کورونا وائرس کتنی اقسام کا ہے اور انسانوں کیلئے سب سے خطرناک وائرس کونسا ہے؟

لفظ "کورونا " وائرسز کے اس وسیع خاندان کے لیے استعمال ہوتا ہے جو پرندوں اور انسانوں سمیت ممالیہ کو متاثر کرتا ہے۔

لفظ "کورونا"، وائرسز کے اس وسیع خاندان کے لیے استعمال ہوتا ہے جو پرندوں اور انسانوں سمیت ممالیہ کو متاثر کرتا ہے۔ دنیا کو اس وقت جس نئےکورونا وائرس کا سامنا ہے وہ "کووِڈ 19" کہلاتا ہے جو کہ پہلی مرتبہ دسمبر 2019 میں چین میں سامنے آیا۔

دنیا میں سیکڑوں کی تعداد میں کورونا وائرس پائے جاتے ہیں لیکن ان میں سے اب تک صرف 7 ایسے ہیں جو انسانوں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ ان سات کورونا وائرسز میں سے 4 کورونا وائرس انسانوں میں سردی اور زکام جیسی علامات ظاہر کرتے ہیں جب کہ بقیہ تین کورونا وائرس انسانوں کے لیے سنگین خطرات رکھتے ہیں۔

تمام 7 وائرس نظام تنفس کے بالائی حصے میں انفیکشن پیدا کر سکتے ہیں اور ان کی علامات سردی لگنا اور زکام جیسی ہو سکتی ہیں جب کہ دیگر علامات میں بند ناک، گلے میں درد، کھانسی، سردرد اور بخار شامل ہیں۔

امریکا کے سینٹرفار ڈیزیزکنٹرول اینڈ پریونشن(سی ڈی سی) کے مطابق بہت کم ہی کورونا وائرس نظام تنفس کے نچلے حصے میں پیچیدگیاں پیدا کرتے  ہیں، مثلاً نمونیا وغیرہ ۔ یہ پیچیدگیاں بچوں، بوڑھوں اور ایسے افراد میں زیادہ عام ہیں جنہیں پہلے سے ہی کوئی بیماری ہو یا ان کی قوت مدافعت کم ہو۔

انسانوں میں پائے جانے والے 4 کورونا وائرس بہت عام ہیں، جنہیں 229E ، NL63 ،OC43 اور HKU1 کے ناموں سے جانا جاتا ہے۔ یہ وائرس عموماً معمولی یا درمیانے درجے کی علامات ظاہر کرتے ہیں۔

سی ڈی سی کے مطابق دنیا میں زیادہ تر لوگ اپنی زندگی میں کم از کم ان میں سے ایک وائرل انفیکشن کا شکار لازمی ہوتے ہیں اور زیادہ تر افراد خودبخود ہی اس سے صحتیاب بھی ہو جاتے ہیں۔

اوپر بیان کیے گئے 4 وائرسز کے علاوہ باقی تین بنیادی طور پر جانوروں میں انفیکشن کے حوالے سے پہچانے جاتے تھے مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ وائرس ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے اب انسانوں میں بھی منتقل ہوگئے۔

یہ وائرس اس وقت انسانی صحت کے لیے سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔

سارس کوو(SARS-CoV)

SARS-CoV "سوِیَر ایکیوٹ ریسپریٹری سنڈرم (سارس) پیدا کرتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وائرس کا پہلا مریض نومبر 2002 میں جنوبی چین میں سامنے آیا تھا۔ 

اس کے بارے میں بھی مانا جاتا ہے کہ یہ چمگادڑوں سے شروع ہوا اور وہاں سے دیگر جانوروں میں منتقل ہوا جس کے بعد اس نے انسانوں کو متاثرکیا۔

سنہ 2003-2002 میں 26 ممالک میں اس کے 8 ہزار سے زیادہ کیسز سامنے آئے اور دنیا بھر میں مجموعی طور پر 774 افراد اس سے ہلاک ہوئے۔

سنہ 2003 کے وسط میں اس پر قرنطینہ اور آئسولیشن کے ذریعے قابو پایا گیا۔ اِس وقت اس کا دنیا میں کوئی مریض موجود نہیں ہے لیکن یہ وائرس دوبارہ سامنے آیا تو انسانوں کو شدید متاثر کر سکتا ہے۔

مرس کوو(MERS-CoV)

MERS-CoV سے مڈل ایسٹ ریسپریٹری سنڈرم(مرس) ہوتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ ستمبر 2012 میں سعودی عرب میں سامنے آیا تاہم بعد میں اس وائرس کے کیسز کا تعلق اردن سے نکلا۔

انسانوں کو یہ وائرس اونٹوں سے لگا اور یہ وائرس بھی کسی متاثرہ انسان کے انتہائی قریب ہونے سے آگے منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اس وائرس کے 27 ممالک میں 2400 سے زائد کیسز سامنے آئے جن میں سے اکثریت کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔ یہ وائرس بعد ازاں 2015 میں جنوبی کوریا میں بھی پھیلا جہاں اس کی وجہ سے 186 افراد متاثر ہوئے اور 36 ہلاکتیں سامنے آئیں۔

یورپین سینٹر فار ڈیزیز پریونشن اینڈ کنٹرول (ای سی ڈی پی سی) کے مطابق 2019 میں اس وائرس سے متاثرہ 200 مریض سامنے آئے تھے۔

سارس کوو ٹو(SARS-CoV-2) یا نیا کورونا وائرس

سارس کوو 2 کورونا وائرس کے خاندان کا سب سے نیا وائرس ہے اور اس سے پیدا ہونے والے انفیکشن کو COVID-19 کا نام دیا گیا ہے۔ یہ وائرس گزشتہ سال دسمبر میں چین کے شہر ووہان میں اس وقت سامنے آیا جب  وہاں ڈاکٹروں نے لوگوں میں نمونیا کے کیسز میں اچانک اضافہ دیکھا۔

رپورٹس کے مطابق یہ وائرس ووہان کی گوشت مارکیٹ پھیلنا شروع ہوا ۔ یہ بھی ممکنہ طور پر جانوروں سے ہی انسانوں میں منتقل ہوا مگر اس کی اصل وجہ ابھی بھی واضح نہیں ہے۔

کووِڈ 19 اس وقت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے اور اس کے مریضوں کی تعداد 15 لاکھ تک پہنچ چکی ہے جب کہ 89 ہزار سے زائد افراد اب تک اس سے ہلاک ہو چکے ہیں۔

یہ وائرس اس لیے بھی خطرناک ہے کہ یہ ایک انسان سے دوسرے انسان میں بہت جلد منتقل ہو رہا ہے اور ایسا شخص جس میں اس کی کوئی علامات موجود نہ بھی ہو تو وہ دوسروں کو یہ وائرس منتقل کر سکتا ہے۔

اس کی بنیادی علامات میں ، کھانسی، بخار، سانس میں دشواری اور تھکاوٹ شامل ہیں جب کہ اس کی ہلکی علامات میں بندناک، گلے میں درد، جسم میں درد اور دست شامل ہیں۔

ابھی تک اس وائرس کی کوئی ویکسین موجود نہیں ہے اور سنہ 2002 کی طرح اس کے پھیلاؤ کو بھی روکنے کے لیے لوگوں سے سماجی رابطے ختم کرنے اور گھروں تک محدود ہونے کا کہا جا رہا ہے۔