بلاگ
Time 25 ستمبر ، 2019

کبھی یہاں کبھی وہاں

ہیوسٹن امریکہ میں مودی نے ایک جلسے میں کہا ہے کہ ’’وقت آ گیا ہے کہ دہشت گردوں اور جہاں سے دہشت گرد پیدا ہوتے ہیں، ان کے خلاف لڑائی کی جائے‘‘۔

نریندر مودی کا اشارہ کشمیر اور پاکستان کی طرف تھا، اس جلسے میں ڈونلڈ ٹرمپ بھی شریک تھے، انہوں نے بھی اسلامک دہشت گردی کی بات کی، ہیوسٹن میں مودی کا جلسہ ہو گیا، اس کے باوجود کہ ہیوسٹن ہی کی ایک عدالت نے مودی کے سمن جاری کر رکھے تھے، یہ سمن انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر جاری کئے گئے تھے۔ ہیوسٹن میں جلسے کے باہر ہزاروں افراد نے مودی کے خلاف مظاہرہ کیا، اس مظاہرے میں پاکستانی، امریکی، کشمیری، سکھ اور بدھ مت کے علاوہ کئی دوسرے افراد نے شرکت کی۔

اندر مودی جنگ کی باتیں کر رہا تھا، باہر لوگ آزادی مانگ رہے تھے، کوئی خالصتان کی آزادی کے لئے نعرے لگا رہا تھا تو کوئی کشمیر کی آزادی کے لئے صدائیں بلند کر رہا تھا، کوئی دلتوں کے لئے وطن مانگ رہا تھا تو کسی نے ناگا لینڈ کا پرچم بلند کر رکھا تھا۔ جنگ کی باتیں کرنے والے نریندر مودی (گوربا چوف ثانی) یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ بھارت کی بائیس ریاستوں میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں اور بھارت جبر کے ساتھ وہاں حالات پر قابو پانا چاہتا ہے مگر اب شاید ایسا نہ ہو سکے کیونکہ مودی نے اپنی بائیس ریاستوں کے لوگوں کو دہشت گرد کہا ہے، پاکستان کے بارے میں ایسے الزامات لگانا تو بھارتیوں کا پرانا شیوہ ہے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ امریکی صدر ٹرمپ اس جلسے میں کیوں گئے، امریکی سیاست کو سمجھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ آپ ڈونیشن کے نام پر امریکی سیاست دانوں کو کہیں بھی بلا سکتے ہیں۔ امریکہ میں لوگ الیکشن مہم سے پہلے سیاستدانوں کو اپنے ہاں بلاتے ہیں، انہیں کچھ رقم ڈونیٹ کرتے ہیں، لوگوں کی چند تصاویر بن جاتی ہیں، یہ امریکی سیاست کا عام چلن ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کو ہیوسٹن لیجانے میں امریکہ میں موجود ہندو کمیونٹی نے بڑا کردار ادا کیا، آدھی امریکی کمپنیوں کے سی ای اوز تو انڈین ہیں، ان لوگوں نے ٹرمپ کو الیکشن مہم کے نام پر کئی ملین ڈالرز دیئے ہیں۔ بھارتی لابی مسئلہ کشمیر پر امریکیوں کو چپ کروانا چاہتی ہے۔

امریکہ میں بھارتی لابی یہاں تک کامیاب ہو گئی ہے کہ اب بھارت اور امریکہ مشترکہ دفاعی مشقیں کریں گے۔ بھارت کو قریب لانے میں امریکہ کے بائیس اراکین کانگریس اور آٹھ سینیٹرز نے اہم کردار ادا کیا۔

دوسری طرف پاکستان کو سفارتی محاذ پر کامیابیوں کیلئے بہت محنت درکار ہے کیونکہ جس وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی وزیراعظم عمران خان بہت تعریف کرتے ہیں یہ وہی وزیر خارجہ ہیں کہ جب پاکستانی وزیراعظم ایران جا رہے تھے تو عین دورے کے موقع پر ہمارے اسی ملتانی وزیر خارجہ نے ایران پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی تھی، وہ کس کا کھیل کھیل رہے ہیں۔

بائیس ستمبر کو نیویارک میں وزیراعظم پاکستان کو سکھوں کے ایک وفد نے ملنا تھا مگر وزیراعظم کے ایک مشیر نے یہ ملاقات ہی منسوخ کروا دی۔ یہ مشیر وزیراعظم کے پاس ایک غیرمقبول کشمیری کو لے آیا۔

