وقت کے ایوانوں میں گونجتا مسئلہ کشمیر

ہم کشمیر کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں اور اِس کے منصفانہ حل تک چَین سے نہیں بیٹھیں گے: ترک صدر—فوٹو فیس بک

14فروری کی صبح ترک صدر جناب رجب طیب اردوان نے پاکستانی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے کچھ ایسے انداز میں خطاب کیا کہ تاریخ انگڑائی لیتی ہوئی محسوس ہوئی۔ ہندوستان میں تحریکِ خلافت کے مناظر آنکھوں کے سامنے پھرنے لگے جب مسلمان خواتین نے اپنے زیور بیچ کر اپنے ترک بھائیوں کو زبردست مالی امداد فراہم کی تھی جس سے ترک مجاہدین نے اسلحہ خریدا اور اپنے وطن کو تباہی اور غلامی سے بچایا۔ 

محبت کے یہی لازوال رشتے جناب اردوان کی تقریر میں جھلک رہے تھے۔ اُنہوں نے والہانہ انداز میں کہا ہم کشمیر کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں اور اِس کے منصفانہ حل تک چَین سے نہیں بیٹھیں گے۔ یہ ایک بلندقامت لیڈر اور بلند ہمت دوست کی ایک ایسی روح پرور آواز تھی جس نے پاکستانی عوام کے ساتھ ساتھ کشمیری عوام کے اندر ایک نئی روح پھونک دی ہے جبکہ بھارتی حکومت اِس پر بلبلا اُٹھی ہے۔ 

خوش قسمتی سے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل جناب انتونیو گوتریس پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے تھے۔ اُنہوں نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ کشمیری عوام کو مقبوضہ کشمیر میں وہی آزادیاں اور بنیادی حقوق دیے جائیں جو اُنہیں آزاد کشمیر میں ہر سطح پر میسر ہیں۔ اِس امر پر زور دِیا کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد ازبس ضروری ہے۔

 اِس کے علاوہ اُنہوں نے پاکستانی فوج کو سلام پیش کیا جو مختلف ممالک میں یو-این پیس مشن میں زبردست کردار ادا کر رہی ہے۔ وہ پاکستانی عوام کی دردمندی اور مہمان نوازی کی تعریف میں رطب اللسان رہے کہ وہ گزشتہ چالیس برس سے لاکھوں افغان مہاجرین کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ مسئلہ کشمیر پر اُن کے مضبوط موقف سے بھارت کی قیادت بدحواسی کا شکار نظر آتی ہے۔ الحمدللہ پاکستان کا امیج بہت بہتر ہوا ہے۔

مسئلہ کشمیر نے آج سے 72سال قبل سر اُٹھایا تھا، اِس لیے ہماری نئی نسل اِس کے تمام پہلوؤں کا پورا اِدراک نہیں رکھتی۔ پچھلے دنوں مجھے ٹی وی اینکر، منفرد لہجے کی شاعرہ اَور بالغ نظر کالم نگار محترمہ عائشہ مسعود نے کشمیر پر اپنی تصنیف ارسال کی جو 2014میں لکھی گئی تھی۔ مصنفہ نے کشمیر سے متعلق اَن گنت آپ بیتیوں، سرگزشتوں اور سفرناموں کا مطالعہ کیا اور اُن سے اخذشدہ حقائق ایسے لطیف اور دانش مندانہ پیرائے میں بیان کر دیے جن سے موضوع کا کینوس بہت وسیع ہو گیا ہے۔ 

فاضل مصنفہ نے ایک فلسفی اور تاریخ شناس کی حیثیت سے مسئلہ کشمیر کے تمام بنیادی گوشے اجاگر کیے ہیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ تاریخ اور اَدب سے ایسے واقعات کا بھی انتخاب کیا ہے جو قاری کو عجیب و غریب حقیقتوں سے روشناس کراتے اور اِسے بلندنگاہی عطا کرتے ہیں۔ محترمہ نے یہ واقعہ تحریر کیا ہے کہ ایک شام علامہ اقبال کی رہائش گاہ پر جواہر لعل نہرو، میاں افتخار الدین کے ہمراہ پہنچے اور علامہ اقبال کی چارپائی کے ساتھ بچھی ہوئی چاندنی پر بیٹھ گئے اور باتوں باتوں میں کہنے لگے ہم آپ کو ہندوستان کے مسلمانوں کا متفقہ رہنما بنانے پر غور کر رہے ہیں کہ آپ عوام کے زیادہ قریب ہیں جبکہ مسٹر جناح عوام سے دور بھی ہیں اور اُن کی زبان بھی نہیں سمجھتے۔ 

