بلاگ
Time 27 فروری ، 2020

پاک افغان تعلقات

فوٹو فائل—

افغانستان اور پاکستان جغرافیائی، مذہبی، سماجی، معاشرتی اور تجارتی لحاظ سے جڑے رہنے کے باوجود تاحال ایک بظاہر ختم نہ ہونے والی سیاسی مخاصمت کا شکار ہوکر اپنے تاریخی رشتوں سے کماحقہٗ فائدہ اٹھانے سے محروم ہیں۔ 

اگر یہ تعلقات استوار ہوتے تو اطراف میں رہنے والے کروڑوں افراد خاص طور پر پختون عوام کا معیار زندگی بہت بہتر ہوتا۔ افغانستان میں بیرونی جارحیت کے خلاف لڑی جانے والی جنگوں کا بہت بڑا اثر پاکستان پر پڑا جس کے نتیجے میں اب تک لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان میں ہیں جن کی وطن واپسی کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔

 اس کے علاوہ افغانستان میں لڑی جانے والی ان جنگوں کے پس منظر میں پاکستان کےخلاف بھی درپردہ جنگیں لڑی گئیں جن سے وسیع پیمانے پر تباہی اور بربادی ہوئی۔ گزشتہ دہائی میں دہشت گردی کے باعث پاک افغان دوریوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اس سے پاکستان میں بسنے والے افغان مہاجرین کے خلاف ردعمل ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام خاص کر سابقہ قبائلی علاقوں میں رہنے والے افراد کو دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز کے دوران کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

سید ابرار حسین بہت مشکل اور تاریخ ساز ادوار میں قندھار اور کابل میں پاکستان کیلئے سفارتکاری انجام دیتے رہے۔ آپ طالبان کے دور عروج میں تین سال تک قندھار میں کونسل جنرل رہے جس کے دوران آپ نے طالبان قیادت بشمول ان کے امیر ملاعمر سے کئی ملاقاتیں کیں جو بظاہر بڑے دوستانہ ماحول میں ہوئیں مگر ان سے پاکستان کیلئے خیر کی کوئی امید برآمد نہیں ہوئی۔ 

مثلاً 1999میں میاں نواز شریف کے دور حکومت میں طالبان کو شمالی اتحاد سے مذاکرات اور انہیں حکومت میں شامل کرنے کی پاکستانی کوششوں کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکا۔ اسی طرح جنرل مشرف کے دور میں جب طالبان نے بامیان میں گوتم بدھ کے مجسمے توڑنے کا اعلان کیا تو پاکستان کے اعلیٰ سرکاری وفد جس میں مصنف بھی شامل تھے، نے ملاعمر سے کئی گھنٹے تک مذاکرات کرکے انہیں اس عمل سے روکنے کی کوشش کی۔ اسےطالبان امیر نے اس بنا پر رد کردیا کہ یہ فتویٰ قومی سطح کے قاضیوں اور مفتیوں نے دیا تھا جس پر نظرثانی نہیں کی جا سکتی اور یہ کہ مستقبل میں یہ بت مسلمانوں کی کمزوری کا سبب بن سکتے ہیں۔ 

اس واقعے سے پہلے قندھار میں آپ کی تعیناتی کےدوران بھارتی جہاز ہائی جیک ہوکر آیا جو بعد میں بھارتی قید میں محبوس مسعود اظہر سمیت دو افراد کی رہائی پر منتج ہوا۔ مصنف نے اس ہائی جیکنگ میں بھارتی انٹیلی جنس کے رول کے بارے میں شکوک کا اظہار کیا ہے۔

طالبان کی حکومت ختم ہونے کے کچھ سال بعد ابرار حسین پاکستانی سفیر کی حیثیت سے واپس افغانستان تشریف لے گئے جہاں انہیں اپنی دو سالہ مدت تعیناتی کے دوران حامد کرزئی اور پھر اشرف غنی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ ان کے مشاہدات کے مطابق اکثر افغان سیاستدان پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے خواہاں ہوتے ہیں مگر حکومت میں آتے ہی وہ بھارتی لابی کے دباؤ میں آکر گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔ 

آپ نے کتاب میں کئی ایسے واقعات کا ذکر کیا ہے جہاں صدر اشرف غنی پاکستانی کوششوں کا مثبت جواب دینے کے فوراً بعد بھارتی اثر میں آکر نہ صرف یہ کہ وعدوں سے مکر گئے بلکہ پاکستان کے خلاف بیانات دے کر فضا کو مکدر بنا کر امن کے ممکنہ امکانات کو جز وقتی طور ختم کردیا۔ 

آپ نے افغان انٹیلی جنس این ڈی ایس پر الزام لگایا کہ اس نے کئی بار پاکستانی سفارتی عملے کو جانی نقصان پہنچانے کی کوشش کی جو بروقت اطلاع ہونے کی وجہ سے محفوظ رہا۔ جنوری 2016میں جلال آباد میں پاکستانی قونصل خانےپر دہشت گرد حملے میں چھ افغان پولیس اہلکار جاںبحق اور ایک پاکستانی اہلکار زخمی ہوگیا۔

 افغان سیکیورٹی حکام کے مطابق حملہ داعش نے کرایا مگر پاکستانی سوالات کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔ آپ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ این ڈی ایس سیاستدانوں پر پاکستان مخالف بیانات دینے کیلئے دباؤ ڈالتی ہے اور یہ کہ کئی افغان سیاستدان بھارتی سفارتخانے سے پیسے لیتے رہے ہیں۔

ابرار صاحب اپنے وسیع مشاہدات اور تجربات کے باوجود صورتحال کو نہایت سادگی سے بیان کرتے ہیں۔ ان کے اسلوب میں کسی قسم کے تصنع کے بجائے دردمندی اور خلوص کا ایک واضح تصور پایا جاتا ہے۔ 

اگرچہ آپ نے حالات و واقعات کو بیان کرنے میں حددرجہ اختصار سے کام لیا ہے مگر ان کی واقعاتی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کتاب کے آخر میں آپ نے پاک افغان تعلقات کی بہتری کیلئے ایک قابلِ قبول لائحہ عمل تجویز کیا ہے جس پر دونوں ممالک کے پالیسی سازوں کو صدق دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ نہ صرف دو طرفہ تعلقات بلکہ پورے خطے میں دائمی امن کے لئے سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