کورونا وائرس: کیا ہمارے اسپتال اس وبا سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟

پاکستان میں اب تک کورونا سے 1040ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملہ گھروں میں قرنطینہ ہو چکے ہیں جبکہ 200کے قریب فرنٹ لائن ورکرز مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔

تحریر و ترتیب: واصف ناگی

جنگ رپورٹنگ ٹیم: محمد صابر اعوان(لاہور)،  بابر علی اعوان (کراچی)، عامر ملک (لاہور)، نسیم حمید یوسفزئی (کوئٹہ)، جاوید علی (پشاور)، شاہینہ مقبول (اسلام آباد)

معاونت: وردہ طارق

چین کے صوبے ووہان سے نومبر میں کورونا وائرس کا آغاز ہوا اس وقت تک کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ وائرس اتنی خوفناک صورت اختیار کرے گا۔ پوری دنیا میں کورونا سے شرح اموات میں پچھلے چند ماہ میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے پاکستان میں گزشتہ چند دنوں سے کورونا کے مریضوں میں بڑی تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔

کورونا سے جہاں پر عام شہری تو متاثر ہو ہی رہے ہیں وہاں پر سب سے زیادہ متاثر طبی عملہ ہو رہا ہے اس میں ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل سٹاف اور نرسیں شامل ہیں ۔پاکستان میں اب تک کورونا سے 1040ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملہ گھروں میں قرنطینہ ہو چکے ہیں جبکہ 200کے قریب فرنٹ لائن ورکرز مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔

اس وقت پروفیسر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر تک کورونا کا شکار ہو چکے ہیں صوبہ سندھ میں کورونا وائرس سے متاثر اور ہلاک ہونے والے ڈاکٹرز کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ صوبہ سندھ میں اس وائرس سےمتاثر ہونے والے طبی عملے کی تعداد 540سے زائد ہے۔ ان میں 412ڈاکٹرز اور 45نرسیں شامل ہیں جبکہ اب تک آٹھ ڈاکٹر ز زندگی کی بازی ہار چکے ہیں اور اب بھی چار افراد وینٹی لیٹرز پر ہیں ۔

خیبر پختونخواہ میں 250ڈاکٹرز اور 98نرسوں سمیت 553ہیلتھ کیئر ورکرز اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔ دس اسپتالوں میں داخل ہیں جبکہ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے ایک ڈاکٹر احمد زیب کے مطاق صوبے میں 326ڈاکٹرز اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں جن میں 100خواتین ڈاکٹرز شامل ہیں ان میں صرف 80ڈاکٹرز تو گائنی وارڈز میں کام کر رہی تھیں ۔

صوبہ پنجاب میں باقی صوبوں کے مقابلے میں حالات بہتر ہیں یہاں پر 108ڈاکٹروں اور 108نرسوں سمیت 341طبی عملہ کے لوگ متاثر ہوئے117مختلف اسپتالوں میں قرنطینہ میں ہیں اور سب کی حالت خطرے سے باہر ہے البتہ سات ڈاکٹرز اور دو نرسیں جان کی بازی ہار چکے ہیں سروسز اسپتال کا کورونا وارڈ اس وقت لاہور کے تمام اسپتالوں سے زیادہ اچھا اور بہترین سہولیات کے کام کر رہا ہے سم اور سروسز اسپتال کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمود ایاز بذات خود صبح و شام اسپتال کا دورہ کرتے ہیں ان کے ایم ایس ڈاکٹر افتخار احمد بھی اس سلسلے میں خصوصی اقدامات کر رہے ہیں ۔عید کے روز بھی پروفیسر ڈاکٹر محمود ایاز اسپتال میں موجود رہے جو کہ باقی ڈاکٹروں کے لئے باعث تقلید ہے ۔

صوبہ بلوچستان میں 175ڈاکٹروں سمیت طبی عملے کے 237افراد متاثر ہوئے ہیں۔وفاقی دارالحکومت میں 85ڈاکٹروں اور 47نرسوں سمیت طبی عملے کے 187افراد اس وائرس سے متاثر ہوئے اور ایک ڈاکٹر کی موت واقع ہوئی ہے۔

گلگت بلتستان میں کووڈ 19فروری کو سامنے آیا جب ایران سے تفتان کے راستے کئی افراد کراچی پہنچے تھے اور مارچ تک یہ وائرس ملک کے کئی علاقوں میں پھیل چکا تھا اس وائرس سے پہلی ہلاکت گلگت بلتستان میں ایک ڈاکٹر کی ہوئی تھی ۔ڈاکٹر اسامہ ریاض میں وائرس آیا تھا ان کی عمر صرف 26برس تھی ۔اب تک گلگت بلتستان میں 8ڈاکٹرز تین نرسوں سمیت 44افراد متاثر ہو چکے ہیں اور 20اسپتال کے آئسولیشن وارڈ میں ہیں آزاد کشمیر میں کورونا سے ہلاک ہونے والے طبی عملے کی تعداد کم رہی۔

اس وقت پاکستان میں کورونا میں ایک لاکھ افراد متاثر ہو چکے ہیں ۔اور سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور آنے والے چند دنوں میں پاکستان میں کورونا کے مریضوں کی تعداد کئی لاکھ تک پہنچ جائے گی۔

اس وقت سرکاری اور نجی دونوں اسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کا علاج ہو رہا ہے۔نجی اسپتالوں کے بارے میں عوام کو کچھ شکایات ہے اس حوالے سے ہم نے پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر شعیب خان سے کچھ بات چیت کی۔انہوں نے اس پر بتایا کہ پرائیویٹ اسپتالوں کی فیسوں اور چارجز کوہم بڑی سختی کے ساتھ مانیٹر کر رہے ہیں۔

