حکومت نواز شریف کو اسپتال منتقل کرکے اب کہتی ہے سب غلط تھا: ن لیگ

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کے دوران حکومت کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کو ڈی پورٹ کرنے کے لیے برطانوی حکومت کو خط لکھنے کے عمل پر سوالات اٹھا دیے۔ 

گزشتہ روز حکومت نے لندن میں زیر علاج سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی وطن واپسی کے لیے برطانوی حکومت کو خط لکھا تھا جس کی مسلم لیگ (ن) نے شدید مذمت کی تھی۔ 

اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مصدق ملک نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اکتوبر میں حکومت نے نواز شریف کو اسپتال منتقل کیا، میڈیکل بورڈ بنایا اور اس میں تمام ڈاکٹرز حکومت نے منتخب کیے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو 24 اکتوبر کی رات ہارٹ اٹیک ہوا، اس سے پہلے نوازشریف کو جیل میں بھی ایک ہارٹ اٹیک ہو چکا تھا، نواز شریف کودل کا سنگین عارضہ ہے، حکومت اب کہتی ہے کہ سب غلط تھا تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟

مصدق ملک کا کہنا ہے کہ نوازشریف کو 7 اسٹنٹ لگ چکے ہیں، ایک خراب ہوچکا ہے، ان کے دل کو 22 فیصد خون کی سپلائی نہیں جا رہی اور دماغ کو خون سپلائی کرنے والی ایک شریان بھی بند ہے۔

نواز شریف کی رپورٹس کے حوالے سے لیگی رہنما نے کہا کہ میڈیکل رپورٹس ڈاکٹرز، نوٹری پبلک اور لندن میں فارن آفس سے تصدیق شدہ ہیں، پاکستانی ہائی کمیشن نے رپورٹس کی تصدیق کی لیکن حکومت کہتی ہے رپورٹس جھوٹی ہیں۔

 برطانوی حکومت کو خط لکھنے سے متعلق مصدق ملک نے کہا کہ کس معاہدے کے تحت خط لکھا جا رہا ہے؟ صرف شور ہے جس کا مقصد مہنگائی سے توجہ ہٹانا ہے، اپیل دائر کرنے کے لیے مشاورت جاری ہے۔

خیال رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف 19 نومبر 2019 سے علاج کی غرض سے لندن میں مقیم ہیں جہاں ان کے مسلسل ٹیسٹ اور طبی معائنہ کیا جارہا ہے اور جلد ہی دل کا آپریشن کیا جائے گا۔

25 فروری کو پنجاب حکومت نے نوازشریف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کردی تھی جس کے بعد صوبائی حکومت نے وفاق کو کارروائی کے لیے خط لکھا تھا۔

ذرائع کے مطابق پنجاب حکومت کی سفارش پر وزارت خارجہ کے ذریعے برطانوی حکومت کو لکھے گئے خط کے متن میں کہا گیا ہےکہ نواز شریف سزا یافتہ مجرم ہیں لہٰذا انہیں واپس بھجوایا جائے۔

نواز شریف کی ضمانت کا پس منظر

24 دسمبر 2018 کو احتساب عدالت اسلام آباد نے نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ 29 اکتوبر 2019 کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے طبی بنیادوں پر سابق وزیراعظم کی 8 ہفتوں کے لیے سزا معطل کردی تھی۔

ہائیکورٹ کی جانب سے نوازشریف کی ضمانت منظوری اور سزا معطلی کا تحریری فیصلہ جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا کہ نوازشریف کی ضمانت 8 ہفتوں کے لیے منظور اور سزا معطل کی جاتی ہے۔

فیصلے کے مطابق نوازشریف کی طبیعت خراب رہتی ہے تو وہ ضمانت میں توسیع کیلئے پنجاب حکومت سے رجوع کرسکتے ہیں، طبیعت خرابی پر نوازشریف 8 ہفتوں کی مدت ختم ہونے سے پہلے پنجاب حکومت سے رجوع کرسکتے ہیں۔

فیصلے میں حکم دیا گیا کہ پنجاب حکومت کے فیصلہ کیے جانے تک نوازشریف ضمانت پر رہیں گے، اگر نوازشریف پنجاب حکومت سے رجوع نہیں کرتے تو 8 ہفتے بعد ضمانت ختم ہوجائے گی۔

اس کے بعد 16 نومبر کو لاہور ہائیکورٹ نے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا تھا اور انہیں علاج کی غرض سے 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی جس کے بعد وہ 19 نومبر کو لندن سے روانہ ہوگئے تھے۔

25 فروری 2020 کو پنجاب حکومت نے نوازشریف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کردی تھی جس کے بعد صوبائی حکومت نے وفاق کو کارروائی کے لیے خط لکھا تھا اور وفاق نے اب برطانیہ کو نواز شریف کی واپسی کیلئے وزارت خارجہ کے ذریعے خط لکھاہے۔

مزید خبریں :