دنیا
Time 19 فروری ، 2020

9 بجے کا اہم خبرنامہ پڑھنے والی پہلی کورین خاتون اینکر

جنوبی کوریا میں روایات کو توڑتے ہوئے پہلی بار ایک خاتون اینکر ’لی سو جیانگ‘ رات 9 بجے کا اہم ترین خبرنامہ کامیابی سے پڑھ رہی ہیں— فوٹو: اے ایف پی

جنوبی کوریا میں روایات کو توڑتے ہوئے پہلی بار ایک خاتون اینکر ’لی سو جیانگ‘ رات 9 بجے کا اہم ترین خبرنامہ کامیابی سے پڑھ رہی ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق جنوبی کوریا میں پہلی بار کوئی خاتون اینکر دن کا اہم ترین بلیٹن ’نیوز 9‘ کررہی ہیں، اس سے قبل اس بلیٹن کیلئے سنجیدہ اور ادھیڑ عمر مرد نیوزکاسٹرز کا انتخاب کیاجاتا تھا۔

اس سے متعلق خاتون اینکر ’لی سو جیانگ‘ کا کہنا ہے کہ ان پر جتنی بڑی ذمہ داری ہے اتنا ہی زیادہ دباؤ بھی ہے کیونکہ جس معاشرے میں پہلے ہی مرد کو برتری حاصل ہو  وہاں اپنی حیثیت منوانا زیادہ مشکل ہوجاتا ہے۔

فوٹو: اے ایف پی

جنوبی کوریا میں بھی عموماً یہی دیکھا جاتا تھا کہ ایک سینئرصحافی دن بھر کی اہم ترین خبریں سناتے اور ان کے ساتھ موجود کم عمر خاتون اینکر پرسن ہلکی پھلکی خبریں اور بعد میں ان کی تفصیلات سے آگاہ کرتی ہیں۔

ان میں سے اکثر خواتین اینکر پرسن اپنا کیریئر بنانے کے بجائے جلد ہی امیر گھرانوں میں شادیاں کرلیتی ہیں کیونکہ انہیں اس شعبے میں اپنا مستقبل روشن نظر نہیں آتا۔

یاد رہے کہ ’لی سو جیانگ‘ نے نومبر سے رات 9 بجے کا خبرنامہ پڑھنا شروع کیا جس کے بعد سے اس پروگرام کے ناظرین کی شرح 9.6 سے بڑھ کر 11 فیصد تک ہو گئی ہے۔

اس تقرری کے ذریعے کورین براڈکاسٹنگ سسٹم (کے بی ایس) نے بڑی عمر کے مرد صحافیوں کو رکھنے کی روایت کو توڑا۔

’لی سوجیانگ‘ نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ پہلے خواتین نیوز رپورٹرز کو صرف خوبصورت پھول سمجھا جاتا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ بہت پُرعزم ہیں کہ وہ جنوبی کوریا کے براڈکاسٹنگ سسٹم کی اس دقیانوسی روایت کو توڑیں گی اور نوجوانوں کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کریں گی۔

فوٹو: اے ایف پی

خاتون اینکر کا کہنا ہے ان پر اس وقت دباؤ بھی بہت زیادہ ہہے کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ وہ چھوٹی سی غلطی کرنے کی بھی گنجائش نہیں رکھتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوتی ہے تو یہ صرف میری نہیں بلکہ تمام خواتین رپورٹرز کیلئے باعث شرمندگی ہوگی۔ اس لیے مجھے اپنی بہترین کارکردگی دکھانی ہے تاکہ دیگر خواتین رپورٹرز کے لیے مواقع بڑھ سکیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ ذمہ داری ٹی وی پر پرائم ٹائم میں لائیو نیوز پڑھنے سے بھی زیادہ سخت ہے۔

جنوبی کوریا نے ’کورین وار‘ کی تباہ کاریوں کے بعد محنت کرکے خود کو دنیا کی 12 ویں بڑی معیشت اور صنعتی اور کاروباری پاور ہاؤس تو بنالیا ہے لیکن اس دوران جنوبی کوریا میں سماجی اقدار کو ترقی نہیں ملی۔

جنوبی کوریا میں ملازمت پیشہ خواتین کو مردوں کی اجرت کا صرف 66 فیصد حصہ دیا جاتا ہے جو کہ ترقی یافتہ ممالک میں صنف کی بنیاد پر ادائیگی کا سب سے زیادہ فرق ہے۔

فوٹو: اے ایف پی

اس کے علاوہ ملازمت کرنے والی خواتین کو اور بھی قسم کے دباؤ کا سامنا رہتا ہے۔

اکثر خواتین کو بچوں کی پیدائش کے بعد اس قدر رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ تنگ آکر اپنی جاب ہی چھوڑنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔

اسی وجہ سے جنوبی کوریا میں زیادہ تر خواتین ماں بننا نہیں چاہتیں اور یہی وجہ ہے کہ جنوبی کوریا میں شرح پیدائش 2018 میں 0.98 فیصد تک گِرگیا تھا حالانکہ آبادی کے تناسب کو برقرار رکھنے کے لیے 2.1 فیصد شرح پیدائش برقرار رکھنا ضروری ہے۔

لی سو جیانگ کا مزید کہنا تھا کہ میں نے بہت ساری خواتین جرنلسٹس کو دیکھا انہوں نے ماں بننے کے بعد اپنے کیریئر کو خیرباد کہہ دیا ، یہ میرے لیے بہت افسوس اور مایوسی کا باعث تھا۔

لی سو جیانگ نے 2003 میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور ان کا ایک 6 سالہ بیٹا بھی ہے۔

اپنی کہانی بتاتے ہوئے لی نے بتایا کہ انہیں بھی ماں بننے کے بعد بہت ساری دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا انہیں ایسا لگتا تھا کہ وہ نہ تو اچھی ماں بن پارہی ہیں اور نہ ہی اچھی صحافی۔

ان کی تقرری سے متعلق کے بی ایس کا کہنا تھا کہ خواتین اینکر پرسن کی موجودہ تقرری وقت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 1980 کی دہائی میں ایسا سوچنا بھی ناممکن تھا۔

علاوہ ازیں ان کا کہنا تھا کہ پہلی خاتون مرکزی اینکر کی تقرری سے دنیا کو یہ پیغام جاتا ہے کہ جنوبی کوریا میں جنس کی بنیادوں پر تفریق اب ختم ہوگئی ہے۔

مزید خبریں :