اگر کسی اسپتال نے کورونا سے قبل والے ریٹ سے زیادہ چارج کیا تو اس کا اسپتال سیل کر دیا جائے گا۔ہم نے تمام نجی اسپتالوں کو کہہ دیا ہے کہ وہ کرونا سے قبل والا ریٹ ہی چارج کریں گے۔ عوام کو اس حوالے سے کھلی دعوت ہے اگر انہیں کسی نجی اسپتال کے بارے میں شکایت ہو تو ہم سے فوری رابطہ کریں۔

پاکستان میں کورونا پھیلانے کی سب سے بڑی وجہ لوگوں کا غیر سنجیدہ رویہ رہا ہے۔ جنوری سے لیکر اپریل تک لوگوں نے کوئی محتاط رویہ اختیار نہیں کیا اور ہر شخص دوسرے کو کہتا رہا کہ کوئی کورونا نہیں ۔حالانکہ کورونا وائرس اپنے پنجے گاڑھ رہا تھا اس وقت پورے ملک میں کورونا کے لاکھوں مریض ہیں ۔صرف اسلام آباد میں چار ہزار مریض کورونا کے ہیں اور 40کے قریب ہلاکتیں ہوئی ہیں ۔

پاکستان میں آئندہ چند روز کورونا کے حوالےسے بڑے خطرناک ہیں اور مریضوں کی تعداد لاکھوں میں جاسکتی ہے خصوصاً جولائی کا مہینہ بڑا ہی خطرناک اور ہولناک ہے اگر عوام نے احتیاط نہ کی تو ہزاروں افراد موت کے منہ میں جاسکتے ہیں۔

پنجاب:

پنجاب کی وزیر صحت پروفیسر ڈاکٹر یاسمین راشد نے صوبے میں کورونا مریضوں کے لئے بہتر سہولیات اور ان کے علاج کو اچھے انداز میں کرنے کے حوالےسے خصوصی بات چیت میں بتایا کہ صوبے میںٹیسٹنگ کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے آٹھ نئی لیبارٹریاں قائم کر دی گئی ہیں اور انہوں نے کام شروع کر دیا ہے اور ہم سات ہزار روزانہ ٹیسٹ کر رہے ہیں لاہور کے مختلف اسپتالوں میں بستروں کی تعداد میں بہت اضافہ کر دیا ہے تقریباً دوہزار کے قریب بیڈز کا اضافہ کیا ہے جو صرف کورونا کے مریضوں کےلئے ہیں۔اگر عوام نے ایس او پیز پر عملدرآمد نہ کیا تو حکومت سخت اقدامات کرےگی۔

یاسمین راشد/فائل فوٹو

پروفیسر ڈاکٹر یاسمین راشد نے مزید کہا کہ اس وقت جو بھی علاج اور تشخیص کے حوالےسے نئی چیزیں سامنے آ رہی ہیں ہم ان پر عمل کر رہے ہیں علاج کے حوالے سے جو بھی نئی ریسرچ سامنے آ رہی ہے اس کو اپنا رہے ہیں تاکہ مریضوں کو فائدہ پہنچ سکے اور ٹرائل کر رہے ہیں ۔

مریضوں کی ایک بڑی تعداد کو سرکاری اسپتالوں سے علاج و معالجے کی سہولت مل رہی ہے ہم نئی ادویات پر ٹرائل کر رہے ہیں جس کے اچھے نتائج آ رہے ہیں۔

ابھی تک صورتحال قابو میں ہے اور چالیس فیصد سے زائد بستروں کی گنجائش موجود ہے ابھی ہمارے اسپتال 40فیصد خالی ہیں۔ پنجاب میں کورونا کے فوکل پرسن اور میو اسپتال کے چیف ایگزیکٹو پروفیسر اسد اسلم خاں نے بتایا کہ اس وقت پنجاب میں کورونا کے عام مریضوں کےلئے پچاس فیصد اور آئی سی یو میں 30فیصد بیڈز خالی ہیں ۔لاہور میں 200وینٹی لیٹرز اور پورے پنجاب میں 300وینٹی لیٹرز موجود ہیں ۔دوہزار بیڈز سرکاری اسپتالوں میں اور 500بیڈز نجی اسپتالوں میں موجود ہیں اور پورے پنجاب میں چاربیڈز موجود ہیں یہ کورونا کے عام مریضوں کے لئے ہیں تین سو بیڈز لاہور میں سیریس مریضوں کے لئے ہیں اور پورے پنجاب میں 400بستر پیچیدہ مریضوں کے لئے موجود ہیں یہ آئی سی یو بیڈز ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ ہمارے پاس وینٹی لیٹر کی تعدد کافی ہے مگر ان کو استعمال کرنے والے ماہرین کی صوبہ بھر میں شدید قلت ہے ، صدر پی ایم اے پروفیسر ڈاکٹر اشرف نظامی

پروفیسر اسد اسلم خاں نے بتایا پنجاب میں مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے لوگ پانچ/چھ روز گھروں میں رہ کر وقت ضائع کر دیتے ہیں اگر کسی کو بخار ہو تو اسپتال میں رابطہ کریں۔پنجاب میں کوویڈ19کورونا کورونا وائرس کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے صوبہ بھر میں محکمہ اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر کے 46محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کے 142 ،فیلڈ اسپتال 8،جبکہ 53 نجی اسپتال خدمات انجام دے رہے ہیں جن کی مجموعی تعداد 249بنتی ہے جن میں مجموعی بیڈز کی تعداد 42ہزار 983ہے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کے اسپتالوں میں بیڈز کی تعداد 14ہزار 82ہے جبکہ ان اسپتالوں میں مجموعی طور پر 1296وینٹی لیٹرز موجود ہیں جن میں سے 568وینٹی لیٹر صرف کورونا کےمریضوں کے لئے مختص ہیں جبکہ صوبے میں کورونا کے باعث قائم کئے جانے والے 8فیلڈ ہستپالوں میں بیڈز کی تعداد1888ہے جو صوبے کےمختلف اضلاع میں قائم ہیں۔ 

