بلاگ
Time 11 فروری ، 2020

پنجاب اناج گھر بن سکتا تھا مگر...

فوٹو: بشکریہ ایری گیشن ڈپارٹمنٹ پنجاب

جیسا کہ میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ ایوب خان دور میں سات ڈیم بنے مگر ان میں سے کوئی ایک بھی پنجاب میں نہ بن سکا۔ 1960ء میں وارسک ڈیم بنا، یہ خیبر پختونخوا میں ہے، اسی صوبے میں 1968ء میں ایک بڑا ڈیم تربیلا ڈیم بنا۔ ایوبی دور کے آخر 1969ءمیں خیبر پختونخوا میں ہی ایک اور یعنی خانپور ڈیم بنا۔

یہ ڈیم ایوب خان کے اپنے آبائی ضلع ہری پور میں بنا۔ اسلام آباد میں دو چھوٹے ڈیم 1962ء میں بنے۔ راول ڈیم اور سملی ڈیم آج بھی قائم ہیں۔ کراچی کے پاس 1963ءمیں حب ڈیم بنایا گیا۔

1961ءمیں آزاد کشمیر میں منگلا ڈیم بنایا گیا۔ ان تمام ڈیموں کا پاکستان کو فائدہ ہوا، بہت اچھی بات ہے، ملک کو فائدہ ہونا چاہئے، ہمیں ایک دوسرے کو محبت کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے، صوبائی تعصب سے گریز اچھی بات ہے مگر سب کو حق تو ملنا چاہئے۔ کیا یہ ظلم نہیں کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں کوئی ڈیم نہ بن سکا۔

جب یہ بھی معلوم ہو کہ وہی صوبہ ملک کا اناج گھر ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اناج پیدا کرنے والے اس بڑے صوبے پنجاب میں درجنوں ڈیم بنائے جاتے مگر ایسا نہ ہو سکا۔

حیرت اس بات پر ہے کہ جب ملک کے دوسرے حصوں میں ڈیم بن رہے تھے تو پنجابی خوش تھے بلکہ ان منصوبوں کی تعمیر میں حصہ لیتے تھے، کوئی اختلافی آواز بلند نہیں ہوتی تھی مگر جب کالا باغ ڈیم کی بات شروع ہوئی تو ہر طرف سے اختلافات کی بارش شروع ہو گئی۔

اختلافات کی بارش کیوں شروع ہوئی، اسکا جائزہ بعد میں لیتے ہیں، پہلے یہ دیکھ لیں کہ کالا باغ ڈیم کے فوائد کس کس صوبے کو ہونا تھے، اس ڈیم سے کس قدر خوشحالی آنا تھی۔

اس ڈیم سے صرف پنجاب نہیں بلکہ پنجاب سے زیادہ سندھ کو ہریالی نصیب ہونا تھی کیونکہ اگر آپ کالا باغ ڈیم کے منصوبے سے پانی کی تقسیم دیکھیں تو اختلافات کی گنجائش نہیں رہتی لیکن ہمارے دشمن نے ہماری صفوں میں اتنا زہر گھولا کہ ہر طرف سے اختلافی آوازیں بلند ہوئیں۔

ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا کیونکہ اگر کالا باغ ڈیم بن جاتا تو آپ کو سستی ترین بجلی ملتی، آپ کے پیارے پاکستان کو 180ارب روپے کی سالانہ بچت ہوتی، میرے پیارے صوبہ سندھ کو 40لاکھ ایکڑ فٹ اضافی پانی ملتا۔

ہمارے خیبر پختونخوا کو 20لاکھ ایکڑ فٹ پانی نصیب ہوتا، پیارے بلوچستان کی سنگلاخ زمینوں کو سیراب کرنے کیلئے 15لاکھ ایکڑ فٹ پانی ملتا اور سب سے بڑے صوبے پنجاب کے حصے میں صرف 22لاکھ ایکڑ فٹ پانی آتا۔

