پاکستان
Time 04 اکتوبر ، 2019

مکارانہ چالیں اور خالصتان

فائل فوٹو

آج کل مودی سرکار کے بہت سے وزراء اور بی جے پی کے رہنما گاندھی اور نہرو کو کوس رہے ہیں۔ غصے کے وقت وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ گاندھی موجودہ بھارت کے بانی تھے اور نہرو بھارت کے پہلے وزیراعظم۔ 

بھارت کے کئی ٹیڑھے راستوں کو جواہر لعل نہرو نے سیدھا کیا، ایک مسلمان وزیر کے ذریعے بھارتی ریلوے کو مضبوط بنایا، اسی مضبوط ریلوے کو بعد میں لالو پرشاد یادیو نے عروج تک پہنچایا۔

آزادی کے بعد بھارت میں بسنے والی اقلیتوں نے طویل عرصے تک ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کیا مگر بدقسمتی سے ہندؤں نے اقلیتوں کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا۔ بھارت ایک ایسا ملک ہے جہاں پچاس کروڑ سے زائد انسانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

اسی لئے بھارت کی 22 ریاستوں میں کسی نہ کسی صورت آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ آج کشمیر سمیت بیس بائیس کروڑ مسلمان ہندوئوں کے ظلم کا شکار ہیں۔

21 کروڑ دلت ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اسی طرح کروڑوں بدھسٹ اور سکھ جبر کا شکار ہیں بھارتی حکومت سکھوں کو رام کرنے کی کوشش کر رہی ہے مگر سکھ اس بات کے لئے تیار نہیں ہیں۔

بھارت کی منافقانہ چالوں کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ آر ایس ایس کی پروردہ حکومت اندرون ملک کچھ کرتی ہے اور بیرون ملک کچھ بتاتی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ بھارت کے بانی گاندھی جی کو آر ایس ایس کے ایک کارندے نتھورام نے موت کےگھاٹ اتارا تھا۔

اس کے فوراً بعد جواہر لعل نہرو نے آر ایس ایس پر پابندی لگائی تھی، آج آر ایس ایس کے لوگ اقتدار میں آ چکے ہیں، آج کے بھارت میں گاندھی اور نہرو کی معتدل باتوں پر تنقید ہو رہی ہے، شاید یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا ہے کہ آج ہندوئوں کی اکثریت آج مودی کو باپو قرار دے رہی ہے، آج بھارت کے اندر گولی، گالی اور تشدد کا راج ہے، بھارت میں چرچ جلائے جاتے ہیں، مسجدیں شہید کی جاتی ہیں، گوردواروں کی بے حرمتی کی جاتی ہے، اقلیتوں کو موت کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے مگر .....

مگر مودی دنیا میں یہ تاثر دے رہا ہے کہ بھارت تو امن کی جگہ ہے، وہاں کسی کو تنگ نہیں کیا جا رہا، بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر کانگریس لائبریری واشنگٹن میں اسی گاندھی کا جنم دن منا رہے ہیں جس گاندھی کو آر ایس ایس نے مارا تھا، جے شنکر ایسی ہی منافقت سکھوں کے ساتھ کر رہے ہیں، وہ امریکہ میں مقیم سکھوں سے ملاقاتیں کرکے انہیں راضی کرنے کیلئے کئی الٹی سیدھی تراکیب لڑا رہے ہیں کیونکہ مودی کے حالیہ دورئہ امریکہ میں سکھوں نے کشمیریوں کے حق میں بہت مظاہرے کئے تھے، ان سکھوں نے یہ تمام مظاہرے خالصتان کے پرچم تلے کئے تھے۔

بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر دس اکتوبر تک امریکہ میں رہیں گے، ان کے ذمہ دو کام ہیں ایک سکھوں کو راضی کرنا اور دوسرا بھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بنانے کیلئے لابنگ کرنا۔

