بہانے نہ کریں، امداد کریں

فیس بک فوٹو—

یوں تو غربت کا مذاق اُڑانے کا سلسلہ کئی دنوں سے جاری ہے اور لاک ڈائون کے دوران راشن کے نام پر بانٹی جا رہی ’خیرات‘ کے عوض بیشمار سیٹھ ضرورت مندوں کی عزتِ نفس مجروح کر رہے ہیں۔ 

آٹے کے تھیلے بانٹنا ہوں، گھی کے پیکٹ تقسیم کرنا ہوں یا پھر دو کلو چاول کی بھیک دینی ہو، سب سے پہلے کیمرے کا بندوبست کیا جاتا ہے تاکہ سخاوت اور دریا دلی کا چرچا ہوسکے۔ مگر چند روز قبل ایک ایسی تصویر نظر سے گزری جس میں لاہور کے گورنر ہائوس میں وزیراعظم عمران خان ایک خاتون کو راشن پر مبنی کارٹن عنایت کر رہے ہیں، گورنر پنجاب چوہدری سرور، وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور مشیرِ اطلاعات فردوس عاشق اعوان کو بھی تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔

 بے بسی کی تصویر بنی باحجاب خاتون جسے راشن دیا جا رہا ہے، اس کی نظریں زمین میں گڑی ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے خود بھی یہی چاہتی ہے کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں دھنس جائے۔ ماضی میں سلائی مشین سستی شہرت کا ذریعہ ہوا کرتی تھی۔ کوئی حاجی صاحب، کوئی سردار صاحب، کوئی چوہدری صاحب یا کوئی سیٹھ صاحب دردِ دل رکھنے والے افراد کی فہرست میں شامل ہونا چاہتے تو محلے کی چند بیوہ خواتین کو جمع کرتے اور ان میں سلائی مشینیں تقسیم کرکے یہ مناظر کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کر لئے جاتے۔ 

جنہیں یہ غلط فہمی تھی کہ غریب و نادار افراد کے استحصال کا وہ زمانہ لد گیا، انہیں خبر ہو کہ سستی شہرت کا یہ طریقہ آج بھی مستعمل ہے، بس انداز و اطوار بدل گئے ہیں۔

جب سے لاک ڈائون ہوا ہے، حکومتی سطح پر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ کار پردازانِ حکومت کو دہاڑی دار افراد اور مزدوروں کی بہت فکر ہے اور ان کی ہر ممکن امداد کی جائے گی۔ کبھی وفاقی حکومت امدادی پروگرام کا اعلان کرتی ہے تو کبھی صوبائی حکومتیں شور وغوغا کرتی ہیں کہ غریب افراد کے لئے اتنے ارب روپے مختص کر دیے گئے۔ جب کوئی فریاد کرتا ہے کہ یہ امدادی رقم ان تک کب اور کیسے پہنچے گی تو امورِ سلطنت چلانے والے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ افسوس ہمارے پاس دہاڑی دار طبقے کا ڈیٹا دستیاب نہیں۔ 

ہم ایف بی آر، نادرا، اسٹیٹ بینک اور دیگر اداروں کے تعاون سے اعداد و شمار جمع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اگر آپ درخواست گزاروں کی صف میں شامل ہونے کے خواہاں ہیں تو فلاں ہیلپ لائن پر اپنا شناختی کارڈ نمبر لکھ کر میسج کریں۔ فلاں نمبر پر رابطہ کریں یا پھرضلعی انتظامیہ سے نام کے اندراج کے لئے رجوع کریں، ہم تصدیق کریں گے۔ 