حکومت نےپنجاب میں 53نجی اسپتالوں کو بھی اس حوالے سے الرٹ کر رکھا ہے جہاں کورونا کے مریضوں کا علاج معالجہ کیا جا رہا ہے۔

محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ سنٹر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت صوبہ بھر کے تمام بڑے اسپتالوں میں ایک کمرے پر مشتمل آئسولیشن کی کل تعداد 588ہے جن میں سے 370کمروں میں مریض زیرعلاج ہیں جبکہ 218کمرے اس وقت بھی خالی پڑے ہیں۔ 

آئسولیشن وارڈ میں بیڈز کی مجموکی تعداد7ہزار 544ہے جن میں سے1405بیڈز پر مریض زیر علاج ہیں جبکہ 6139بیڈز خالی ہیں ۔ اس طرح انتہائی نگہداشت کی وارڈ میں مجموعی بیڈز کی تعداد 944ہے جن میں سے 381بیڈز پر مریض موجود ہیں جبکہ 537بیڈز خالی ہیں۔ 

اس طرح تمام اسپتالوں میں کورونا کے لئے مختص وینٹی لیٹر 568ہیں جن میں سے116پر مریض زیر علاج اور 452خالی ہیں تاہم محکمہ صحت کے مطابق ضرورت پڑنے پر اسپتالوں میں موجود دیگر وینٹی لیٹرز کو بھی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں حکومت نے صوبے8فیلڈ اسپتال بھی قائم کئے ہیں جن میں بیڈز کی مجموعی تعداد1888 ہے۔

 محکمہ صحت کے ذرائع کے مطابق فیلڈ اسپتالوں کا بینادی مقصد کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال میں حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے ان کورونا مریضوں کو آئسولیشن کی سہولت فراہم کرنا ہے جن کی حالت خطرے سے باہر ہو یا پھر بیر ون ملک سے سفر کرکے آنے والے مسافروں کو ان اسپتالوں میں 14 روز تک کورنٹائن کرنا ہوتا ہے سب سے بڑا فیلڈ اسپتال لاہور ایکسپو سنٹر جوہرٹائون میں قائم کیا گیا ہے جہاں ایک ہزار بستروں کی گنجائش ہے جبکہ محکمہ صحت کے ذرائع کے مطابق اس وقت اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر کے ٹیچنگ اسپتالوں میں 370مریض سنگل کمرہ آئیسو لیشن میں 1405ائیسولیشن وارڈزمیں 381مریض انتہائی نگہداشت کی وارڈ میں جبکہ 116مریض تشویشناک حالت میں وینٹی لیٹرز پر موجود ہیں

 365مریض پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کے اسپتالوں میں جبکہ 215مریض فیلڈ اسپتالوں میں زیر علاج ہیں جن کی مجموعی تعداد 3275بنتی ہے اس طرح حکومت پنجاب کی جانب سے ہوم آئیسولیشن کی اجازت ملنے کے بعد صوبہ بھر میں تقریبا 22ہزار 302مریض جن کی حالت تسلی بخش تھی کو گھروں پر الگ کمرے میں آئسولیٹ کر دیا گیا ہے ۔

محکمہ صحت کے مطابق صوبہ بھر میں کورونا وائرس سے متاثرہ جو مریض اسپتالو ں میں زیرعلاج ہیں یا جس شرح سے مریض آ رہے ہیں، اس کے مقابلے میں ہمارے اسپتالوں کی بیڈز اور دیگر سہولیات کئی گنا زیادہ ہیں۔ جس کا اندازہ اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے ۔ 

 لاہور سمیت صوبہ بھر میں اب تک کورونا وائرس سے 607افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اورہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہو رہا ہے

وینٹی لیٹر کی تعداد بھی ملک بھر میں پنجاب کے پاس سب سے زیادہ ہے جبکہ محکمہ صحت کے مطابق حکومت صورتحال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں اور اس حوالے سے محکمہ صحت کے دونوں ڈیپارٹمنٹ ہر روز میٹنگ کرکے صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں اور دن بدن بدلتی صورتحال کے ساتھ نئی پالیسیوں سے اسپتالوں کی انتظامیہ کو آگاہ کرتے ہیں جب کہ لاہور کے اسپتالوں میں مناسب سہولیات نہ ملنے کا شکوہ بھی مریضوں اور انکے لواحقین اور ڈاکٹروں اوران کی تنظیموں کی جانب سے سامنے آچکا ہے ڈاکٹر محکمہ اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر ڈیپاٹمنٹ میں بھوک ہڑتال سمیت متعدد بار احتجاج کر چکے ہیں جبکہ متعدد بار ایکسپو سنٹر لاہور اور میو اسپتال میں مریض اور انکے لواحقین احتجاج کر چکے۔مریضوں کی شکایت ہے کہ انہیں اسپتالوں میں سہولیات نہیں دی جا رہیں علاج معالجے کے لئے وہ درربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔

اسپتالوں میں جو کورونا کائونٹر بنائے گئے ہیں ان پر بھی کوئی شنوائی نہیں ہوتی اور اکثر اسپتالوں کا عملہ انہیں دوسرے اسپتال جانے کا کہہ کر ٹال دیتا ہے ۔ مریضوں کی شکایت ہے کہ ایکسپو سنٹر میں انہیں کوئی سہولت میسر نہیں ڈاکٹر دیکھنے نہیں آتے اور نہ ہی شوگر سمیت دیگر مریضوں کی پہلے سے جاری ادویات رکھنے کےلئے کوئی جگہ نہیں اسی لئے زیادہ تر مریض حکومت کی جانب سے ہوم آئیسولیشن کی اجازت ملنے کے بعد سے کوشش کر رہے ہیں کہ گھروں پر ہی آئسولیٹ ہو جائیں۔

