اردوان کا خطاب: جہانِ تازہ کی تلاش

فوٹو: فائل

پارلیمانِ اسلامی جمہوریہ پاکستان سے ترک صدر رجب طیب اردوان کا چوتھا خطاب محض خطاب برائے خطاب نہ تھا، مافیاز سے بنے پاکستانی اسٹیٹس کو میں گھری ہماری موجودہ اسٹیٹس کو دشمن عمرانی قیادت کے بلند تصورات اور ان کا کل عالم میں بیباک اظہار، عظیم ترک قائد کو شدید بحرانی کیفیت میں پھر پاکستان لے آیا، وہ آئے تو پھر وہ تھے اور پاکستان تھا۔ 

وہ صرف جیتی جاگتی ترک قوم کے مقبول ترین رہنما ہی نہیں ترکی کے جدید سیکولر اور مغربی رنگ میں رنگے جانے کے بعد سب سے کامیاب قائد بھی ہیں جنہوں نے اپنے جاری دور میں ترکی کو حقیقی سیاسی و اقتصادی استحکام دینے کا پہلا کٹھن اور طویل مرحلہ مکمل کرنے کے بعد راہ کا تعین کیا جو آج منزل کی طرف گامزن ہے۔

امر واقع یہ ہے کہ آج کی زوال میں ڈوبی دنیائے اسلام میں روایتی سیاسی سوچ اور عمل سے ہٹ کر بالآخر تین رہنما، مہاتیر محمد، اردوان اور عمران انتہا کے گنجلک اور تشویشی ماحول میں بفضل خدا ابھر آئے ہیں جنہوں نے اس تاریخی بیانیے کو غلط ثابت کر دکھایا ہے کہ ’’تاریخ کا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا‘‘۔ 

ان تینوں مسلم قائدین کی قدرِ مشترک ہی یہ ہے کہ یہ اپنی سیاست میں تاریخ سے سبق حاصل کرکے اور بنتی تاریخ پر نظر رکھتے ہوئے جدوجہد میں سرگرم لیڈر ہیں، جنہوں نے اپنے اپنے ملکی حالات اور اپنے اپنے مزاج و حواس کے مطابق اپنی قومی سیاست کی صورت گری کی، جس میں حائل مشکلات سے نمٹنا کوئی آسان کام نہیں۔

 ان کی دوسری مشترکہ خوبی یہ ہے کہ یہ اپنی ذات و پارٹی ہی نہیں بلکہ ملکی مفاد سے بھی آگے ملّی سوچ کے حامل قائدین ہیں، باوجود اس کے کہ تینوں کی کامیابیاں، مشکلات اور حالات بہت مختلف ہیں۔ 

ان کی منفرد اور مشترک سوچ او آئی سی کے جمود سے نکل کر کہاں پہنچی، یہ سمجھنے کیلئے ان کی آفاقی ہوتی شہرت کے درج ذیل پس منظر کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ جنگ عظیم دوم میں انسانیت کی وسیع تر تباہی کے بعد اقوام متحدہ کا قیام بلاشبہ تہذیب انسانی کے ارتقائی عمل میں ایک بڑا سنگِ میل تھا۔ 

یوں کہ اقوام عالم نے بلاامتیاز مذہب و علاقہ اور رنگ و نسل و لسان، ایک ہمہ گیر چارٹر سے شدت سے مطلوب پُرامن و مستحکم عالمی معاشرے کی تشکیل کیلئے عالمگیر نظام و انتظام کا آغاز تو کیا۔

انسانی تاریخ میں پہلی بار کرہ ارض کی تمام قومیں‘ اقوام کی آزادی و خودمختاری، بنیادی انسانی حقوق اور جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ و احترام کو یقینی بناکر عالمی امن و استحکام کی شدید خواہش پر متحد ہو گئیں۔ 

مسلم ہی نہیں بہت سے غیر مسلم مورخ اور بین الاقوامیت کے اسکالرز بھی اتفاق کرتے ہیں کہ یو این چارٹر کی انسپریشن محسنِ انسانیت سید الانبیاﷺ کے شہرہ آفاق آخری خطبے حجۃ الوداع سے ہے۔ 

