دستِ دعا بلند ہیں

کورونا وائرس کے عہد میں موت، ماتم اور تعزیت سب کچھ بدل گیا—فوٹو اے ایف پی

اس وقت ہم سب توازن سے دور ہیں۔ صبح جب میری آنکھ کھلی تو مجھے اپنے معطل ہونے کا احساس ہوا۔ گزشتہ ہفتے دنیا میں ہزاروں ملازم تھے آج نہیں ہیں۔ بیروزگاری بڑھ گئی ہے۔ بچے اسکولوں میں نہیں۔ سرحدیں، ہوائی اڈے، ہوٹل اور کاروبار بند ہیں۔ دنیا کے فلاحی نظام ناکام ہو چکے ہیں بلکہ دنیا مروجہ وقت سے باہر نکل آئی ہے۔

دنیا کی معیشت اربوں ڈالر کے نقصان میں پہنچ گئی ہے۔ ترقی کا پہیہ جام ہو چکا ہے۔ صرف فوری اسپتالوں کی تعمیر جاری ہے۔ فیکٹریاں صرف علاج معالجہ کی چیزیں بنا رہی ہیں۔ موت بولائی اونٹنی کی طرح زندگی کے تعاقب میں بھاگ رہی ہے۔ کورونا وائرس کے عہد میں موت، ماتم اور تعزیت؛ سب کچھ بدل گیا۔ اٹلی میں کووڈ انیس کے ہاتھوں مرنے والوں کی لاشیں لے جانے والے فوجی ٹرکوں کی قطاروں کے دل خراش مناظر نے اس حقیقت کو بھی بدل دیا ہے کہ ہم انسان موت کا سامنا کس طرح کرتے ہیں اور اس سے کس طرح نمٹتے ہیں۔ جانے والوں کو کیسے الوداع کہتے ہیں۔ امریکہ بار بار خدا سے مدد مانگ رہا ہے۔

نیویارک میں لاشیں ڈھونے کیلئے ٹرکوں کو مردہ خانوں کی گاڑیوں میں بدلا جا رہا ہے۔ مغرب میں مسلمانوں کی تدفین مسئلہ بن چکی ہے۔ وہاں کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی میت کو اسپتال سے ایک پلاسٹک بیگ میں پیک کر دیا جاتا ہے۔ اسے کھولنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ وہ اس میت کو مسلم فیونرل ہوم لاتے ہیں جہاں اسے غسل نہیں دیا جا سکتا۔ پلاسٹک کے اوپر کفن ڈال کر تابوت میں رکھ دیا جاتا ہے۔ اس تابوت کو قبرستان روانہ کیا جاتا ہے۔ کورونا وائرس سے مرنے والوں کا ان کے اہلِ خانہ کوآخری دیدار کرنے کی اجازت نہیں۔ 

نیوجرسی کے ایک اولڈ ہوم میں 94بوڑھے افراد مقیم تھے۔ چیک کیا گیا تو تمام کورونا کے مریض بن چکے تھے۔ اسپین میں پانچ ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ وہاں سب مذاہب کے لوگوں نے اجتماعی سجدہ کیا اور بارگاہ ِایزدی میں رو رو کر کورونا سے نجات کی دعائیں مانگیں۔ یورپ موت کے خوف سے سہما ہوا ہے۔ 

لندن جہاں دنیا بھر سے کروڑوں کی تعداد میں سیاح آتے تھے، وہاں اس وقت ہُو کا عالم ہے۔ ٹریفالگر اسکوائر، پکاڈلی، لندن برج، بکنگھم پیلس یعنی ملکہ برطانیہ کی رہائش گاہ، وہاں سیاحوں کا مجمع لگا ہوتا تھا مگر اب وہاں ایک دو راہگیر بھی نظر نہیں آتے۔ لوگ گھروں میں قید ہیں، اپنے دریچوں سے باہر پھیلی ہوئی ویرانی کو دیکھتے ہیں اور پھر خاموشی سے اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں۔ سب کی نظریں آسمان کی طرف ہیں۔ اُسی طاقت کی طرف جو حقیقی سپر پاور ہے۔

سائنس ویکسین کے امکان کی طرف گامزن ہے۔ بیشمار کمپنیاں اور تعلیمی ادارے ویکسین بنانے کی کوشش میں ہیں، کچھ سائنسدان اپنی ویکسین جانوروں پرجانچ رہے ہیں۔ اس کے بعد ویکسین انسانوں پر آزمائی جائے گی۔ کچھ لوگ اپنی ویکسین انسانوں پر آزمانے کے بالکل قریب ہیں۔ 