اس حوالے سے جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے میو اسپتال میں زیر علاج کوروناکے ایک مریض کے بھائی محمد شفیق نے بتایا کہ ہم مغل پورہ کے رہنے والے ہیں ہمیں 5روز تک یہ ہی معلوم نہیں ہو رہا تھاکہ ہمارا مریض کہاں رکھا گیا ہے کس حال میں ہے۔ انتظامیہ کا رویہ انتہائی نامناسب ہے۔ مریض کے لئے نہ گھر سےکھانا لانے دیا جاتاہے اور نہ کپڑے وغیرہ، جبکہ سمن آبادکےرہائشی ایک اور مریض کے والد اعظم فاروق نے کہا کہ میرے بیٹے نے بتایا کہ انہیں اسپتال کی جانب سے کوئی دوائی نہیں دی جا رہی ہمیں ایک وارڈ کے اندر بند کیا ہوا ہے اسپتال کی جانب سے فراہم کیا جانے والا کھانا بھی معیاری نہیں ہوتا۔لاہور جنرل اسپتال میں والٹن کے رہائشی زیر علاج کورونا کے ایک مریض کے بھائی سلطان احمد نے بتایا کہ اسپتال کے عملے کا رویہ مریضوں کے ساتھ انتہائی نامناسب ہے۔ 10روز سے ہمارا مریض زیر علاج ہے مگر ہمیں اس کا کوئی حال احوال نہیں دیا جاتا اور نہ ہی مریض کے لئے گھر سےکھانا لانے دیا جاتاہے صرف روزانہ ایک گولی دے کر مریضوں کو وارڈ کے اندر رکھا گیا ہے۔ تاہم حکومت نے مریضوں کی جانب سے احتجاج کے بعد صورتحال کو کنٹرول کیا ہے اور معاملا ت کو بہتر کیا گیا ہے ۔

یاد رہے کہ لاہور سمیت صوبہ بھر میں اب تک کورونا وائرس سے 607افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اورہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ محکمہ پرائمری اینڈ سینکنڈری ہیلتھ کیئر نے عید قبل شہر مین سمارٹ سیمپلنگ کی جس کی رپورٹ وزیر اعلی کو پیش کی جس میں لاہور شہر میں بڑھتے ہوئے کیسز پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور خدشہ ظاہر کیا گیا کہ لاہور میں 6لاکھ 70ہزار سے زائد مریض ہوسکتے ہیں ۔ 

علاوہ ازیں صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے اس حوالے سے جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب کورونا وائرس آیا تو ہم نے اپنے تمام وسائل اسپتالوں کی صورتحال وینٹی لیٹرز کی پوزیشن ایچ یو ڈی اور آئی سی یو میں بیڈز اور دیگر سہولیات کا جائزہ لیا اور اس میں صوبے کی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے اضافی کیا ریکارڈ مدت نو دن میں ایکسپو سنٹر فیلڈ اسپتال قائم کرنے سمیت صوبہ بھر میں فیلڈ اسپتالوں کا جال بچھا دیا اور آج الحمداللہ ہم وسائل میں کسی سے کم نہیں بلکہ تمام صوبوں سے ہمارے پا س وسائل زیادہ ہیں۔

 لاہو ر کے انچارج کورونا وائرس اور میو اسپتال لاہور کے سی ای او پروفیسر اسد اسلم خان نے بتایا کہ ہمارےپاس میو اسپتال میں ڈھائی ہزار بیڈ ہیں کورونا مریضوں کےلئے 450بیڈز مختص ہیں اور221مریضوں اس وقت زیر علاج ہیں جبکہ ایکسپو سنٹر ،میو اسپتال اور پی کے ایل آئی سے ابتک 750مریضوں کو ہوم آئیسولیشن کر دیا گیا ہے ۔ ہمارے پاس مریضوں کی تعداد سے بیڈز اور وینٹی لیٹرز کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے ہم ہرقسم کی صورتحال کا مقابلہ کرنے لئے تیار ہیں ۔انہوں نے ہائی پروفائل مریضوں کے لئے الگ سے وارڈز یا کمرے بنانے کے حوالے سے کہا کہ ایسی کوئی تجویز نہیں ہے۔ کورونا کے تمام مریضوں کے لئے ایک جیسا ہی پروٹوکول ہے اور کورونا ایکسپرٹ ایڈوائزری گروپ کی جانب سے تیار کردہ ایس او پیز و گائیڈ لائن پر عمل ہو رہا ہے۔ جن مریضوںمیں کوروناکے ساتھ ساتھ دیگر امراض ہوں ان کے متعلقہ شعبوں کے ڈاکٹرز کو کال کی جاتی ہے جبکہ تمام اسپتالوں کی نیفرولوجی وارڈ میں کورونا کا کوئی مریض زیر علاج نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ لاہور میں میو، پی کے ایل آئی، جناح، جنرل اور دیگر اسپتالوں میں جو مریض وینٹی لیٹر پرہے ان میں سے بعض مریضوں کو ٹیوب ڈالنے کی ضرورت پیش نہیں آتی جبکہ بعض مریضوں کو وینٹی لیٹر ٹیوب ڈالنی پڑتی ہے مگر اس کا فیصلہ متعلقہ کنسلٹنٹ کرتاہے۔ اس وقت مختلف اسپتالوں میں 17سے زائد مریضوں کو ٹیوب ڈال کر وینٹ پر رکھا گیا ہے۔ 

نجی اسپتالوں نے کورونا کے علاج کے حوالے سے عوام کودونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے بعض بڑے نجی اسپتال کمرے کے کرائے سمیت ٹیسٹوں ادویات اور وینٹی لیٹرسمیت ڈاکٹرز کے معائنہ اور نرسنگ کیئر کی مد میں روزانہ کے چارجز 25ہزار تا ایک لاکھ روپے تک وصول کر رہے ہیں

