دنیا
Time 13 اکتوبر ، 2019

یورپی ممالک کی پابندیوں پر ترک صدر طیب اردوان کا سخت ردعمل

جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی دھمکیوں سے وہ ترکی کو روک سکتے ہیں وہ بہت بڑی غلطی کررہے ہیں: طیب اردوان کا تقریب سے خطاب— فوٹو:فائل

ترک صدر رجب طیب اردوان کا فرانس اور جرمنی کی پابندیوں پر ردعمل میں کہنا ہے کہ یورپی ممالک کی جانب سے اسلحے کی فروخت روکنے اور معاشی پابندیوں کی دھمکیاں ہمیں شام میں کارروائی سے نہیں روک سکتیں۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق ترک صدر نے ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ جب سے ہم نے شمال مشرقی شام میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کیا ہے، ہمیں معاشی پابندیوں اور اسلحے کی فروخت روکنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی دھمکیوں سے وہ ترکی کو روک سکتے ہیں تو وہ بہت بڑی غلطی کررہے ہیں۔

واضح رہے کہ شمالی شام میں کرد جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کے آغاز کے بعد سے جرمنی اور فرانس نے ترکی کو اسلحے کی فروخت پر پابندی لگادی ہے۔

دونوں یورپی ممالک نے خدشات کا ظہار کیا ہے کہ ان کا اسلحہ شام میں جاری آپریشن میں استعمال ہوسکتا ہے اور یہ یورپ کی سیکیورٹی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

اس سے قبل بھی ترک صدر نے یورپی ممالک کی جانب سے ترکی کے اقدام کو تنقید کا نشانہ بنائے جانے پرناقدین کو دو ٹوک جواب دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا   کہ ’وہ جو ترکی کے اقدام پر اعتراض کررہے ہیں وہ خود مخلص نہیں‘۔

انہوں نے یورپی یونین کو خبردار کیا تھاکہ اگر یورپی ممالک نے شام میں ترک کارروائی کو حملہ قرار دیا تو وہ اپنے ملک میں موجود 36 لاکھ شامی مہاجرین کو یورپ بھیج دیں گے۔

ترک صدر نے مصر اور دیگر عرب ممالک پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ لوگ مخلص نہیں، صرف باتیں بناتے ہیں جبکہ ہم ایکشن لیتے ہیں، ہم میں اور ان میں یہی فرق ہے‘۔

اردوان کا مصری صدر عبدالفتاح السیسی کے حوالے سے کہنا تھا کہ سیسی ترکی کی مذمت کیسے کرسکتے ہیں کیوں کہ ان کے دور میں تو مصر میں جمہوریت کا قتل ہوا۔

یاد رہے کہ ترکی نے 9 اکتوبر سے شام میں کُرد ملیشیا کے خلاف زمینی اور فضائی کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں، ترک وزارت دفاع کے مطابق اب تک شامی کُرد ملیشیا کے 480 ارکان ہلاک ہوچکے ہیں۔

ترکی اپنی سرحد سے متصل شام کے شمالی علاقے کو محفوظ بنا کر ترکی میں موجود کم و بیش 20 لاکھ شامی مہاجرین کو وہاں ٹہرانا چاہتا ہے۔

اس علاقے میں موجود شامی کرد ملیشیا (وائے پی جی) ’جسے امریکی حمایت بھی حاصل رہی ہے‘ کو انقرہ دہشت گرد گروہ قرار دیتا ہے اور اسے ترکی کے علیحدگی پسند اسیر کرد رہنما عبداللہ اوجلان کی سیاسی جماعت کردش ورکر ز پارٹی کا عسکری ونگ قرار دیتا ہے۔

مزید خبریں :