بڑا صوبہ ہونے کے باوجود پانی کی اس تقسیم پر پنجابیوں کو اعتراض تھا نہ ہے، مگر دوسرے صوبوں میں بسنے والے چند سازشی عناصر نے پاکستان کیلئے مفید ترین منصوبے کو متنازع بناکر رکھ دیا۔

ہمارے خوبصورت ترین صوبوں میں پاکستان کے دشمنوں نے چند ایسے سماجی اور سیاسی رہنما تلاش کئے جو دشمن کے آلۂ کار بن گئے، انہوں نے کالا باغ ڈیم میں سے ایسے ایسے اختلافی پہلو نکالے جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

مثلاً سندھ کے ایک بڑے رہنما نے جو اعلیٰ حکومتی عہدے پر بھی رہے ہیں، نے عجیب و غریب بیان داغ دیا کہ ’’اگر کالا باغ ڈیم بن گیا تو پنجاب ہمارے پانی میں سے طاقت نکال لے گا‘‘ اس عجیب و غریب بیان کو حماقت نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے۔ کوئی اس رہنما سے پوچھتا کہ جناب آپ کے پاس جو پانی آتا ہے وہ منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم ہی سے آتا ہے۔

کیا اُس میں سے طاقت نکل چکی ہوتی ہے، گزشتہ پچاس ساٹھ برسوں سے سندھ کو جو پانی مل رہا ہے، کیا وہ بغیر طاقت کے مل رہا ہے اور پھر وہ کونسی سائنس ہے جو پانی میں سے طاقت نکال لیتی ہے، ڈیم پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے ہوتا ہے، طاقت نکالنے کیلئے نہیں۔

ڈیم میں پانی جمع کرکے ضرورت کے تحت استعمال کیا جاتا ہے، نہریں نکال کر زمینوں کو سیراب کیا جاتا ہے، اس سارے عمل میں طاقت کہیں بھی نہیں نکالی جاتی۔

ایوب خان کے دور میں ڈیم بن گئے پھر یہاں جمہوریت آ گئی اور جمہوریت میں جمہور یعنی لوگوں کی بہتری کیلئے سوچنے کا عمل رک گیا، پاکستان میں جمہوری لیڈر نعرے تو عوام کی بہتری کیلئے لگاتے ہیں مگر جائیدادیں اپنی بناتے ہیں۔

اگر یہ تمام جمہوریت کے دعویدار سچے ہوتے تو گزشتہ پچاس برسوں میں صرف کالا باغ ڈیم نہیں کئی اور ڈیم بن جاتے مگر یہاں لوگوں کی بہتری کا کون سوچتا ہے؟

پنجاب پر چالیس برسوں سے نااہلوں کی حکومت ہے، اس حکمرانی نے پنجاب کے باسیوں کو محروم سے محروم تر کر دیا مگر حیرت ہے کہ ان نکمے حکمرانوں کی بیرونِ ملک جائیدادیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔ ان حکمرانوں نے پنجاب کا سوچا ہی نہیں۔

اگر یہ سوچتے تو کالا باغ ڈیم کے علاوہ بھی کئی چھوٹے ڈیم بن سکتے تھے۔ پہاڑوں سے لپٹے ہوئے پنجاب کے اضلاع میں کئی ڈیم بن سکتے تھے، یہ چھوٹے ڈیم ضلع اٹک، چکوال، راولپنڈی، جہلم کے علاوہ گجرات، سیالکوٹ اور نارووال میں بن سکتے تھے، یہ تمام اضلاع پہاڑوں کی ایک پٹی سے جڑے ہوئے ہیں، میانوالی اور خوشاب میں بھی چھوٹے ڈیم بنائے جا سکتے تھے۔

اسی طرح ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں کم از کم چار ڈیم بن سکتے تھے مگر یہ سب کچھ نہ ہو سکا اور پاکستان کا بڑا اناج گھر پنجاب اس سے محروم رہا۔ باقی آئندہ۔ آخر میں عنبرین حسیب عنبرؔ کا شعر؎

قدم جو بھی‘ اٹھانا چاہئے تھا

نیا رستہ بنانا چاہئے تھا


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