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) سنٹرل کے صدر پروفیسر ڈاکٹر اشرف نظامی نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی روک تھام اور پروفیشنلز کو اس سے بچانے کے لئے حکومتی اقدامات ناکافی ہیں اس میں شک نہیں کہ ہمارے پاس وینٹی لیٹر کی تعدد کافی ہے مگر ان کو استعمال کرنے والے ماہرین کی صوبہ بھر میں شدید قلت ہے حکومت نے بغیر سوچے سمجھے لاک ڈائون کوختم کر دیا حالانکہ ہم نے اس حوالے سے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر لاک ڈائون موجودہ حالات میں کھولا گیا تو کیسز میں اضافہ ہو گا اور اموات بڑھیں گی مگر حکومت نے ہماری تجاویز پر کوئی توجہ نہیں دی اور آج کیسز بڑھ رہے ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکس ہائی رسک پر ہیں انہیں جو پی پی ای کٹس فراہم کی گئی ہیں وہ یا تو غیر معیاری یا پھر ہمارے لوگوں کو اس کے استعمال کا نہ طریقہ آتا ہےنہ اسے تلف کرنا آتا ہے۔ اسی وجہ سے ہیلتھ پروفیشلز میں کسیز بڑھ رہے ہیں۔ اس پر حکومت کو غور کرنا چاہئے۔ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پنجاب کےجنرل سیکرٹری ڈاکٹر قاسم اعوان نے کہا کہ اسپتالوں میں او پی ڈیز کھولنے اور لاک ڈائون ختم کرنے کے غلط فیصلوں نے اسپتالوں میں رش کے ساتھ ساتھ کورونا کے مریضوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ جس سے ڈاکٹرز بھی متاثر ہو رہے ہیں کیونکہ حکومت صرف ان ڈاکٹروں کو پی پی ای کٹس فراہم کرتی ہے جو کورونا وارڈز میں کام کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹروں کی ایک بہت بڑی تعداد کورونا سے متاثر ہو چکی ہے پنجاب میں 562سے زائد ڈاکٹرز اور نرسز متاثر ہیں جبکہ ملک بھر میں 30سے زائد ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکس کورونا کے باعث اپنی جانیں گوا چکے ہیں۔ حکومت نے جو کٹس ڈاکٹرز کو دی ہیں ان میں بھی بعض کٹس غیر معیاری ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ صوبہ بھر کے اسپتالوں میں وینٹی لیٹرز کی کمی کا مسئلہ ہر دور میں رہا اور اس وقت بھی ہے جبکہ فیلڈ اسپتالوں میں مریضوں کے لئے کوئی سہولت نہیں نہ انہیں مناسب کھانا فراہم کیا جاتا ہے اور نہ ہی دیگر سہولیات جبکہ اب تو سوشل میڈیا پر کورونا کے خلاف جو پروپیگنڈہ شروع ہوا ہے اس سے ڈاکٹروں پر تشدد کے واقعات بڑھ گئے ہیں مگر حکومت سیکورٹی فراہم کرنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کر رہی۔

نجی اسپتالوں نے کورونا کے علاج کے حوالے سے عوام کودونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے بعض بڑے نجی اسپتال کمرے کے کرائے سمیت ٹیسٹوں ادویات اور وینٹی لیٹرسمیت ڈاکٹرز کے معائنہ اور نرسنگ کیئر کی مد میں روزانہ کے چارجز 25ہزار تا ایک لاکھ روپے تک وصول کر رہے ہیں جبکہ ایک مریض کو علاج کے لئے کمرے میں 10سے 15دن تک رکھا جاتا ہے۔ مریضوں سے زیادہ ریٹ وصول کرنے پر محکمہ ہیلتھ سمیت کسی محکمہ کو اختیار نہیں کہ وہ نجی اسپتالوں کے خلاف کارووائی کر سکیں تاہم نجی اسپتالوں کی انتظامیہ نےتمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر مریض کے علاج پر مختلف اخراجات آتے ہیں اور علاج معالجہ مریض کے لواحقین کی مرضی سے کیا جاتا ہے ۔

ذرائع کے مطابق لاہور میں کورونا کا علاج سرکاری اسپتالوں سمیت شہر کے 22نجی اسپتال بھی کر رہے ہیں جس سے متعلق پرائیویٹ اسپتال کی باڈیز نے محکمہ صحت کو آگاہ کر رکھا ہے اور تمام اسپتالوں کی ایک لسٹ محکمہ صحت سمیت ہیلتھ کیئر کمیشن کو بھی فراہم کی گئی ہے جس کے تحت نجی اسپتال ایک کورونا مریض سے روانہ کی بنیاد پر بیڈز چارجز کی مد میں 10ہزار سے 30ہزار روپے تک چارج کرتے ہیں مگر بعض بڑے نجی اسپتالوں کا ریٹ اس بھی زیادہ ہے جبکہ بیڈز چارجز کے علاوہ مریض سے ڈاکٹر کے معائنہ ،کنسلٹنٹ کے معائنہ ، نرسنگ کیئر،پی پی ایز کٹس ادویات اور ٹیسٹوں کے الگ پیسے چارج کرتے ہیں اور اگر کوئی مریض وینٹی لیٹر پر چلا جائے تو اس کےڈیلی چارجز 10سے 15ہزار روپے روزانہ ہیں، اس طرح کورونا کے ایک مریض کا ڈیلی خرچہ 50ہزار سے ڈیرھ لاکھ تک بھی تجاوز کر جاتا ہےمگریہ سب مریض کی کنڈیشن ،اسے لاحق دیگر امراض کی ہسٹری اور اسے علاج معالجہ میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ ضرورت پڑنے والی ادویات و آلات پر منحصر ہے ۔

