کورونا وائرس: جان لیوا وباؤں پر بنی فلمیں مقبول ہو گئیں

کورونا وائرس سے ہزاروں افراد کی ہلاکت کے بعد وباؤں اور ان سے لوگوں کی ہلاکت کے موضوعات پر بننے والی  فلموں اور گیمز لوگ زیادہ پسند کر رہے ہیں۔ فوٹو رائٹرز/فائل

چین میں کورونا وائرس سے ہزاروں افراد کی ہلاکت کے بعد اس طرح کی وباؤں پر اور ان سے لوگوں کی ہلاکت کے موضوعات پر بننے والی فلموں میں لوگوں کی دلچسپی بڑھ گئی ہے۔

آئی ٹیونز پر جہاں ہر ہفتے نئی ریلیز ہونے والی فلموں کی سرچ ٹاپ پر ہوتی ہے، چین میں کورونا وائرس پھیلنے کے بعد اب لوگ ماضی میں وباؤں اور قدرتی آفات پر بننے والی فلمیں سرچ کر رہے ہیں جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ لوگ ان وباؤں سے بچنے کے حل بھی انہی فلموں میں تلاش کر رہے ہیں۔

گزشتہ کچھ ہفتوں سے 2011 میں امریکی فلم ساز اسٹیون سودربرگ کی بنائی گئی فلم ’کانٹیجیئن‘ آئی ٹیونز کے چارٹ پر پہلے نمبر پر ہے۔

اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ ایک کاروباری خاتون ہانگ کانگ میں ایک شیف سے ہاتھ ملانے کے بعد ایک مہلک مرض میں مبتلا ہوجاتی ہیں اور یہ مہلک مرض ان کے ساتھ امریکا میں آجاتا ہے۔تاث

اس فلم کی کہانی کافی حد تک چین میں پھیلنے والے حالیہ پُراسرار کورونا وائرس سے ملتی ہے جس سے اب تک دو ہزار سے زائد افراد ہلاک اور 75 ہزار سے زائد متاثر ہو چکے ہیں۔

کورونا وائرس کی طرح فلم میں دکھایا گیا جان لیوا وائرس بھی جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے اور پہلے ہی مہینے میں دنیا بھر میں 2 کروڑ 60 لاکھ سے زائد افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

کورونا وائرس کے پھیلنے کے بعد فلم "کانٹیجیئن" ایک مرتبہ پھر سے مقبول ہو گئی ہے اور مختلف ممالک کے ٹاپ چارٹس میں یہ اولین نمبروں پر ہیں۔

اسی طرح موبائل فون گیم ’پلاگ انک‘ بھی مقبولیت کی بلندیوں پر ہے جس میں کھلاڑی ایک قاتل مرض کو انسانوں میں پھیلنے سے روکتے ہیں۔

اس گیم کو بنانے والی کمپنی نڈیمک کریئیشن کا کہنا ہے کہ دنیا میں پھیلنے والے وائرس ایبولا اور کورونا دونوں کے دوران اس گیم کو سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کیا گیا ہے۔

گزشتہ سال یوٹیوب کے تعلیم سے متعلق ایک چینل ’ایکسٹرا کریڈٹس‘ نے 1918 میں دنیا میں زکام کے وباء سے لاکھوں افراد کی ہلاکت کے 100 سال مکمل ہونے پر7 حصّوں پر مشتمل ایک اینیمیشن سیریز ریلیز کی۔

سیریز کے مصنف رابرٹ راتھ کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد سے ان کی سیریز کو لاکھوں لوگ دیکھ چکے ہیں۔

اس کے علاوہ امریکا کی پروڈکشن کمپنی نیٹ فلکس نے بھی اس دوران جنوری میں "پینڈامک" نام کی دستاویزی فلم بنائی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح دنیا نئے وائرسز کے لیے بالکل بھی تیار نہیں ہے۔

امریکا کے صحافی شیری فرنک اور اس فلم کے پرڈیوسر کا کہنا تھا کہ لوگوں کا فلم ’پینڈیمک‘ سے متعلق کہنا ہے کہ یہ فلم بلکل درست وقت پر ریلیز ہوئی ہے۔

مزید خبریں :