دنیا
Time 05 جون ، 2020

مظاہرین کو کچلنے کیلئے فوج کی تعیناتی پر موجودہ و سابق آرمی جنرلز کی ٹرمپ پر شدید تنقید

سیاہ فام شہری کی امریکی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو موجودہ سابق امریکی چیف سمیت دیگر حکام کی جانب سے بھی شدید تنقید کا سامنا ہے۔

غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق امریکا کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملے نے صدر ٹرمپ پرتنقید کرتے ہوئے فوج کو حکم دیاتھا کہ وہ آئین کی پاسداری کرے۔

جنرل مارک ملے نےمظاہرین کےحق اجتماع کوتسلیم کرتے ہوئے فوج کے نام کھلے خط میں کہا تھا کہ فوج شہریوں کےحق آزادی کا تحفظ کرے گی۔

جنرل جان ایلن اور سابق وزیر دفاع جیمز میٹس نے بھی فوج طلب کرنے پر ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کی تھی۔

جنرل میٹس نے کہا تھاکہ ٹرمپ پہلے صدر ہیں جو ملک کوتقسیم کرنے پر تلے ہوئے ہیں جب کہ جنرل ایلن نے ٹرمپ کے دور صدارت کو امریکا میں جمہوریت کے خاتمے کا نکتہ آغاز قرار دیا۔

جنرل ایلن نے صدر ٹرمپ کے گرجا گھر جا کر بائبل کو تھامنے پربھی تنقید کی تھی اور سابق فور اسٹار جنرل نے فلائیڈ کےقتل پر ٹرمپ کے ردعمل کوشرمناک قرار دیا تھا۔

امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے بھی فوج تعیناتی کے معاملے پر صدر ٹرمپ کے بیان سے دوری اختیار کر لی تھی جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دست راست سینیٹر لنزے گراہم نےبھی تسلیم کیا ہےکہ وہ اب یہ نہیں کہہ سکتےکہ صدرٹرمپ پرکوئی الزام عائدہی نہیں کیا جا سکتا۔

ری پبلکن سینیٹر لیزا مرکووسکی نے جیمز میٹس کے بیان کو وقت کی ضرورت قرار دیا اور کہا کہ صدرٹرمپ کے ساتھ کھڑے ہونا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

سیاہ فام شہری جارج فلائیڈکی ہلاکت کے بعد امریکا میں شدید مظاہروں میں اب تک 10 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔

صدرٹرمپ نے مظاہرین کو کچلنے کے لیے 200 فوجیوں کو واشنگٹن طلب کیا تھا لیکن جنرل مارک ملے اور سابق جنرلز کے بیانات کے بعد فوج کو واپس شمالی کیرولائنا بھیج دیا گیا۔

خیال رہے کہ امریکی ریاست منی سوٹا کے شہر مینی پولِس میں 25 مئی 2020 کو سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں 45 سالہ سیاہ فام شہری جارج فلوئیڈ ہلاک ہوگیا تھا جس کے بعد سے امریکا کی مختلف ریاستوں میں ہنگامے اور فسادات جاری ہیں۔

مزید خبریں :