میری اطلاعات کے مطابق سکھوں کو راضی کرنے میں جے شنکر ناکام ہو چکے ہیں۔ اب شاید ان کیلئے خالصتان کا راستہ روکنا مشکل ہو چکا ہے۔ یہ راستہ کیسے مشکل ہو چکا ہے، تھوڑا سا ماضی کو دیکھنا پڑے گا۔ 1947ءکے کچھ ہی عرصہ بعد سکھوں کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا، وہ اپنے لیڈر ماسٹر تارا سنگھ کی اصلیت تک پہنچ گئے تھے،

انہیں پتا چلا کہ چکوال کے ایک ہندو ماسٹر تارا رام کو ہندوئوں نے سازش کے تحت سکھ بنا کر پیش کیا اور سازش کے تحت تمام سکھوں کو ماسٹر تارا سنگھ کے پیچھے لگا دیا، آزادی کے وقت جب بڑی ہجرت ہو رہی تھی تو سکھوں نے ماسٹر تارا سنگھ (تارا رام) کے کہنے پر مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ اتنے مسلمان قتل کئے گئے کہ راوی اور چناب سرخ ہو گئے تھے۔

وقت نے پول کھولا تو ہندو، سکھوں کے دشمن بن گئے، گولڈن ٹیمپل کی بے حرمتی کی گئی یہاں تک کہ جون 1984ءمیں دس ہزار سکھوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ بھارتی ریاست نے 1984ءسے لیکر 1994ءتک ڈھائی لاکھ سکھوں کا صفایا کر دیا۔ کئی سکھ دوسرے ملکوں میں منتقل ہو گئے، سکھوں کے بہت سے یتیم بچے بھی کینیڈا، امریکہ میں جا بسے۔

آج وہ بچے جوان ہیں انہیں اپنے والدین کے قاتل نہیں بھولتے، اسی لئے وہ ہر صورت میں خالصتان بنانا چاہتے ہیں۔ اُنہوں نے بابا گورونانک کی تصویر کے ساتھ خالصتان کے کرنسی نوٹ بھی شائع کر دیئے ہیں۔ خالصتان کا جھنڈا اور نقشہ بھی تیار کر لیا ہے، خالصتان کا پاسپورٹ بھی بنا لیا ہے۔

جرمنی، برطانیہ، امریکہ، کینیڈا سمیت دیگر ملکوں میں بسنے والے سکھ نوجوانوں نے اپنے فیس بک پر خالصتان کا مواد اَپ لوڈ کر دیا ہے۔ دہلی، پنجاب اور ہریانہ میں بسنے والوں نے بھی اپنے دفاتر، گھروں، دکانوں اور سوشل میڈیا پر خالصتان کے چرچے کر دیئے ہیں۔

اس سے بھارت سرکار بہت پریشان ہے، گورنمنٹ نے خفیہ اداروں کی رپورٹس پر سکھ افسروں کے تبادلے کر دیئے ہیں، تعلیمی اداروں کو بھی خصوصی ہدایات دی ہیں کہ پنجاب اور ہریانہ میں کوئی خالصتان اور کشمیر کا نام نہ لے۔ ان سکھ رہنمائوں کی مانیٹرنگ شروع کر دی گئی ہے جن کے خاندانوں کے افراد ماضی میں سکھ علیحدگی پسند تحریک سے وابستہ رہے ہیں۔

112 طلبا و طالبات کو تعلیمی اداروں سے محض اس لئے نکال دیا گیا ہے کہ وہ خالصتان کے نعرے بلند کرتے ہیں، روک ٹوک کے باوجود بھارت میں خالصتان تحریک زور پکڑتی جا رہی ہے۔

مجھے ایک سکھ رہنما کی باتیں یاد آرہی ہیں، اس کا کہنا تھا کہ کشمیر، بھارت کا سر ہے اور خالصتان دل، جونہی سر تن سے جدا ہوگا تو دل خودبخود جدا ہو جائیگا، اسلئے اب ہماری کوشش ہے کہ پہلے کشمیر آزاد ہو، کشمیر کے آزاد ہوتے ہی خالصتان آزاد ہو جائے گا۔ محسن نقوی یاد آ گئے کہ

سنتا تھا سب سے وہ بھی پرانی کہانیاں

شاید رفاقتوں کی ضرورت اسے بھی تھی

مزید خبریں :