علامہ نے دوٹوک جواب دیا: پنڈت جی! میں تو مسٹرجناح کا ادنیٰ سا کارکن ہوں اور وَہ میرے لیڈر ہیں۔ برِصغیر کی تاریخ کا ایک اور دِلچسپ واقعہ قلمبند کیا ہے کہ نہرو اور گاندھی کے مقابلے میں مولانا محمد علی جوہرؔ نے جب اپنا نظریہ تبدیل کیا، تو وہ ایک مرتبہ اسمبلی کا تماشہ دیکھنے پریس گیلری میں بیٹھے تھے۔ پنڈت نہرو نے اُنہیں دیکھتے ہی نیچے اسمبلی میں آ جانے کو کہا۔ مولانا نے برجستہ جواب دیا کہ میں اِس بلندی سے آپ کی پستی کا نظارہ کرنے آیا ہوں۔

مصنّفہ کے مطابق ملکوں اور قوموں کی کہانیوں میں کرداروں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ سقوطِ غرناطہ کی کہانی میں امیر عبداللہ کا کردار اِس قدر شرمناک اور تاریخ شکن تھا کہ اس نے غرناطہ اور اِس کے قرب و جوار میں 35ہزار اِسلامی سپاہ ہونے کے باوجود صدیوں پر محیط اُمت ِ مسلمہ پر المناک کہانی مسلط کر دی تھی جس کا ماتم آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ 

مشرقی پاکستان کے عبداللہ خان نیازی اور کشمیر کے شیخ عبداللہ اور کئی مزید عبداللہ جو فرمانروائے غرناطہ کے ہم پلہ ہیں۔ مشرقی پاکستان کے عبداللہ خاں نیازی کے پاس نوے ہزار فوج موجود تھی جبکہ شیخ عبداللہ کو مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد میسر تھی، مگر وہ مسلمانوں کی آزادی اور سلامتی کا تحفظ کرنے کے بجائے اُنہیں سخت آزمائشوں کی دلدل میں دھکیل گئے جن کے باعث اب جگہ جگہ مقتل کھلے ہیں۔ 

اِس کتاب کے چار ابواب ہیں جن کی ایک ایک سطر میں ماہ و سال، کئی صدیاں اور دَرد کی لہریں سمٹی ہوئی ہیں۔ اُنہوں نے کمال دانائی سے اُن مصنّفین کو بےنقاب کیا ہے جو تحریکِ آزادیٔ کشمیر پر طرح طرح کے اعتراض اُٹھاتے ہیں اور کشمیری بھائیوں کو ڈوگرہ فوج کی چیرہ دستیوں سے بچانے کے لیے قبائلیوں کی آمد کو بہت بڑی دشمنی قرار دیتے ہیں۔

 فاضل مصنفہ نے برطانوی مصنّفین کی تحریروں سے ثابت کیا ہے کہ قبائلیوں کی آمد سے کئی ماہ پہلے جموں میں نہایت بےدردی سے پانچ لاکھ مسلمان شہید کر دیے گئے تھے اور وزیراعظم نہرو نے سری نگر پر قبضہ کرنے کے لیے ریاست کے الحاق کا ڈراما رچایا تھا جس کا بھانڈا معروف مؤرخ Alastair Lamb نے پھوڑ دِیا ہے۔ مصنفہ نے یہ پہلو بھی پوری قوت سے نمایاں کیا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اِس لیے بھی پیدا ہوا کہ بعض کشمیری رہنماؤں نے دو قومی نظریے سے انحراف کیا اور ہندوؤں کے ہاتھوں باربار فروخت ہونے کو ترجیح دی ہے۔

مجھے پوری توقع ہے کہ اِس کتاب کے مطالعے سے ہماری نوجوان نسل میں کشمیری عوام کو بھارت کی کربلا سے نکالنے کے لیے ایک نیا شعور اور اَیک نیا ولولہ کروٹ لے گا جس کے مجاہدانہ اظہار سے غلامی کی زنجیریں کٹتی چلی جائیں گی کہ عالمی بیداری کی صورت میں اقوامِ عالم کو اپنا کردار اَدا کرنا ہو گا۔

مزید خبریں :