04 اپریل ، 2020
جنگ گروپ کے پبلشر ،پرنٹر، گروپ چیئر مین و ایگزیکٹیو ایڈیٹر اور ہفت روزہ ’اخبار جہاں‘ کے ایڈیٹر انچیف جناب میر جاوید رحمان اس فانی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کے جانے سے صحافت میں ایک سنہرےعہد کا اختتام ہوگیا ہے۔
16اگست 1946ء کو دہلی میں میر جاوید رحمان صاحب کا جنم ہوا۔ ہجرت کے بعد والدین کے ساتھ پاکستان آئے اور ابتدائی تعلیم سینٹ میری ٹاؤن اینڈ کنٹری اسکول سے حاصل کی، جامعہ کراچی اور برطانیہ کی یونیورسٹی آف ویلز،انگلینڈ سےاعلی تعلیم حاصل کی۔
یوں تو میر جاوید رحمان نے اپنے عظیم والد میرِ صحافت، میر خلیل الرحمان مرحوم کاعَلم تھام کر جنگ گروپ کو صحافت کے میدان میں بلندیوں پر پہنچایا لیکن ان کی خاص وابستگی ہفت روزہ ’اخبار جہاں‘ سے تھی جس کے لیے وہ کہا کرتے تھے کہ یہ میری اولاد کی طرح ہے۔
بلاشبہ اپنے الفاظ کا حق ادا کرتے ہوئے جاوید صاحب نے حقیقی طور پر ’اخبار جہاں‘ کو پال پوس کر بڑا کیا اور اس پر اتنی محنت کی کہ دنیا بھر میں آج یہ اردو زبان کا سب سے بڑا ہفت روزہ میگزین ہے۔
’اخبار جہاں‘ کے آغاز کے اگلے برس 15جنوری 1967ء کو میر جاوید صاحب نے ’اخبار جہاں‘میں مینیجنگ ایڈیٹر کا عہدہ سنبھالا۔ صرف 21 برس کی عمر میں’اخبار جہاں‘ کا مینیجنگ ایڈیٹر بننے کے بعد انہوں نےاس جریدے کی خاطر دن رات ایک کردیا۔
میر جاوید صاحب بتاتے تھے کہ ان کے والد نے انہیں کئی مختلف زبانوں کے تاریخی میگزینز کے حوالے دیتے ہوئے’اخبار جہاں‘ کو آگے لے جانے کے لیے مفید مشورے بھی دیئے۔
30 جون 1968ء کو بڑے میر صاحب نے جاوید صاحب کو ’جنگ‘ راولپنڈی کی ذمہ داریاں بھی سونپ دیں۔ بقول میر جاوید صاحب والد کی آغوش میں بچپن سے ہی ان کی صحافتی تربیت ہورہی تھی۔ 1978ء سے تا دم مرگ میر جاوید صاحب نے بطور ایڈیٹراِنچیف (مدیر اعلی) کے طور پر ’اخبار جہاں‘ کے لیے کام کیا۔
’اخبار جہاں‘ سے جاوید صاحب کا ساتھ 53 برس کا رہا ہے، انہوں نے نصف صدی میں اس ادارے کو آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بنادیا ہے، ’اخبار جہاں‘ کی ادارتی ٹیم کا ہر ایک فرد وہ خود منتخب کیا کرتے تھے۔
53 برس تک جاوید صاحب نے ’اخبار جہاں‘ کے ہر ایک صفحے کی اشاعت سے قبل اس کا بغور جائزہ لیا، وہ سرورق کے معاملے میں ہمیشہ خود فیصلہ لیتے، ساتھیوں سے مشورہ لیتے اور اس کا احترام بھی کرتے۔
دراز قد اور رعب دار چہرے کے مالک میر جاوید رحمان کی شخصیت میں صوفیانہ گہرائی موجود تھی جس کے بارے میں ان کے قریبی ساتھی بخوبی واقف ہیں۔ آپ سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے۔
یہی وجہ تھی کہ جب ربیع الاوّل کا مہینہ آتا تو ہمیشہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ’اخبار جہاں‘ کے سرورق پر شائع کرتے اور اس حوالے سے تحریروں کے ہر لفظ پر مفتی حضرات سے مشاورت کے بعد اشاعت کا حکم دیتے۔ جاوید صاحب فرماتے تھے کہ’جب بھی روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری دیتا ہوں، ادارے کے ہر فرد سمیت سب کے لیے دعا کرتا ہوں۔‘
