خبروں کا مسافر

انصار نقوی/فائل فوٹو

میں ان دنوں حیدرآباد میں  خبر کی تلاش میں تھا۔

ایم کیو ایم کی تقسیم، دھڑے بازی، الطاف حسین کے “جانثاروں “اور “ باغیوں” کے درمیان مسلح جھڑپیں، لڑکوں کا اچانک غائب ہو جانا، پھر مردہ پایا جانا اور دہشت کا ماحول۔۔۔

گتھی سلجھ نہیں رہی تھی۔۔۔کہانی کے ادھورے زاویے۔۔۔

میں ان دنوں دی نیوز کے ساتھ منسلک تھا۔ تھک ہار کر دفتر پہنچا۔ گول بلڈنگ کی بل کھاتی ہوئی سیڑھیاں، ایک چھوٹا سا دفتر۔ کرسی پر قدرے لمبے قد اور میراتھن دوڑنے والے ایتھلیٹ جیسی جسامت، بار بار بالوں کو ہاتھ سے سنوارنا اور ہر کچھ لمحات کے بعد چہرے پر ایک مسکراہٹ۔۔۔

یہ تھے دی نیوز کے حیدرآباد میں رپورٹر انصار نقوی۔۔۔

انصار خود پکا قلعہ کے گرد و نواح کے رہائشی تھے۔ پکا قلعہ ان دنوں ایم کیو ایم کی سیاست کا پکا گڑھ تھا۔

جن کرداروں کی تلاش میں تھا، انصار انہی میں پلے بڑھے تھے۔ بالکل ویسے ہی جیسے میں کراچی کی گلیوں میں کرکٹ کھیلنے کے دنوں میں ایم کیو ایم کے لڑکوں سے واقف تھا جو بعد میں بڑے بڑے کرداروں میں تبدیل ہوگئے تھے۔

اس ملاقات کے بعد میری جیسے انصار سے دوستی ہو گئی۔ وہ جب بھی کراچی آتے، میرا اے ایف پی کا دفتر ان کا ٹھکانا بنتا اور میں جب بھی حیدرآباد جاتا، ان کے گول بلڈنگ کے دفتر ہی میں میرا صحافتی بسیرا ہوتا۔

انصار نے مختصراً حیدرآباد کے مقامی اخبارات میں کام کیا تھا لیکن میرا اور انصار کے باقاعدہ صحافتی سفر کا آغاز دی نیوز سے ہوا تھا۔ پورا ایک نوجوانوں کا صحافتی قافلہ تھا۔

نوے کی دہائی میں ایک بڑا ٹنڈو بہاول سانحہ رونما ہوا تھا۔ حیدرآباد کے  مضافاتی علاقے میں فوج کے کچھ افسران کے ہاتھوں دیہاتیوں کا قتل۔ الزام کہ دیہاتی دہشت گرد مقابلے میں مارے گئے۔ مگر انصار اور کچھ صحافیوں نے اس واقعہ کی تحقیقات کو یکسر بدلوا دیا۔

دیہاتی معصوم تھے اور لینڈ مافیا سرگرم تھی۔

اس واقعہ کے کچھ برس بعد جب دو بہنوں نے انصاف کیلیے ، حیدرآباد پریس کلب کے باہر خود سازی کی کوشش کی تو میں بھی موجود تھا۔ مائی جندو جس کے دو بیٹے مارے گئے تھے، سراپا احتجاج تھی۔

انصار نے تسلسل کے ساتھ خبریں لکھیں اور بلآخر برسوں بعد واقعہ میں ملوث فوجی افسران کو سزا ملی اور غریب دیہاتیوں کو انصاف۔

انصار کا صحافت کے ساتھ لگاؤ بے انتہا۔

1998 کی بات ہے جب بلوچستان سے پی آئی اے کا فوکر طیارہ ہائی جیک ہوا۔

میں دوسرے صحافیوں کے ساتھ کراچی ائیرپورٹ پر موجود تھا۔ پتا چلا کہ ہائی جیکرز جہاز کو حیدرآباد لے جا رہے ہیں۔

فوراً فون انصار کو ملایا جس پر اس نے گاڑی کا رخ حیدرآباد کی طرف موڑ لیا۔ ائیرپورٹ پر کمانڈو ایکشن میں تمام مسافر رہا ہوگئے اور یہ ڈراپ سین اس  کی آنکھوں کے سامنے ہوا۔ جب کوریج مکمل ہوئی تو پتا چلا کہ کچھ گھنٹے قبل اس نے اپنے بچے کو دفنایا ہے۔

