دریائے سوات کا ایک گمنام ہیرو!

سوات میں دریا کی موجوں کا شکار بننے والے سیاحوں کے خاندان کے نزدیک بھی محمد ہلال کسی ہیرو سے کم نہیں۔

مختلف حادثات کی وجہ سے ہر سال دریائے سوات میں کئی افراد ڈوب کر بہہ جاتے ہیں۔ دریا کی خطرناک گہرائی اور پانی کے تیز بہاؤ کی وجہ سے پانی میں ڈوبنے والی لاشیں غائب ہوجاتی ہیں، جس سے ان لاشوں کے لواحقین کو شدید اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

لیکن ان لواحقین کے لیے محمد ہلال کی شکل میں ایک مسیحا بھی موجود ہے، جو کسی معاوضہ یا لالچ کے بغیر دریا میں ڈوبنے والی لاشوں کو فی سبیل اللہ باہر نکالتا ہے۔

سوات کے گاؤں سرسینئی سے تعلق رکھنے والے محمد ہلال کا شمار مقامی ہیروز میں کیا جاتا ہے۔

محمد ہلال نفسا نفسی کے اس دور میں انسانی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنائے ہوئے ہیں۔دن ہو یا رات، ان کا زیادہ تر وقت لوگوں کی خدمت کرنے میں گزرتا ہے اور وہ دریا میں ڈوبنے والی لاشوں کا کھوج لگا کر انہیں دریا سے باہر نکالتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے علاقے میں ایک ہیرو کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ سوات میں دریا کا شکار بننے والے سیاحوں کے خاندان کے نزدیک بھی محمد ہلال کسی ہیرو سے کم نہیں۔ دریا میں ڈوبنے والے افراد میں مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ اکثر سیاح بھی شامل ہوتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں سیاح تب تک اپنے گھروں یا علاقوں کو نہیں لوٹتے، جب تک ان کے عزیز کی لاش انہیں واپس نہیں ملتی۔

دریا میں لاش کی گمشدگی کی اطلاع ملنے پر محمد ہلال اپنے سارے کام ادھورے چھوڑ کر ریسکیو آپریشن کے لیے تیاری کرتے ہیں۔ 
اپنے تجربے کی بنیاد پر محمد ہلال کے لیے یہ اندازہ لگانا آسان ہوتا ہے کہ لاش کون سے علاقے میں، دریا کے کس حصہ میں تیر رہی ہوگی؟

محمد ہلال عرصہ 35 سال سے دریا میں ڈوب کر بہنے والی لاشوں کو ان کے لواحقین کے حوالے کرتے ہیں۔ انہوں نے اب تک اپنی مدد آپ کے تحت 300 سے زائد لاشیں دریا سے نکالی ہیں۔

گرمیوں کے سیزن میں جب دریا کے بہاؤ میں اضافہ ہوتا ہے، تو محمد ہلال سارا دن گھر بیٹھ کر کسی بھی ممکنہ ایمرجنسی کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ اس سیزن میں چوں کہ دریا کے اردگرد لوگوں کی سرگرمیاں بڑھ جاتی ہیں، اس لیے ایک سیزن میں کئی افراد اپنی کسی نہ کسی غلطی کی وجہ سے دریا کا شکار بن جاتے ہیں۔

دریا میں لاش کی گمشدگی کی اطلاع ملنے پر محمد ہلال اپنے سارے کام ادھورے چھوڑ کر ریسکیو آپریشن کے لیے تیاری کرتے ہیں۔ یہ اپنے خرچے پر کرایہ کی وین میں اپنا جالا ڈال کر مطلوبہ جگہ پہنچ جاتے ہیں اور وہی سے دریا میں اتر کر ڈوبی ہوئی لاش کی تلاش شروع کردیتے ہیں۔

