خبردار! کہیں آپ بھی اپنی بیماری کی علامات گوگل پر تو سرچ نہیں کرتے؟

فوٹو: فائل

ہم میں سے اکثر لوگ بیماری کی تشخیص کے لیے گوگل کا انتخاب کرتے ہیں اور اپنی بیماری کی علامات کو گوگل پر سرچ کر کے اس کی ہدایت پر عمل کرنے کو صحیح سمجھتے ہیں۔

اگر آپ بھی ایسا ہی کرتے ہیں تو نئی تحقیق آپ کو اس حوالے سے خبردار کرتی ہے۔

نئی تحقیق کے مطابق گوگل پر اپنی بیماری کی علامات سرچ کرنے والے لوگوں میں ہر پانچ میں سے دوافراد کی بیماری کی غلط تشخیص ہوتی ہے۔

حال ہی میں تقریباً 2000 امریکی شہریوں پر ایک سروے کیا گیا جس کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے اپنی صحت کی علامات کو انٹرنیٹ پر سرچ ان میں سے 34  فیصد افراد کو ان کی بیماری کا غلط ادراک ہوا۔

ان لوگوں نے جب اپنی بیماری کو انٹرنیٹ پر سرچ کیا تو اس کے مطابق انہیں کوئی سنگین بیماری لاحق ہوگئی تھی حالانکہ اصل میں انہیں ایسی کوئی سنگین بیماری نہیں تھی۔

سروے کے مطابق47  فیصد لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنی بیماری کی علامات کو انٹرنیٹ پر سرچ کیا اور وہ اس کا نتیجہ دیکھنے کے بعد مزید پریشان ہوگئے۔

یہ سروے ’لیٹس گیٹ چیکڈ‘ کی جانب سے ون پول نے کیا جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ بیماری کی تشخیص کے لیے 51 فیصد افراد پہلے ایک ماہر ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں۔

دوسری جانب 26 فیصد افراد کے پاس بنیادی معالج کی سہولت میسر نہیں تھی جبکہ ہر 10 میں سے 6 افراد ڈاکٹر کے پاس جانے کو ترجیح نہیں دیتے، ان افرادکے ڈاکٹر کے پاس جانے سے گریز کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ ان کے اخراجات نہیں اٹھا سکتے جبکہ 37 فیصد افراد کا یہ ماننا تھا کہ وہ ڈاکٹر پر یقین نہیں رکھتے۔

سروے کے مطابق 37 فیصد افراد کا ماننا ہے کہ ان کے پاس معالج کے پاس جانے کا وقت نہیں ہے۔

جو افراد ڈاکٹر کے پاس جانے کو ترجیح دیتے ہیں ان میں سے 47 فیصد لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ وہ اپنی بیماری کو دیکھتے ہوئے اس کا فیصلہ خود کرتے ہیں کہ اس کا ٹیسٹ ہوسکتا ہے یا نہیں۔

لیٹس گیٹ چیکڈ کے میڈیکل ڈائریکٹر رابرٹ مورڈکن کا کہنا تھا کہ اس سروے سے ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنی بیماری اور اس کی علامات کو سمجھ نہیں پاتے یا تو ان کی بیماری کی تشخیص غلط ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اپنے آپ کو آگاہی دینا اچھی بات ہوسکتی ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ آپ اپنی بیماری کے لیے ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ٹیسٹ ضرور کروائیں۔

سروے کے مطابق اکثر لوگوں کو غدود کا مسئلہ رہتا ہے، تاہم جب سروے میں یہ سوال کیا گیا کہ یہ غدود جسم کے کس حصے میں موجود ہوتے ہیں تو ان میں سے صرف 45 فیصد افراد ہی اس بات کا صحیح جواب دے سکے تھے۔

مزید خبریں :