پاکستان
Time 15 اپریل ، 2020

وزیراعلیٰ پنجاب کا ایف آئی اے کے سامنے سیاسی بنیادوں پر تبدیلیوں کا اعتراف

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی طرف سے چینی بحران کے حوالے سے تیار کی گئی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے محکمہ خوراک میں سیاسی بنیادوں پر تبدیلیوں کا اعتراف کرلیا ہے۔

دی نیوز کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصارعباسی نے اپنی رپورٹ انکشاف کیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے اعتراف کیا کہ انہوں نے سیاسی ترجیحات پر محکمہ خوراک میں تبادلے کیے، تبادلوں اور تعیناتیوں کیلئے سیاسی شخصیات نے ان سے رابطے کیے، کچھ سیاسی تقرریوں کی گنجائش بھی نکالی گئی اور فیصلوں سے قبل اسپیشل برانچ سے بھی رائے لی گئی۔

یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بزدار حکومت نے اپریل سے نومبر 2019 تک محکمہ خوراک میں 4 سیکرٹریوں کے تبادلے کیے۔

ایف آئی اے رپورٹ کے مطابق چاروں سیکرٹریوں کی تعیناتیوں کیلئے سمریاں تیار کی گئیں نہ تبدیلی کی وجوہات بتائی گئیں، نسیم صادق کو چھوڑ کر ان سیکرٹریوں نے محکمے میں ڈسٹرکٹ فوڈ کنڑولرز اور ڈپٹی ڈائریکٹرز کے بڑے پیمانے پر تقرریاں اور تبادلے کیے۔

رپورٹ کے مطابق سیکرٹری ظفر نصر اللہ نے تبادلوں کی انتظامی وجوہات بھی بتائیں تاہم ساتھ یہ بھی اعتراف کیا کہ تعیناتی کیلئے سمریاں وزیراعلیٰ دفتر کے زبانی احکامات پر تیار کی گئیں۔

رپورٹ میں وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے کہا گیا ہے کہ نئی حکومت آئی تو تبادلوں اور تعیناتیوں کے حوالے سے انتطامیہ پر شدید دباؤ تھا جس پر قابو پانے کیلئے وزیراعلیٰ کے دفتر کو مداخلت کرنا پڑی اور یہ حکم جاری کیا گیا کہ تمام تبادلے اور تعیناتیاں وزیراعلیٰ دفتر کی منظوری سے ہوں گی۔

خیال رہے کہ چند روز قبل یہ خبریں بھی سامنے آئی تھیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو چینی کی برآمد پر سبسڈی دینے کی اتنی جلدی تھی کہ انہوں نے کابینہ سے منظوری بعد میں لی سبسڈی پہلے دے دی، وزراء کو تجویز بھی پڑھنے نہیں دی گئی اور بعد میں براہِ راست پرانی تاریخوں میں قانونی ضابطوں کی منظوری دے دی گئی۔

چینی کی برآمد پر 3 ارب روپے کی سبسڈی دینے میں جلد بازی کی گئی۔ کابینہ کی جانب سے سبسڈی کی منظوری دیے جانے کے تین دن بعد وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدارنے یکم جنوری 2019ء کو پرانی تاریخوں میں ’’کابینہ کے جائزے کیلئے ایک کیس‘‘ کی منظوری دی۔

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں آٹا اور چینی بحران کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد وزیراعظم نے ایکشن لیتے ہوئے جہانگیر ترین سے زراعت کے شعبے میں بہتری کا عہدہ واپس لے لیا تھا جب کہ خسرو بختیار کی اور حماد اظہر کی وزارتیں تبدیل اور رزاق داؤد سے 2 عہدے لے لیے تھے۔

وفاقی وزیر حماد اظہر کو وزارت صنعت کا قلمدان دیا گیا تھا جب کہ وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور سینیٹر اعظم سواتی کو نارکوٹکس کنٹرول کا قلمدان دیا گیا تھا۔

اعظم سواتی کو انسداد منشیات کا قلمدان دینے کے لیے شہریار آفریدی سے نارکوٹکس کنٹرول کا اضافی قلمدان واپس لے لیا گیا تھا تاہم انہیں دوبارہ نارکوٹکس کا اضافی چارج واپس دے دیا گیا۔

تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں چینی بحران کاسب سے زیادہ فائدہ حکمران جماعت کے اہم رہنما جہانگیر ترین نے اٹھایا، دوسرے نمبر پر وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی اور تیسرے نمبر پر حکمران اتحاد میں شامل مونس الٰہی کی کمپنیوں نے فائدہ اٹھایا۔

تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی آٹا بحران کی اہم وجہ رہی۔

رپورٹ کے بعد وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ 25 اپریل کو فرانزک رپورٹ ملنے کے بعد ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کریں گے۔

مزید خبریں :