اے سی اتارنے کا اعلان کرنے والے اب ملتمس ہیں

مجھے معلوم ہے کہ بھٹو اور نواز شریف کے درمیان کوئی مماثلت نہیں مگر نجانے کیوں نواز شریف کو بستر علالت پر دیکھ کر بھٹو کی کتاب زیست کی ورق گردانی کرنے لگتا ہوں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی کتاب ’’The Great Tragedy‘‘ میں سانحہ مشرقی پاکستان سے متعلق اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے۔ اس کتاب میں بھٹو نے ڈھاکہ میں جنرل یحییٰ خان کے ہمراہ شیخ مجیب الرحمٰن سے ہونے والی ایک ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ 

سہ طرفہ ملاقات کے بعد بھٹو اور مجیب کی ون ٹو ون ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بھٹو لکھتے ہیں: ’’جیسے ہی ہم باہر جانے کے لئے ملٹری سیکرٹری کے کمرے میں داخل ہوئے، شیخ مجیب الرحمٰن نے جنرل عمر، جنرل اسحاق، صدر کے ملٹری سیکرٹری اور صدر کے نیول اے ڈی سی جو کہ اس وقت کمرے میں بیٹھے تھے، انہیں کمرے سے چلے جانے کو کہا۔ مجیب الرحمٰن کے مزاج میں یہ فوری تبدیلی میرے لئے خاصی حیران کن تھی۔ انہوں نے مجھے ہاتھ سے پکڑ کر پاس بٹھا لیا اور کہنے لگے، صورتحال انتہائی تشویشناک ہو چکی ہے اور وہ اس پر قابو پانے کے لئے میری مدد کے خواہاں ہیں۔ اس خیال کے پیش نظر کہ کمرے میں جاسوسی کے آلات نصب نہ ہوں، ہم کمرے سے نکل کر عقبی لان میں چلے گئے۔ انہوں نے رائے دی کہ میں مغربی پاکستان کا وزیراعظم بن جاؤں جبکہ وہ مشرقی پاکستان کو سنبھال لیں۔ انہوں نے مجھے ریاستی اداروں سے ہوشیار رہنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ ان پر کبھی بھروسہ نہ کرو۔ اگر یہ ادارے پہلے تمہیں تباہ کرتے ہیں تو بعد میں مجھے بھی نیست و نابود کردیں گے۔ میں نے جواب دیا کہ تاریخ کے ہاتھوں برباد ہونے سے بہتر ہے کہ میں ریاست کے ہاتھوں برباد ہو جاؤں‘‘۔

نوازشریف علاج کی غرض سے بیرون ملک جانا چاہیں تو کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی

اقوام کی طرح افراد کی زندگی میں بھی کئی نازک موڑ آتے ہیں جب فیصلہ کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ نواز شریف کو پے در پے اس نوعیت کے دوراہوں سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ اگر وہ علاج کی غرض سے بیرون ملک جانا چاہیں تو کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی، ایک آسودہ زندگی ان کی منتظر ہے۔ ان کے سیل سے ایئر کنڈیشنر اتروانے کا اعلان کرنے والے ملتمس ہیں کہ نواز شریف لندن تشریف لے جائیں اور اس بات پر رضا مند کرنے کے لئے بیشمار لوگوں کی خدمات مستعار لی جا چکی ہیں۔ 

ان کی اپنی فیملی کے لوگ اصرار کر رہے ہیں کہ وہ اپنی جان مزید جوکھم میں ڈالنے کے بجائے بیرون ملک جانا گوارہ کر لیں لیکن تادمِ تحریر یہی اطلاعات مل رہی ہیں کہ نواز شریف تاریخ کے ہاتھوں نہیں مرنا چاہتے اور کسی قیمت پر ملک سے باہر جانے کو تیار نہیں۔ انہوں نے طے کر لیا ہے کہ اب پسپائی اختیار نہیں کرنی۔ 

عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جب قیام کا وقت آجائے تو سجدے میں جانے سے گریز کیا جائے۔ اگر سمجھوتہ ہی کرنا ہوتا تو تب کر لیا جاتا جب اقتدار ان کے گھر کا دربان تھا۔ ان کی حکومت چلی گئی، الزام و دشنام کا صبر آزما وقت ختم ہو چلا، عدالتوں میں گھسیٹے جانے کا مرحلہ تمام ہوا، اسیری کے دوران ان کی شریک حیات داغ مفارقت دے گئیں، بیٹی کو اپنی آنکھوں سے گرفتار ہوتے دیکھ لیا، اب گنوانے یا پانے کو اور کیا رہ گیا ہے؟ کیا کوئی کھوئے ہوئے وہ پل لوٹا سکتا ہے؟ اور کیا خبر کہ زندگی کی سانسیں کب کہاں اُکھڑ جائیں، کیا بیرون ملک جانے سے زندگی کا دورانیہ بڑھ جائے گا؟

وہ ’’پہنچے‘‘ ہوئے لوگ جو بہت وثوق سے کہا کرتے تھے کہ نواز شریف کی کہانی ختم ہوگئی، مسلم لیگ(ن) اب قصہ پارینہ ہو چکی، کسی صورت میں این آر او نہیں دیا جائے گا۔ وہ ’’برگزیدہ ہستیاں‘‘ کاسہ گدائی لیکر نواز شریف سے این آر او کی بھیک مانگ رہی ہیں۔ نواز شریف کو سروسز اسپتال لائے جاتے ہی یہ بے پرکی اڑائی جاتی رہی کہ ایک خصوصی طیارہ نواز شریف، مریم نواز اور دیگر افراد کو لندن لے جانے کے لئے تیار کھڑا ہے۔


گزشتہ 365 دن میں جانے کتنی بار یہ اہم ترین خبر دی گئی کہ نواز شریف کئی ارب ڈالر دیکر جان چھڑانے پر رضا مند ہو گیا ہے، ڈیل طے پاگئی ہے اور جلد ہی شریف خاندان ملک چھوڑ دے گا۔ تجزیہ غلط ہو سکتا ہے، خبر سے متعلق مغالطے کی گنجائش رہتی ہے لیکن کوئی معتبر تجزیہ کار ہر دو ماہ بعد اس طرح کی بریکنگ نیوز دے رہا ہے اور ہر بار ہی اس کی خبر جھوٹ ثابت ہو رہی ہو مگر وہ شرمندہ ہونے کے بجائے کچھ عرصہ بعد پھر وہی راگ بجانا شروع کردے تو یہی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ’’میں نئیں بولدی وے لوکو، میرے وچ میرا یار بولدا‘‘۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے بجا طور پر ڈیل اور این آر او کا ڈھول پیٹنے والوں کی زجر و توبیخ کی۔

نواز شریف کی زندگی سے بڑھ کر کچھ قیمتی نہیں اس لئے بلاتاخیر لندن روانہ ہوا جائے

نواز شریف کی پارٹی کے بیشتر ’’عقاب‘‘ حالات کے جبر کے باعث ’’امن کی فاختاؤں‘‘ کا روپ دھار کر مصلحت پسندی کے گھونسلوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ مزید مزاحمت کے بجائے خاموش مفاہمت کر لی جائے۔ ان لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ نواز شریف کی زندگی سے بڑھ کر کچھ قیمتی نہیں اس لئے بلاتاخیر لندن روانہ ہوا جائے مگر منہ زور آندھیوں کا ڈٹ کر سامنا کرتے مٹھی بھر رہنما جن میں سے بیشتر قید ہیں، ان کی رائے یہ ہے کہ سویلین بالادستی اور ووٹ کو عزت دو کے بیانیے پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کیا جائے۔

نواز شریف کے اہلخانہ کی طرف سے بھی سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگر نواز شریف باہر چلے جاتے ہیں تو پھر ڈیل اور این آر او کا چورن ہاتھوں ہاتھ بک جائے گا۔ ملین ڈالر کا سوال مگر یہ ہے کہ اب ہوگا کیا؟ کیا نواز شریف وقت کی دہلیز پر سر جھکا دیں گے؟ یہ خبر نہیں محض میری رائے ہے کہ 2000اور 2019کے نواز شریف میں بہت فرق ہے۔ نواز شریف مزاحمت کا استعارہ اور جمہوری جدوجہد کی علامت بن چکے ہیں، وہ تاریخ کے ہاتھوں مرنا پسند نہیں کریں گے۔

مزید خبریں :