجیب و غریب کلاس نے پاکستانی حکمرانوں تک کبھی حقائق پہنچنے ہی نہیں دیئے۔ بعض اوقات تو حکمران خود اپنے اوپر یہ رنگ چڑھا لیتے ہیں مثلاً ملتان کا یوسف رضا گیلانی عرس پر تو سفید کرتا پہنتا ہے مگر وزیراعظم بن کر برانڈڈ سوٹ سے کم پہنتا نہیں۔ موصوف نے واشنگٹن میں سوال و جواب کی ایک تقریب میں انگریزی بولی تو لوگ ہنسنا شروع ہو گئے۔

 میاں نواز شریف تو باقاعدہ پرچیاں پڑھتے تھے، پھر ان کی وہ وڈیو تو لوگوں نے بہت دیکھی جب چین میں وہ ایک ایک جملہ اپنے بھائی شہباز شریف سے سیکھ رہے تھے۔ آخری دور میں تو میاں صاحب سوٹ میں پھنسے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ شکر ہے عمران خان کو لباس کے معاملے میں کمتری کا احساس نہیں، وہ اپنا قومی لباس پہنتا ہے، اردو بولتا ہے، مجبوراً انگریزی۔ اور پھر اسے انگریزی آتی بھی ہے مگر یاد رہے کہ زبانیں صرف اظہار کا ذریعہ ہوتی ہیں، ذہانت کی علامت نہیں۔ ذہانت، علم اور صلاحیت اور چیز ہے۔

عمران خان حکومت کو سال ہو گیا ہے، ان کے سامنے کئی سوالات کھڑے ہیں مثلاً انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں جو دعوے اور وعدے کئے تھے کیا وہ پورے ہوئے؟ اس ایک سال میں مہنگائی کا جن بے قابو کیوں ہوا؟ اس ایک سال میں کاروبار کیوں ٹھپ ہوا ہے؟ پچھلے کچھ سالوں سے پراپرٹی کا بزنس چل رہا تھا، وہ بھی رک گیا ہے، ایسا کیوں ہوا؟ کیا کرپشن رک گئی ہے؟ اگر کسی کو کرپشن بڑھنے کی سمجھ نہ آئے تو وہ ایف بی آر کا چکر لگا لے۔ یاد رکھئے کاروبارِ حیات روکنے سے ترقی نہیں ہوتی، ترقی بزنس کے چلنے سے وابستہ ہے، اگلے کالم میں چند حقائق لکھوں گا۔ فی الحال تباک ابرک کے اشعار

کوئی مشکل پڑے تعویذ بنا سکتے ہو

تم میرے نام پہ ہر دائو لگا سکتے ہو

تم کو معلوم ہے یہ آخری نیندیں ہیں میری

وسعت ِ خواب ذرا اور بڑھا سکتے ہو


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