اپنے تجربے کی بنیاد پر محمد ہلال کے لیے یہ اندازہ لگانا آسان ہوتا ہے کہ لاش کون سے علاقے میں، دریا کے کس حصہ میں تیر رہی ہوگی؟ لاش دیکھنے پر محمد ہلال اپنے جالے سے دریا میں چھلانگ لگاکر اسے جالے پر لے آتے ہیں۔ محمد ہلال اکثر لاش کی تلاش میں بہت دور، یہاں تک کے اپنے ضلع سوات کی حدود سے بھی باہر چلے جاتے ہیں۔ جہاں سے یہ کسی کرایہ کی وین کا بندوبست کرکے واپس اپنے گھر لوٹ کر دوبارہ خدمتِ خلق میں لگ جاتے ہیں۔

محمد ہلال کے مطابق وہ آٹھ سال کی عمر سے اپنے والد کے ساتھ دریا میں ڈوبنے والی لاشوں کو باہر نکالنے کا کام کرتے چلے آرہے ہیں۔

دریا میں پیش آنے کی صورت میں اکثر سرکار بھی بے بس نظر آتی ہے۔ محدود وسائل اور کم تجربے کی وجہ سے کئی مواقع پر ریسکیو ون ون ٹو ٹو کے اہلکار بھی بے بس ہوکر محمد ہلال سے مدد مانگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

تاہم دیکھنے میں آیا ہے کہ مذکورہ ریسکیو اہلکار لاش نکلنے پر اس کا کریڈٹ خود لیتے ہیں۔محمد ہلال کو بھی اس بات کا بہ خوبی اندازہ ہے لیکن ان کے مطابق ’’مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میرے کام کا کریڈٹ کوئی اور لے۔ میں لوگوں کی خدمت کرتا ہوں اور میرے لیے یہی بڑی بات ہے۔ یہ ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ میں کسی کو بھی دریا میں اترنے کا مشورہ نہیں دوں گا۔ تیز دریا میں ریسکیو کا کام میں نے اپنے والد سے سیکھا ہے۔ میرے مرحوم والد بھی اسی جذبے کے تحت دریا سے لاشیں نکالنے کا کام کرتے تھے۔‘‘

محمد ہلال کے مطابق وہ آٹھ سال کی عمر سے اپنے والد کے ساتھ دریا میں ڈوبنے والی لاشوں کو باہر نکالنے کا کام کرتے چلے آرہے ہیں۔ اب ان کی تیسری نسل، یعنی محمد ہلال کے بیٹے بھی اپنے والد کے ساتھ دریا میں لاشوں کا کھوج لگانے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔

محمد ہلال کو سابق آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی کی جانب سے ایوارڈ بھی ملا۔

سوات میں کشیدہ حالات اور اس کے بعد شروع ہونے والے آپریشن راہِ راست کے دوران میں جب لوگوں کی نقلِ مکانی کی وجہ سے ضلع سوات ویران ہو گیا تھا،محمد ہلال ان دنوں دریا میں بہنے والی لاوارث لاشوں کو نہ صرف باہر نکالتے بلکہ اپنے خرچے پر ان کی تدفین کا انتظام بھی کرتے تھے۔

محمد ہلال نے اُن دنوں دریائے سوات میں ڈوبنے والے پاک آرمی کے جوانوں کو زندہ نکالنے کا کارنامہ بھی سرانجام دیا ہے، جس کی وجہ سے انہیں اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی کی جانب سے ایوارڈ بھی ملا۔

محمد ہلال نے فیس بک پر ایک پیج بنایا ہے اور دریا میں زیادہ بہاؤ یا کسی ایمرجنسی کی صورت میں یہ اپنے پیج کے ذریعہ وقتاً فوقتاً لوگوں کو آگاہ کرتے رہتے ہیں۔

محمد ہلال کو مقامی لوگ ایک ہیرو کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ انہیں اکثر مقامی سطح پر منعقد ہونے والی تقریبات میں باقاعدہ دعوت دی جاتی ہے، جس میں ان کے کام کو بھرپور پذیرائی ملتی ہے۔

محمد ہلال کا کہنا ہے کہ ’’مجھے کسی چیز کی لالچ نہیں، میں صرف اللہ کی رضا اور لوگوں کی خدمت کے لیے اپنی توانائیاں صرف کرتا ہوں۔ لواحقین کو ان کے کسی عزیز کی لاش واپس کرنا مجھے سکون پہنچاتا ہے جسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔‘‘