بلاگ
Time 05 اپریل ، 2020

کورونا کی پرواز

فوٹو: فائل

کہا جا سکتا ہے کورونا وائرس تفتان بارڈر پر ناکافی انتظامات کے سبب پھیلا۔ کہا جا سکتا ہے کہ بغیر اجازت کے تبلیغی جماعت نے جو اجتماع کیا وہ بھی وائرس کے مزید پھیلنے کا سبب بنا مگر میرا یہ سوال ہے کہ اٹلی، اسپین، فرانس، برطانیہ اور امریکہ میں کیا یہ وبا زائرین نے پھیلائی یا تبلیغی جماعت والوں نے۔ کورونا چین میں کہاں سے آیا تھا۔ ایران اسے کون لے گیا تھا۔ سعودی عرب کہاں سے پہنچا تھا۔ یہ سب سوال سانپ گزر جانے کے بعد لکیر پیٹنے کے مترادف ہیں۔

اس وقت پوری دنیا کو خطرات لاحق ہیں۔ یورپ اور امریکا اِس وائرس کے سامنے ہار چکے ہیں، لندن کی صرف ایک کونسل نے بارہ ہزار نئی قبریں بنانے کا آرڈ دیا ہے۔ چین سوگ منا رہا ہے مگر پھر بھی ان ممالک میں مقابلے کی ہمت موجود ہے۔

مجھے تو یہ خدشہ پریشان کیے جا رہا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کا کیا ہوگا جہاں کورونا کی قیامت آنے کو ہے۔ عراق، شام اور اسرائیل زد میں ہیں۔ ان علاقوں کی زیادہ آبادی مذہب سے جڑی ہے۔ عراق اور شام کے زائرین جو ایران واپس آئے ہیں، ان میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے مگر شام کے جنگ زدہ علاقہ میں کورونا کا ٹیسٹ ممکن ہی نہیں۔ 

اسرائیل کے قدامت پسند یہودیوں میں بھی کورونا مسلسل پھیل رہا ہے کیونکہ وہ اپنے مذہبی عقائد کی بنا پر احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کیلئے تیار نہیں۔ اس وقت اسرائیل میں کورونا کے مریضوں کی تعداد دس ہزار سے بڑھ چکی ہے۔ پھر وہ علاقے جہاں مہاجرین کے کیمپ ہیں، وہاں اس وبا کو کون روکے گا۔ وہاں تو بنیادی سہولتیں بھی لوگوں کو میسر نہیں مگر اس وقت انہیں کون یاد کرے۔ 

یاد کرنے والوں کے اپنے گھر ماتم کدے بنے ہوئے ہیں۔ عراق اور شام میں لاکھوں لوگ بےگھر ہیں۔ ہیلتھ کا نظام ہے ہی نہیں۔ کچھ ایسی صورتحال لبنان کی بھی ہے۔ غزہ اسرائیل کے محاصرے میں ہے اور وہاں امدادی ایجنسیوں کو بھی کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ وہاں بھی کورونا کے پھیلنے کا شدید خطرہ ہے۔ وہاں مریض بھی موجود ہیں مگر ابھی ان کی تعداد ایک سو سے زیادہ نہیں ہوئی۔

مقبوضہ کشمیر میں بھی کورونا کے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس وقت جب پاکستان اپنی جیلوں میں موجود قیدیوں کو بھی رہا کرنے کے متعلق سوچ رہا ہے کہ کورونا کے باعث ان کی زندگیاں خطرہ میں ہیں۔ بھارت نے مقبوضہ وادی میں کرفیو اور سخت کر دیا ہے، طبی سہولتیں کشمیریوں کی دسترس سے باہر ہیں۔ 

وہاں کورونا سے مرنے والے ہر شخص کی ذمہ دار مودی حکومت ہوگی۔ اقوام متحدہ کو کشمیریوں کے معاملہ میں فوری طور پر دخل اندازی کرنا چاہئے اور دنیا کے طویل ترین کرفیو کا خاتمہ کرانا چاہئے۔ 