لاہور شہر کے پوش علاقوں میں قائم نجی اسپتالوں میں کورونا کا علاج معالجہ کے نرخ روزانہ ایک لاکھ سے زائد تک ہیں ،ڈی ایچ اے کے رہائشی محمد سلمان چوہدری نے بتایاکہ میں ڈی ایچ اے کے ہی ایک نجی اسپتال سے اپنی بیوی کا علاج کروا رہا تھا جس کے علاج اور ٹیسٹوں پر پانچ دن میں ساڑھے تین لاکھ سے زائد کے اخراجات آئے ہیں الحمداللہ میری بیوی کا کورونا ٹیسٹ نیگٹو آگیا اور ہماری جان اسپتال سے چھوٹ گئی۔

جوہر ٹائون کے رہائشی انیس احمد نے بتایا کہ میرے والد کا کورونا پازیٹو آیا ہم نے اپنے طور نجی لیبارٹری سے ٹیسٹ کروایا کچھ روز والد کو گھر میں آئیسو لیٹ کیا مگر سانس میں مشکل ہونے پر نجی اسپتال آگئے جہاں ابتک ہمارے پانچ لاکھ روپے سے زیادہ خرچ ہو چکے ہیں تاہم میرے والد کو وینٹی لیٹر کی ضرورت نہیں پڑی ورنہ اس کے چارجز الگ ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ ایک عام آدمی کے لئے نجی اسپتال سے کورونا کا علاج کروانا ممکن نہیں ہے ۔

 تاہم جنگ کے رابطہ کرنے پر پاکستان ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کے مرکزی رہنما او ر ایک بڑے نجی اسپتال کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر جاوید اصغر نے بتایا کہ اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ نجی اسپتال مریضوں سے زائد پیسے وصول کر رہے ہیں کورونا کے ہر مریض کی کنڈیشن اور علاج مختلف ہے بعض مریضوں کو 60ہزار روپے والا ’’ ٹیسی لی زومیب ‘‘انجکشن لگایا جاتا ہے اور بعض مریضوں کو 20ہزار والا انجکشن ضرورت ہوتا ہےجبکہ دیگر ادویات الگ سے ہیں جو مریض کو ضرورت ہوتی ہیں، اس کے ساتھ ہمارا اسپتال جو اے گریٹ میں آتا ہے کے بیڈ چارجز 17ہزار روپے ہیں جبکہ ڈاکٹر کا معائنہ نرسنگ کیئر اکسیجن، وینٹی لیٹر ،ایک مریض پر استعمال ہونے والی پی پی ایز کٹس اور دیگر اخراجات بھی مریض کے حصہ میں ہی آتے ہیں اور ہم تمام علاج معالجہ مریض کے لواحقین سے پوچھ کر کرتے ہیں اگر کوئی انجکشن اور دوائی مریض خود لانا چاہئے تو اس کو اجازت ہو تی ہے۔

 انہوں نے کہا کہ کورونا کے وجہ سے دیگر امراض کے حوالے سے ہمارا بزنس 10فیصد بھی نہیں رہا مگر خرچے بجلی گیس کے بل ملازمین کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات اسی طرح ہو رہے ہیں ہم سب سے زیادہ متاثرہ ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نجی اسپتالوں نے کروڑوں روپے خرچ کر کے آئسولیشن ایریا بنائے ہیں ہم کورونا کے باعث ہرماہ اپنے ملازمین کی تنخواہوں کےلئے بینک سے قرضہ لے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا سرکاری اسپتالوں میں مریض پر آنے والے اخراجات ہم سے زیادہ ہیںدیگر شعبوں کی طرح کوروناسے ہم بڑی مشکلات میں کا م کر رہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے نجی اسپتالوں کے ریٹ ہم سے زیادہ ہیں مگر ہم حکومت کے ساتھ ملکر کام کر رہے ہیں ۔

اس حوالے سے جب محکمہ صحت کے حکام سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ لاہور شہر میں 22نجی اسپتال کورونا کے مریضوں کا علاج معالجہ کر رہے ہیں تاہم نجی اسپتالوں پر ریٹ کے حوالےسے کوئی چیک نہیں،کورونا کا علاج کرنے کی ان اسپتالوں کواجازت دی گئی ہے جن کے پاس آئی سی یو ، ایچ ڈی یو رومز سمیت وینٹی لیٹرز اور دیگر سہولیات موجود ہوںاور وہ کورونا ایس او پیز پر پورا اترتے ہوں اور ان اسپتالوںمیں آئیسولیشن ایریا موجو د ہو۔

جبکہ ہیلتھ کیئر کمیشن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ نجی اسپتالوں پر ریٹ کے حوالے سے چیک اینڈ بیلنس کا ہمار ا کوئی اختیار نہیں ہے تاہم علاج معالجہ کے معیار پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا ہے جو اسپتال علاج معالجہ میں کوتاہی برتے ہیں ان کے خلاف سخت ایکشن لیا جاتا ہے انہیں نوٹس کیا جاتا ہے اور بعض صورتوں میں انہیں جرمانہ بھی کیا جاتا ہے ۔

سندھ

سندھ کے23سرکاری ونجی اسپتالوں میں کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کیا جارہا ہے۔ ان اسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کے لئے1214 آئیسولیشن بیڈز مختص کیے گئے ہیں جبکہ ہائی ڈیپنڈینسی یونٹس میں351بستر اور آئی سی یو میں 257وینٹی لیٹرز مختص کیے گئے ہیں۔ 

مجموعی طور پر سندھ کے اسپتالوں میں اس وقت کل 201آئیسولیشن بیڈز، 200ایچ ڈی یو بیڈز اور159وینٹی لیٹر مریضوں سے بھر گئے ہیں جبکہ 1013آئیسولیشن بیڈز ،151ایچ ڈی یو بیڈز اور 98وینٹی لیٹرز خالی ہیں۔ 