اس رہنما کی ملاقات پر کشمیری ناراض ہوئے خاص طور پر کشمیر ایشو پر کام کرنے والی تنظیموں کے عہدیدار بہت حیران اور پریشان ہوئے۔ اسی مشیر نے دوستیوں کے نام پر پی ٹی آئی کو سمندر پار ملکوں میں کئی حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے جس کا خاطر خواہ نقصان ہو رہا ہے۔

یہ مشیر عام طور پر چیونگم چباتا ہوا نظر آئے گا۔ ان تمام باتوں کے باوجود عمران خان کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اپنا مقدمہ بہتر طور پر پیش کر سکیں۔ انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر مودی کو ہٹلر کے ساتھ جوڑا ہے۔

مغرب میں لوگ ہٹلر سے نفرت کرتے ہیں۔ جس طرح مودی کیلئے ہیوسٹن میں جلسہ ہوا ہے، اسی طرح 1939میں نیویارک میں ہٹلر کے لئے جلسہ ہوا تھا، اس وقت بھی امریکی صدر، ہٹلر کے ساتھ تھے مگر پھر چھ مہینوں بعد ہی صورتحال جنگ میں بدل گئی تھی۔

27ستمبر سے پہلے اب تک کی عمران خان کی ملاقاتیں ظاہراً بہت عمدہ رہی ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی دل کھول کر عمران خان کی تعریفیں کی ہیں، پاکستان کے ساتھ تجارت بڑھانے کی بات بھی کی ہے مگر فوجی تعاون انڈیا کے ساتھ ہی رہے گا۔

ٹرمپ نے ایک بار پھر ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ جب انہوں نے پہلے ثالثی کی بات کی تھی تو مودی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے کرفیو لگا دیا تھا۔ اب پھر سے ثالثی کی بات کی ہے، اب مودی کے ارادے اور بھی خطرناک ہوں گے۔

عمران خان 27ستمبر کو جنرل اسمبلی میں شاندار تقریر کریں گے مگر مودی سرکار اکتوبر میں خفت مٹانے کیلئے پلوامہ جیسا کوئی واقعہ کروائے گی، جسے جواز بنا کر آزاد کشمیر پر حملہ کیا جائے گا، پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ ہو گی، نقصان بہت ہو گا مگر آخری فتح پاکستان کی ہو گی، جنگ میں اسرائیل اور امریکہ بھارت کا ساتھ دیں گے مگر پاکستانی سرحد کے قریب بسنے والے کشمیری، سکھ اور دلت یعنی کشمیر، پنجاب اور راجستھان کے لوگ بھارتی فوج کا ساتھ نہیں دیں گے۔

پاکستان کو اپنی سرحدوں کے قریب جنگی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ یہ جنگ جنوبی ایشیا میں ہوگی مگر اس کے ساتھ ہی ایک جنگ مشرق وسطیٰ میں ہوگی کیونکہ امریکی انتظامیہ کا سعودی عرب پر بہت دبائو ہے کہ ایران پر حملہ کیا جائے، اس دبائو کے پسِ منظر میں اسرائیل ہے جس کی خواہش ہے کہ وہ اردن کے علاقوں پر کالونیاں بنائے، جو سعودی عرب کے کچھ علاقے پر بھی قبضے کا خواہش مند ہے۔

مشرق وسطیٰ میں بھی جنگ ہوگی، عرب ملکوں میں بادشاہتیں ختم ہو جائیں گی، اس کے بعد عراق جیسی نام نہاد حکومتیں قائم ہو جائیں گی۔ جنگوں کا زیادہ نقصان بھارت اور سعودی عرب کو اٹھانا پڑے گا۔ مودی بھارت کیلئے گورباچوف ثابت ہو گا، دوران جنگ انہیں بائیس ریاستوں میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کو سنبھالنا مشکل ہوگا۔

خواتین و حضرات! مجھے ایک مرتبہ پھر امریکہ جانا پڑ رہا ہے، ابھی دو ہفتے پہلے ہی تو آیا تھا، فی الحال لندن سے تعلق رکھنے والی فرزانہ فرحت کا شعر؎

میں نے تو خامشی سے اتاری تھیں کشتیاں

کیسا عجیب شور سمندر میں آ گیا


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