اگر آپ واقعی امداد کے مستحق ہوئے توآپ سے رابطہ کیا جائے گا۔ گویا، وہ حکومت جسے بجلی اور گیس کے بل گھر گھر پہنچانے میں کوئی دقت نہیں، جسے وصولی کرنا ہو تو پیٹرول کی قیمت بڑھا دیتی ہے اور کوئی انکار نہیں کر پاتا، اسے معلوم نہیں ہو پا رہا کہ ضرورت مندوں تک کیسے پہنچا جائے۔ سستی شہرت کا ایک طریقہ یہ ڈھونڈا گیا ہے کہ آٹے کے تھیلوں سے بھرا ٹرک کسی چوراہے میں کھڑا کریں اور لوگوں کو دھکم پیل کرنے دیں، جس میں ہمت ہو گی وہ آٹا لے جانے میں کامیاب ہو جائے گا۔

پنجابی کا محاورہ ہے ’’من حرامی، حجتاں ڈھیر‘‘ یعنی اگر نیت ٹھیک نہ ہو تو بہانے بہت۔ غریب ونادار افراد کی فہرستوں کے نام پر جعلسازی اور لوٹ مار کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ لوگوں کو بیوقوف بنا کر امداد کے نام پر پیسے بٹورے جا رہے ہیں۔ اگر نیت صاف ہو اور براہِ راست ضرورت مند افراد تک رقوم پہنچانا مقصود ہوں تو 24گھنٹوں میں امدادی رقوم غریب افراد تک پہنچائی جا سکتی ہیں۔ ن

ادرا کے مطابق پاکستان کی 220ملین کی آبادی میں 92ملین بالغ افراد کے پاس کمپیوٹرائزد شناختی کارڈ موجود ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق 21.3فیصد پاکستانی بینک اکائونٹ ہولڈر ہیں۔ یعنی 46ملین بالغ افراد بینک اکائونٹ استعمال کرتے ہیں۔ اگرچہ بینک اکائونٹ ہولڈرز میں سے بھی کوئی غریب یا ضرورت مند ہو سکتا ہے لیکن بالعموم جن کے پاس بینک اکائونٹ ہوتا ہے وہ دو وقت کی روٹی کے محتاج نہیں ہوتے۔ 

یعنی 92ملین بالغ افراد میں سے 46ملین بینک اکائونٹ ہولڈرز کو نکال دیں۔ باقی 46ملین افراد میں سے بیشتر ضرورت مند اور غریب ہیں۔ اسٹیٹ بینک اور نادرا کو کہا جائے کہ ان 46ملین افراد کا ڈیٹا مہیا کیا جائے اور انہیں ایزی پیسہ، موبی کیش یا اسی طرح کی کسی اور سروس سے رقم منتقل کر دی جائے۔ وفاق نے احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے تحت 144ارب روپے مختص کئے ہیں۔ پنجاب نے انصاف امداد پروگرام کے تحت 10ارب روپے تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اسی طرح سندھ حکومت بھی اپنے طور پر ریلیف دے رہی ہے۔ 

اگرمرکزی سطح پر ان 46ملین افراد کو فی کس تین ہزار روپے بھیجے جائیں تو 138ارب روپے درکار ہوں گے۔ غریب اور ضرورت مند افراد کی مدد کرنے کا ایک اور طریقہ یہ تھا کہ ہر شخص کو بجلی کے بل کی مد میں تین ہزار روپے کا ریلیف دیدیا جائے۔ بجلی تو ہرغریب امیر استعمال کرتا ہے، اگر 4فیصد امداد ان لوگوں پر ضائع ہو جائے جنہیں اس کی ضرورت نہیں تو کوئی حرج نہیں کیونکہ حکومت جو طریقہ اختیار کرے گی اس سے 50فیصد امداد بھی ضرورت مندوں تک نہیں پہنچ سکے گی۔ 

مگر اس تجویز پر کسی صورت عملدرآمد نہیں ہوگا کیونکہ ایسا ہوگیا توٹیکس لے کر امداد دینے اور پھر احسان جتلانے والے اپنی تصویریں کہاں چپکائیں گے، امداد تقسیم کرنے والے ’’وچولے‘‘ کھانچے کیسے لگائیں گے؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