انصار ایک پکا صحافی تھا۔ ہر وقت خبروں میں رہنے والا صحافی اور چن چن کر خبریں نکالنے والارپورٹر۔

سیلاب ہو یا ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن، ایم کیو ایم کی ہڑتالیں ہوں یا سندھی قوم پرستوں کی تحریک، کوریج کے لیے انصار ہمیشہ صف اوّل میں رہتا۔

گول بلڈنگ کے اس چھوٹے سے دفتر میں کئی شاگردوں کی بھی تربیت کی۔ جس میں لال ملھی جواب تحریک انصاف کے رہنما ہیں، انور کمال اور عامر مرتضی وغیرہ۔۔۔

انصار پھر جیو نیوز کا حصہ بننے کے لیے حیدرآباد کو خیرآباد کہہ کر کراچی آگئے۔

رپورٹر سے نیوز روم کا نیا صحافتی جنم۔ نیا صحافتی روپ اور ایک نیا صحافتی کردار۔

بریکنگ نیوز، ٹکرز، فوٹیج۔۔ رپورٹرز کی خبروں کی یلغار کو سنبھالنا، وقت کے ساتھ دوڑ انصار نے نہ صرف نبھائی بلکہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ دن رات محنت۔۔ ترقی در ترقی۔

ان دنوں سینئرز ناصر بیگ چغتائی، زاہد حسین، مجدد شیخ، امجد بشیر اور دی نیوز کے پرانے ساتھی اور جیو کے سربراہ اظہر عباس کی ذاتی اور صحافتی قربت حاصل رہی۔

نوجوانوں کے لیے “انصار بھائی” اور پرانے ساتھیوں کے لیے انصار۔۔۔ وہی دھیمہ لہجہ، وہی خود اعتمادی، وہی بالوں پر ہاتھ پھیر کر مانگ سنوارنا۔ لیکن عمر کے ساتھ ہماری طرح نظروں کے چشمے نے چہرے پر مستقل ٹھکانہ بنا لیا تھا۔

انصار کافی ڈسپلن والے شخص تھے۔

جب میں جیو انگلش کو ہیڈ کر رہا تھا تو میرا اکثر و بیشتر جیو نیوز روم میں انصار سے رابطہ رہتا۔

آخری چند برس 24 نیوز میں گزارے۔ کبھی کبھار فون پر بات چیت ہو جاتی۔

کچھ ماہ قبل جب لاہور جانا ہوا تو کیفے میں ملاقات ہوئی۔

حیدرآباد کے بن کباب، موٹرسائیکل پر خبروں کی تلاش، کراچی میں برنس روڈ کی نہاری اور بہت سے قصے کہانیاں ہوتے رہے ۔

اپنے ڈاکٹر بیٹے شیری، بیٹی جو والد کی طرح صحافی بننا چاہتی ہے، کا فخر سے ذکر کیا۔

میری بچوں سے ملاقات تو کبھی نہیں ہوئی لیکن ان کی حیدرآباد کی رہاش گاہ پر رعنا بھابھی کے ہاتھوں کی بنی ہوئی بریانی اب بھی یاد ہے۔۔۔ انصار اپنی اہلیہ کا بڑے فخر سے ذکر کرتے تھے۔ انگریزی میں ڈگری حاصل کی ہوئی ہے۔ میں ان دنوں مذاق میں کہتا تھا انصار چلو انگریزی کی خبروں میں غلطیاں کم ہوں گی۔

ہم دونوں کا صحافتی سفر جونیئر رپورٹر سے شروع ہوا تھا ۔ اپنے اپنے تئیں ترقی کی اور عزت کمائی۔

انصار مجھے ہمیشہ خبروں کا مسافر لگتا تھا۔ خبروں کے ساتھ رہنے والا اور خبروں کے ساتھ جینے والا صحافی۔۔۔

انصار جو دنیا کی بڑی خبر کے ساتھ مسافر کی طرح ہمیشہ، ہمیشہ کے لیے رخصت ہوا۔

خبروں کا مسافر۔ خبر کیساتھ سفر آخر

اویس توحید ملک کے معروف صحافی/لکھاری ہیں۔  وہ  @OwaisTohid  پر ٹوئٹ کرتے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