آج 75سال بعد اقوام متحدہ کے چارٹر کی عملداری کی کیا تصویر بن رہی ہے، اس کا سات عشروں کا مجموعی رویہ اور اندازِ کار اس کے چارٹر سے متصادم ہوگیا، جسے صرف عالمی ادارے کی ترقیاتی ایجنسیاں ترقی پذیر ممالک میں سماجی ترقیاتی پروگرامز سے کور کرکے اس کا بھرم رکھے ہوئے ہیں، وگرنہ اقوام متحدہ کے قیام کے چند سال بعد ہی کوریا کو تقسیم کرنے والی جنگ، ویتنام کو تقسیم کرکے ایک طویل جنگ، سرد جنگ کی آڑ میں وسیع تر تباہی پھیلانے والے اسلحے کی نہ رکنے والی دوڑ، افغانستان، عراق، فلسطین، کشمیر، میانمار و شام میں بنیادی انسانی حقوق کے پرخچے اڑائے جانے پر عالمی امن کی بےحسی اور کہیں کسی کی کامیابی روکنے کیلئے مداخلت اور جہاں مداخلت ناگزیر وہاں عدم مداخلت کی مکاری، ’’قومی مفادات‘‘ پر بنیادی انسانی حقوق اور آزادی، سرحدوں کا تحفظ و احترام جیسا ایجنڈا ہیچ نہیں ہوگیا؟

امریکی صدر نے عالمی ادارے کی جنگ 67میں اسرائیل کے ہتھے چڑھے مقبوضہ علاقوں خصوصاً یروشلم کی متنازع حیثیت کے مقابل جو ’’ڈیل آف سنچری‘‘ کا اعلان کیا، ترک صدر نے پاکستانی پارلیمان میں اسے قبضے کے اعلان کی دیدہ دلیری قرار دیتے ہوئے رد کر دیا۔

جناب اردوان نے دنیا کو پاک ترک دوستی کی گہری جڑیں دکھاتے ہوئے سلطنتِ مغلیہ کے ہندوستان پر چھوڑے گہرے نقوش، اردو ادب کے عظیم شاعر مرزا غالب، تحریک خلافت کے روح رواں علی برادران، سلطنت عثمانیہ کے فوجی دستوں کی مدد کرنے کیلئے آنے والے عبدالرحمٰن پشاوری جیسے تاریخ کے سنہری حوالوں کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاک ترک تعلقات شاعر اعظم محمد اقبالؒ اور قائداعظم محمد علی جناح کے قیمتی ورثے کے نتیجہ میں ہی موجودہ شکل تک پہنچی ہے۔ 

انہوں نے پاک ترک تعلقات کی حقیقت اور اس کے آج نکلنے والے دوررس نتائج کو یوں بھی واضح کیا کہ 1915ء میں جب ترک فوج چناق قلعہ کا دفاع کر رہی تھی تو اس محاذ سے 6ہزار کلو میٹر دور اس سرزمین پر ہونے والے مظاہرے اور ریلیاں ہماری تاریخ کے ناقابلِ فراموش صفحات پر درج ہو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاک ترک تعلقات دنیا کیلئے قابلِ رشک ہیں۔ 

یہاں کے عوام نے اپنا پیٹ کاٹ کر جس طرح ترکی کی مدد کی تھی ہم اسے کبھی فراموش کر سکے نہ کر سکیں گے۔ اس لئے کشمیر کی حیثیت ہمارے لیے وہی ہے جو پاکستان کیلئے۔

ہم پاکستانیوں کیلئے یہ ہی تقویت نہیں کہ ترک قیادت ہمارے بزرگوں کے کردار کی معترف ہے بلکہ وہ آج تاریخ کے اس سنہری ابواب کی روشنی میں ہی اپنی اور اپنے برادر پاکستان کی سلامتی و دفاع کی پالیسیوں کو تشکیل دیتے ہوئے باہمی مشاورت و تعاون کو اولیت دے رہی ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ جناب طیب اردوان کے خطاب کی سطر سطر معنی خیز تھی اور یہ پاکستان، ترکی اور خطے کی مطلوب صورتحال کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرے گی۔ لگتا ہے کہ اردوان، مہاتیر اور عمران خان ایک جہانِ تازہ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے ہیں جس کا پیغام حقیقی امنِ عالم اور اس کا اہتمام بلاجھجک و ابہام ہے۔

مزید خبریں :