پاکستانی شہری احسن قیوم کو اپنے فن میں مہارت اور اس سے محبت نے ’گنیز ورلڈ ریکارڈ‘ عطا کیا اور آج ان کی کامیابی کا چرچہ نا صرف پاکستان میں ہے بلکہ ان کے فن کو عالمی سطح پر بھی پزیرائی مل رہی ہے۔
جیو نیوز ویب نے گزشتہ دنوں لاہور میں مقیم احسن قیوم سے گفتگو کی اور ان کے آرٹسٹ بننے سے ورلڈ ریکارڈ ہولڈر بننے تک کے سفر کو جاننے کی کوشش کی۔
احسن قیوم کی کہانی انہی کی زبانی:
"انٹرمیڈیٹ کے امتحان کے دوران میں نے اپنی زندگی کی سب سے قیمتی اور انمول شخصیت اپنی ماں کو کھو دیا تھا۔ اس وقت میرے کیرئیر کے حوالے سے بہت اونچے خواب تھے اور میں انجینئیر بننا چاہتا تھا مگر حالات کی وجہ سے اپنی پڑھائی مکمل نہ کر سکا۔
والدہ کے انتقال کے بعد ہی میری زندگی میں ڈاؤن فال آگیا تھا کیونکہ یہ ہمارے لیے ایک بہت بڑا سانحہ تھا۔ والد اس سانحہ کی وجہ سے اس قدر متاثر ہوگئے تھے کہ ان کی نوکری بھی نہیں رہی تھی اسی نے مجھے نوکری پر مجبور کیا۔
حالات سے مجبور ہو کر نوکری کے لیے مجھے اپنا آبائی شہر گوجرانوالہ چھوڑنا پڑا اور میں نے اپنی پہلی نوکری کا آغاز 2011 میں ایک جوتے کی فیکٹری میں 7,500 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ سے شروع کیا۔
اس وقت میرے والد گوجرانولہ میں ہی تھے مگر ان کی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے مجھے انہیں لاہور میں اپنے پاس بلانا پڑا۔
میں نوکری کے ساتھ ساتھ اپنے والد کا خیال بھی کرتا تھا اور اسی دوران میں نے اپنی تعلیم دوبارہ جاری کرنے کے بارے میں سوچا مگر بد قسمتی سے 2014 میں دل کی بیماری کے باعث میرے والد کا بھی انتقال ہوگیا۔
مجھے آرٹ کا بچپن سے ہی شوق تھا اسی لیے والد کے انتقال کے بعد میں نے ’گرافک ڈیزائننگ‘ کے کورس کے لیے ایک کالج میں ایڈمیشن لیا۔
نوکری کے ساتھ ساتھ میں نے رات کی کلاسز میں ’گرافک ڈیزائننگ‘ کی تعلیم حاصل کرنا شروع کردی۔ کالج سے آنے کے بعد بھی میں اپنی پڑھائی کو ہی وقت دیتا تھا۔
میں ایک پیدائشی آرٹسٹ ہوں اور بچپن میں لکڑیوں کو تراش کر مختلف قسم کے ماڈل اور فن پارے بنایا کرتا تھا۔ رات میں جب فرنیچر والے اپنی دکان بند کر کے چلے جاتے تھے تو میں ان کی دکان کے باہر پھینکی گئی لکڑیاں اٹھا کر اس کے فن پارے بنایا کرتا تھا۔
لوگ عام طور پر اپنی پاکٹ منی سے اپنے لیے چیزیں خریدتے تھے مگر میں ان پیسوں سے اپنے لیے ان فن پاروں کو بنانے کے لیے اوزار خریدا کرتا تھا جن سے لکڑی تراشی جاتی ہے۔"
احسن قیوم کو کس کے فن نے متاثر کیا؟
"2015 میں روسی مینی ایچرآرٹسٹ سلاواتفدائی کے فن پاروں کو دیکھنے کے بعد یہ محسوس کیا کہ میں بھی ایسا کچھ کر سکتا ہوں، اور پھر میں نے پینسل اور بلیڈ کا استعمال کرتے ہوئے اپنے اس شوق کو پروان چڑھایا۔
شروعات میں میرے ہاتھوں میں اتنی نفاست نہیں تھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں بہتری آنا شروع ہوگئی۔"
احسن قیوم کا پسندیدہ مینی ایچر
"گینیز ورلڈ ریکارڈ حاصل کرنے والا مینی ایچر میرےدل کے سب سے زیادہ قریب ہے کیوں کہ اسے بنانے میں سب سے زیادہ وقت صرف کیا۔
اس مینی ایچر کو بنانے میں ایک ماہ کا عرصہ لگا۔ یہ پینسل کے سکے یا لیڈ پر 75 کڑیوں پر مشتمل ایک زنجیر کا مینی ایچر تھا اور اس زنجیر کی ایک کڑی بنانے میں انہیں ایک گھنٹے کا وقت لگتا تھا جبکہ پورے فن پارے کو بنانے میں انہیں 120 گھنٹے لگےتھے۔
جب اس ریکارڈ کو بنانے کے بارے میں سوچا تھا تو اس وقت میں 12 گھنٹے کی نوکری کرتا تھا جس سے فراغت کے بعد یا نیند میں سے کچھ گھنٹے جاگ کر اسے مکمل کرتا تھا۔
ورلڈ ریکارڈ کی خبر سننے کے بعد پہلی بات جو دماغ میں آئی تھی وہ میرے والدین تھے اگر وہ آج زندہ ہوتے اور یہ دیکھتے کے ان کے بیٹے نے یہ اعزاز حاصل کیا ہے تو وہ بہت خوش ہوتے اور مجھے بھی بے حد فخر ہوتا۔
میں نے ایک بھارتی لڑکے کا ریکارڈ توڑا ہے جس نے پینسل کے سکے سے 58 زنجیروں کی کڑیاں بنا کر یہ ریکارڈ اپنے نام کیا تھا۔"
احسن کے مستقبل کے حوالےسے خیالات:
مستقبل کے حوالے سے احسن کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں آرٹس کا کوئی خاص مستقبل نہیں ہے اور انہیں وہ مقام حاصل نہیں ہے جو کہ ان کے لیے ہونا چاہیے تو ان تمام تر صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے میں مستقبل کے لیے اپنے ہی شعبے کو آگے لے کے جاؤں گا جو کہ گرافک ڈیزائنگ ہے‘۔
احسن سے جب ان کے مشاغل کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ میں بہت ’Fitness Conscious’بندہ ہوں، میں صبح سویرے اٹھنا پسند کرتا ہوں اور اٹھنے کے بعد میں پارک میں جاگنگ کرتا جبکہ رات میں اگر میں فارغ ہوتا ہوں یا کبھی کسی بے چینی میں مبتلا ہوتا ہوں تو میں اس وقت عام طور پر سائیکلنگ کرتا ہوں۔
احسن کو کتابیں پڑھنے کا کوئی خاص شوق نہیں مگر ان کا کہنا تھا کہ وہ آن لائن ایسے آرٹیکلز پڑھتے ہیں جن میں کسی شخص کی زندگی کی کامیابی کی کہانی ہوتی ہے کیونکہ یہ آرٹیکل انہیں بہت متاثر کرتے۔