سندھ میں سب سے زیادہ دباؤ کراچی پر ہے جہاں صورتحال گھمبیر ہے اور مختص کیے گئے بستروں اور وینٹی لیٹرز میں سے صرف 30وینٹی لیٹرز،67ایچ ڈی یو بیڈز اور171آئیسولیشن بیڈز خالی ہیں باقی سب مریضوں سے بھر ے پڑے ہیں۔ 

سندھ میں تقریباً92فیصد مریض گھروں میں آئیسولیٹ ہیں جن کی تعداد14910ہے، 99 مریض آئیسولیشن سینٹرز میں ہیں جبکہ صرف 1170مریض اسپتالوں میں زیر علاج ہیں جنہوں نے اسپتالوں کے نظام کو چوک کر دیا ہے اور کراچی میں مریض اسپتالوں میں بستر کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ 

اس تمام صورتحال میں مریضوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ انہیں اسپتالوں میں جگہ میسر نہیں ہو رہی۔ بیشتر اسپتالوں سے مریضوں کو دوسرے اسپتالوں میں ریفر کیا جا رہا ہے لیکن دیگر اسپتالوں میں بھی جگہ تقریباً ختم ہونے کے باعث مریض رل جاتے ہیں۔ 

اس تمام صورتحال میں ایک ریفرل سسٹم کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے اگر سندھ حکومت ریفرل سسٹم قائم کرلے تو مریض گھر بیٹھے یہ معلومات حاصل کر سکتا ہے کہ کس اسپتال میں جگہ اور وینٹی لیٹر خالی ہیں اس طرح پریشانی اور تاخیر کے بغیر اسپتال پہنچ سکتا ہے جس سے مریضوں کی جان بچانے میں بھی آسانی ہو گی۔ 

سندھ میں تقریباً92فیصد مریض گھروں میں آئیسولیٹ ہیں جن کی تعداد14910ہے، 99 مریض آئیسولیشن سینٹرز میں ہیں جبکہ صرف 1170مریض اسپتالوں میں زیر علاج ہیں 

محکمہ صحت سندھ سے حاصل کر دہ معلومات اور اعداد وشمار کے مطابق کراچی میں سول اسپتال، شہید محترمہ بینظیر بھٹو ایکسیڈنٹ اینڈ ٹراما سینٹر، ڈاؤ یونیورسٹی اوجھا اسپتال،جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر، سندھ گورنمنٹ سروسز اسپتال کراچی، لیاری جنرل اسپتال، قومی ادارہ صحت برائے اطفال، انڈس اسپتال، سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن، ڈاکٹر ضیاء الدین اسپتال کلفٹن، ڈاکٹر ضیاء الدین اسپتال نارتھ ناظم آباداور آغا خان اسپتال جبکہ اندورن سندھ میں لیاقت یونیورسٹی اسپتال جامشورو، انسٹیٹیوٹ اف چیسٹ ڈیزیز کوٹری، بلاول بھٹو میڈیکل کالج اسپتال کوٹری،پیپلز میڈیکل کالج اسپتال شہید بینظیر آباد،خیر پور میڈیکل کالج اسپتال خیر پور، پیر عبدالقادر شاہ جیلانی انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز گمبٹ، غلام محمد مہر میڈیکل کالج سکھر، سید عبداللہ شاہ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز سیہون، انڈس اسپتال بدین، جیکب آباد انسٹیٹیو ٹ آف میڈیکل سائنسز اور چانڈکا میڈیکل کالج اسپتال لاڑکانہ میں کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کیا جا رہا ہے۔ 

اسپتالوں کے آئی سی یو میں جو وینٹی لیٹر، ایچ ڈی یو میں جو بستر اور آئیسولیشن بیڈز جو مختص کیے گئے ہیں اگر ان کا جائزہ لیا جائے تو سول اسپتال کراچی میں اس وقت آئی سی یو میں تمام 12وینٹی لیٹرز فل ہیں، ایچ ڈی یو میں 87بیڈز میں سے 36فل اور51خالی ہیں جبکہ47آئیسولیشن بیڈز میں سے 21فل اور 26خالی ہیں۔ شہید محترمہ بینظیر بھٹو ایکسیڈنٹ اینڈ ٹراما سینٹر میں 26وینٹی لیٹرز میں سے 25فل اور ایک خالی ہےجبکہ ایچ ڈی یو میں 28بیڈ زمیں سے 26فل اور2خالی ہیں۔ 

ڈاؤ یونیورسٹی اوجھا اسپتال میں آئی سی یو میں تمام 10وینٹی لیٹرز اور ایچ ڈی یو میںتمام 6بیڈز فل ہیں جبکہ 45آئیسولیشن بیڈز میں سے 42فل اور 3خالی ہیں۔ جناح اسپتال میں آئی سی یو میں 24وینٹی لیٹرزمیں سے 23فل اور1خالی ہے، ایچ ڈی یو میں تمام 14بستر فل ہیں اس کے علاوہ کوئی آئیسولیشن بیڈز مختص نہیں۔ 

سندھ گورنمنٹ سروسز اسپتال کراچی کے آئی سی یو میں تمام 25وینٹی لیٹرز خالی ہیں۔ یہ آئی سی یو ایک روز قبل ہی بنایا گیا ہے تاہم اسپتال میں ایچ ڈی یو میں کوئی بستر مختص نہیں نہ ہی آئیسولیشن بیڈز مختص ہیں۔ 

 اس ساری صورتحال میں اچھی بات یہ ہے کہ بانوے فیصد مریضوں کو اسپتال جانے کی ضرورت نہیں پڑی اور وہ گھروں میں آئیسولیٹ ہیں۔

لیاری جنرل اسپتال کے آئی سی یو میں تمام 13وینٹی لیٹرز فل ہیں، ایچ ڈی یو میں 30بستروں میں سے 19فل اور 11خالی ہیں جبکہ تمام 140آئیسولیشن بیڈزخالی ہیں۔