پاکستان میں بھی کچھ لوگ ہیں جنہوں نے کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے بہتر انداز میں کام نہیں کیا۔ خاص طور پر وزیراعلیٰ بلوچستان کی کارکردگی پر بہت انگلیاں اٹھ رہی ہیں جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی تعریف کی جا رہی ہے۔ اپوزیشن میں کچھ لوگ عمران خان پر بھی تنقید کر رہے ہیں لیکن ان کی تنقید بےجا ہے۔ اس وقت عمران خان کی تمام تر توجہ کورونا کی طرف ہے۔

امریکا کے حالات بھی بہت ناگفتہ بہ ہیں۔ کورونا نے وہاں ایسی تباہی پھیلائی ہے کہ میرے دوست آفاق خیالی نے مجھے میسج میں لکھا ’’امریکہ میں بھی بھوکوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، فوڈ بینک کے پاس وافر مقدار میں فوڈ موجود ہے مگر ہجوم کو کنٹرول کیلئے نیشنل گارڈ پولیس کے ساتھ ساتھ فوڈ تقسیم کیلئے والنٹیر ملنا مسئلہ ہے۔ 

دس ملین افراد دو ہفتے میں بیروزگار ہوئے۔ اپریل میں بیروزگاری کی پوری ایک فصل کٹنے جا رہی ہے، خوراک کی فصل کی کٹائی کیلئے نہ کسان ہیں نہ مزدور، گزشتہ تین دہائیوں میں فصل کی کٹائی پر کام کرنے والے مزدور کی کمی کا بحران عروج پر ہے، ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کی حمایت کرنے والے اب پچھتا رہے ہیں‘‘۔ 

ان کے نیشنل گارڈ کے جوان تمام امریکی ریاستوں میں کورونا وائرس کے خلاف جنگ کر رہے ہیں جس طرح پاکستان کی پاک آرمی نے کورونا کے خلاف جہاد شروع کر رکھا ہے۔ بےشک کورونا ایک ایسا وبائی مرض ہے کہ جس خلاف کام کرنا جہاد کے زمرے میں آتا کہ اس کے سبب مسلم امہ کی عبادات میں خلل پڑھ رہا ہے۔ 

خدشہ یہاں تک پہنچا ہوا کہ پتا نہیں اس سال مسلمان حج بھی کر سکتے ہیں یا نہیں۔ اس وقت مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے علاوہ سعودی عرب کے تین اور شہروں میں بھی کرفیو لگا ہوا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ سعودی عرب میں تمام مساجد بند ہیں۔ ایران میں یہی صورتحال ہے۔

انڈیا کے حالات بھی بہت خراب ہیں جس دن وہاں لاک ڈاؤن کیا گیا انڈین ایکسپریس نے ہیڈلائن لگائی تھی ’’انڈیا پیدل گھر کو جا رہا ہے‘‘۔ بی بی سی کے مطابق ’’یہ عجیب مناظر بڑی حد تک 1947ء میں انڈیا اور پاکستان کی تقسیم کے بعد خون ریز ہجرت سے مماثلت رکھتے ہیں۔ اُس وقت کئی لاکھ لوگ مشرقی اور مغربی پاکستان کی طرف آناً فاناً ہجرت پر مجبور ہو گئے تھے۔ 

اس بار اپنے ہی ملک میں لاکھوں لوگ اپنے گھروں کی طرف جانے کے لیے بےچین ہیں۔ راستے میں بھوک اور مشکلات کے باوجود یہ اپنے آبائی علاقوں تک پہنچنے کےلیے بےتاب ہیں۔ اس وبا کی روک تھام کے لیے کیے جانے والا لاک ڈاؤن ایک بڑے انسانی بحران کو جنم دے رہا ہے‘‘۔ 

یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ بھارت میں چند ہفتوں میں کورونا وائرس کے سونامی کا خطرہ ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں لاک ڈائون میں پاکستانیوں نے اپنے غریب بہن بھائیوں کا بھرپور خیال رکھا ہے۔ حکومت نے جو ایپ بنائی ہے اس کی وساطت سے ہر حقدار شخص تک حکومتی امداد ضرور پہنچے گی مگر خطرے میں ہم بھی ہیں۔ خدا نخواستہ امریکہ اور چین کی طرح اس نے پاکستان میں بھی پر پھیلا دیے تو کیا ہوگا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