بہرحال اس وقت ضروری ہے کہ لیڈی میکبت کی طرح بار بار ہاتھ دھوئے جائیں۔ ہیملٹ کی طرح اپنے کاموں کو چھوڑ دیا جائے۔ محمد علی کلے کی طرح صحت پر توجہ دی جائے۔ حکمرانوں کی طرح کسی کو گلے نہ لگائیں بلکہ فاصلہ برقرار رکھیں۔ جسم کو وطن سمجھ کر فوجیوں کی طرح اس کی حفاطت کی جائے۔ مسلمان عورتوں کی طرح مردوں کو بھی ماسک پہن لینے چاہئیں۔ کسی کے ساتھ ناچنے سے، دھمال ڈالنے سے گریز کریں۔ پسینہ پونچھنے کیلئے کسی کا رومال چوری نہ کریں۔ کارِ محبت ملتوی کر دیں۔ کار بارش کے پانی کو دھونے دیں۔ فصلیں مشینوں کو کاٹنے دیں۔ گھروں میں بیٹھ کر اچھا میوزک سنیں۔ اچھی اچھی کتابیں پڑھیں۔ بیوی سے اچھے مراسم رکھیں کہ وہ ذائقہ دار کھانے بنا بنا کر کھلائے۔ 

مجھے برمنگھم سے میرے بیٹے عادل منصور نے کورونا کے حوالے سے ایک میسج بھیجا ہے ’’ایک بہت ہی مدقوق اور باریک عفریت نے سر اٹھا لیا ہے۔ جس کے پیٹ میں موت بھری ہوئی ہے۔ میں اسے سڑکوں، گلیوں اور مارکیٹوں میں دیکھ رہا ہوں اور بے چین ہوں۔ گروسری کے اسٹورز کی ساری شیلفیں خالی ہوچکی ہیں۔ ٹوائلٹ پیپر اور بلیچ بھی موجود نہیں۔ جہاں آٹے کے تھیلے سیدھے کھڑے ہوتے تھے وہاں خالی پن کی بوریاں رکھی ہیں۔ 

مجھے ایسے لگ رہا ہے جیسے جنگ ہونے والی ہے۔ ایک خوفناک جنگ۔ میرے لیونگ روم میں اسپرے کی بدبو پھیلتی جا رہی ہے۔ میرے ہاتھ بلیچ سے دھلے ہوئے ہیں مگر میں انہیں چہرے کی طرف لے جانے سے ڈرتا ہوں۔ موسمِ بہار شروع ہوچکا ہے مگر مجھے پھولوں سے خوشبو نہیں آ رہی ہے۔ میرے گھر کی پشت پر جو پارک ہے، کئی دنوں سے خالی پڑا ہے۔ کوئی اور تو کجا میں خود وہاں نہیں گیا۔ ڈیڈ کچھ بتائیں میں کیا کروں‘‘۔

میں اسے کیا بتاؤں میں خود میانوالی شہر سے پینتالیس میل دور اسد الرحمٰن کے ڈیرے پر پچھلے ایک ہفتے سے رہ رہا ہوں۔ جہاں اصیل مرغ ہیں۔ بےشمار کبوتر ہیں۔ اور اسد الرحمٰن کی شاعری، انہی تین چیزوں سے دل بہلاتا رہتا ہوں۔ رات کو شہزاد سلیم اور اختر مجاز آ جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں قاسم خان سوری اور تنویر حسین ملک بھی آئے تھے۔ ان کے ساتھ یوکے سے آئے ہوئے ایک دوست سعید پوڑا کے والد کی فاتحہ خوانی کیلئے وہاں بھچراں چلا گیا۔ ہمارے دوست پنجاب بلدیات کے پارلیمانی سیکرٹری ملک احمد خان بھچر کا بھی وہیں گھر ہے۔ 

قاسم خان سوری کی ہمراہی میں وہاں بھی گیا۔ واپس آیا تو کئی واہموں نے گھیر لیا۔ خاص طور پر یوکے سے آئے دوست سے ملاقات ذہنی الجھن کا سبب بنی اور وہ اُس وقت تک رہی جب تک قاسم خان سوری اور تنویر حسین ملک کے اتفاقاً ہونے والے کورونا ٹیسٹ کا نتیجہ منفی نہیں آگیا۔ اس وقت یہ کیفیت صرف میری نہیں‘ دنیا کے اربوں لوگوں کی ہے۔ سو دستِ دعا بلند ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