’اخبار جہاں‘ کی اشاعت کی گولڈن جوبلی کے موقع پر میر جاوید رحمان صاحب نے اپنے خصوصی انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’1978ء میں اخبار جہاں کی اشاعت 18 ہزار تھی، میں نے اللہ سے بہت گڑ گڑا کر دعا کی کہ اس کی اشاعت ایک لاکھ ہوجائے لیکن اگلے برس تک صرف 100 کاپیوں کا اضافہ ہوا، میں رب العزت کے حضور دعا مانگتا رہا، پھر 1980ء میں اخبار جہاں کی اشاعت 72 ہزار ہوئی اور 1981 میں مزید 41 ہزار کا اضافہ ہوا،اللہ نے مزید کامیابی دی اور اخبار جہاں کی اشاعت ڈھائی لاکھ ہوگئی۔‘
جاوید صاحب فرماتے تھے کہ ’والد نے جب مجھے چیف ایگزیکٹو بنایا تو نصیحت کی کہ تم جنگ کے مالک ہی نہیں بلکہ کارکن بھی ہو۔‘
اس بات کو انہوں نے ہمیشہ اپنے دل سے لگائے رکھا اور عمل پیرا رہے۔ شدید بیماری کی حالت میں بھی جاوید صاحب دفتر آتے رہے یہاں تک کہ اسپتال سے بھی ’اخبار جہاں‘ کی نگرانی کرتے رہے۔
میر جاوید رحمان کو کتابوں سے عشق تھا اور ان کی کلیکشن میں ہزاروں کتابیں موجود ہیں۔
ایک صحافی ہونے کے ناطے تعلیم سے لے کر شوبز تک، زندگی کے ہر شعبے پر ان کی انتہائی گہری نظر رہتی تھی۔
اکثر ایسا ہوتا کہ میں کسی موضوع پر تحریر اُن کی خدمت میں پیش کرتا تو اس سے متعلق کوئی اہم قصہ جاوید صاحب کی یادوں کی پٹاری میں موجود ہوتا تھا۔ وہ راتوں کو جاگ کر مطالعہ کرنے کے عادی تھے۔ ایک کتاب رات بھر میں پڑھنا اور اگلی صبح اس کے بارے میں تجزیہ پیش کرنا ان کی خاصیت تھی۔
عام طور پر اداروں کے سربراہان اپنے ہر کارکن کے بارے میں نہیں جانتے لیکن یہ جاوید صاحب کی شخصیت کا ہی خاصہ تھا کہ وہ ناصرف چپڑاسی سے لے کر چائے بنانے والے تک کوپہچانتے، بلکہ اس کی خبر گیری بھی کیا کرتے۔
یہاں تک کہ اپنے قریبی چپڑاسی عاشق علی کے انتقال پر ان کی قبرکے انتظامات کی نگرانی بھی خود کی۔
آپ چہرہ اور شخصیت شناس بھی تھے،کام کرنے والا شخص کبھی ان کی نظر سے اوجھل نہیں رہتا تھا، جاوید صاحب اپنی اس خوبی کے بارے میں اکثر مسکرا کر ’شرلاک ہومز ‘(sherlock holmes) کا ذکر کرتے۔
میر جاوید رحمان صاحب کے بارے میں لکھتے ہوئے آج انگلیاں کانپ رہی ہیں کیوں کہ ایک تو ان کے جانے کا غم، دوسرا یہ سوچ کہ وہ شخص جو ہر تحریر میں اس کے مزاج کے مطابق لفظوں کے انتخاب کو جانچا کرتےتھے، ان کے لیے لکھنے کے لیے درست الفاظ کا چناؤ کرنا بہت مشکل ہے۔
میر جاوید صاحب ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، مجھے یہ شرف حاصل رہا ہے کہ میں نے ان کے قریبی ساتھی کے طور پر آخری دنوں تک ان کے ساتھ کام کیا۔
میر جاوید رحمان صاحب نے مجھے جیو نیوز روم سے منتخب کیا اور اخبار جہاں کا ڈپٹی ایڈیٹر بنایا جو میرے لیے ہمیشہ اعزاز رہے گا۔
ان کی یادوں کی ایک طویل فہرست ہے جسے یہاں بیان کرنا ممکن نہیں، ان کی زندگی کی چند یادیں آپ کے ساتھ بانٹیں۔
اللہ پاک جاوید صاحب کی مغفرت فرمائے اور ان کے اہل خانہ اور ہم کارکنان کو صبرِجمیل عطا فرمائے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