 قومی ادارہ صحت برائے اطفال میں آئی سی یو میں 2وینٹی لیٹر ہیں جو فل ہیں، ایچ ڈی یو میں4بستروں میں سے 2فل اور 2خالی ہیں جبکہ کوئی آئیسولیشن بیڈ مختص نہیں کیا گیا۔ انڈس اسپتال کراچی میں آئی سی یو میں 14وینٹی لیٹرز ہیں جن میں سے 13فل اور1خالی ہے، ایچ ڈی یو میں تمام 13بیڈز اور آئیسولیشن میں تمام 14بیڈز فل ہیں۔ سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن میں تمام 10وینٹی لیٹر، تمام 30ایچ ڈی یو بیڈز اور تمام 30آئیسولیشن بیڈز فل ہیں۔ 

نجی سطح پر کراچی میں ڈاکٹر ضیاء الدین اسپتال کلفٹن میں تمام 4وینٹی لیٹر اور 6ایچ ڈی یو بیڈز فل ہیں جبکہ 10آئیسولیشن بیڈز میں سے 8فل اور 2خالی ہیں۔ 

ڈاکٹر ضیاء الدین اسپتال نارتھ ناظم آباد میں تمام 6وینٹی لیٹر زفل ہیں، 14ایچ ڈی یو بیڈزمیں سے 13 فل اور 1خالی ہے اور تمام 36آئیسولیشن بیڈز فل ہیں۔ 

آغا خان اسپتال کراچی میں آئی سی یو میں 16وینٹی لیٹرز، تمام 22ایچ ڈی یو بیڈز اور تمام 25آئیسولیشن بیڈ فل ہیں۔ 

لیاقت یونیورسٹی اسپتال جامشورو میں آئی سی یو میں20وینٹی لیٹر ز میں سے8 فل اور 12خالی ہیں، ایچ ڈی یو میں 20بیڈ زمیں سے 5فل اور 15خالی ہیں جبکہ آئیسولیشن میں 37بیڈز میں سے 3فل اور 34خالی ہیں۔ 

انسٹیٹیوٹ اف چیسٹ ڈیزیز کوٹری میںکوئی وینٹی لیٹر نہیں تاہم ایچ ڈی یو کے تمام 12اورآئیسولیشن کے200 میں سے 199بیڈز خالی ہیں ۔بلاول بھٹو میڈیکل کالج اسپتال کوٹری میں صرف 3وینٹی لیٹر مختص ہیں جو خالی ہیں۔ پیپلز میڈیکل کالج اسپتال شہید بینظیر آبادمیںتمام 14وینٹی لیٹر، ایچ ڈی یو کے 20بیڈ اور آئیسولیشن کے 100بستر خالی ہیں۔ خیر پور میڈیکل کالج اسپتال خیر پورمیں کوئی وینٹی لیٹر نہیں تاہم ایچ ڈی یو کےتمام10 بیڈز اور تمام 80آئیسولیشن بیڈ خالی ہیں ۔ 

پیر عبدالقادر شاہ جیلانی انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز گمبٹ میں 17وینٹی لیٹرز میں سے 11فل اور 6خالی ہیں جبکہ ایچ ڈی یو کے تمام 10اور آئیسولیشن کے تمام30بستر خالی ہیں۔ غلام محمد مہر میڈیکل کالج سکھرمیں 4وینٹی لیٹرزمیں سے 1فل اور 3خالی ہیں جبکہ ایچ ڈی یو کے تمام 10بستر اور آئیسولیشن کے تمام 200بستر خالی ہیں۔ سید عبداللہ شاہ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسزسیہون میں 8وینٹی لیٹرز میں سے 2فل اور 6خالی ہیں ،ایچ ڈی یو کے 8بستر وں میں سے 4فل اور 4خالی ہیں اور آئیسولیشن کےتمام 20بستر فل ہیں۔ 

انڈس اسپتال بدین میں 4وینٹی لیٹر ہیں جو خالی ہیں جبکہ آئیسولیشن کے 120بستروں میں سے 199خالی ہیں۔ جیکب آباد انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں صرف 2وینٹی لیٹرز اور ایچ ڈی یو میں 3بستر ہیں جو تمام خالی ہیں۔ چانڈکا میڈیکل کالج اسپتال لاڑکانہ میں 22وینٹی لیٹرز ہیں جن میں سے 4فل اور 18خالی ہیں۔ ایچ ڈی یو میں4بستر ہیں جو فل ہیں تاہم آئیسولیشن کے تمام 80 بستر خالی ہیں۔ اس ساری صورتحال میں اچھی بات یہ ہے کہ بانوے فیصد مریضوں کو اسپتال جانے کی ضرورت نہیں پڑی اور وہ گھروں میں آئیسولیٹ ہیں۔

خیبرپختونخوا:

خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں کے 10بڑے اسپتالوں میں کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کیا جا رہا ہے۔محکمہ صحت نے10 اسپتالوں کے انتہائی نگہداشت کے شعبوں (آئی سی یوز) اور ہائی ڈیپنڈنسی یونٹس میں مجموعی طور پر452بیڈز صرف کورونا کے مریضوں کے لئے مختص کر رکھے ہیں تاہم مریضوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے مقررہ گنجائش ختم ہوتی جا رہی ہے علاوہ ازیں مریضوں کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر مزید وارڈز کو انتہائی نگہداشت کے یونٹس میں تبدیل کرنے کے لئے سٹینڈ بائی رکھا گیا ہے۔ 

صوبے کے دیگر 110چھوٹے بڑے اسپتالوں میں کورونا مریضوں کے لئے 856 بستروں پر مشتمل آئیسولیشن وارڈز قائم کئے گئے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں روزانہ 2860 مریضوں کے کورونا ٹیسٹ کی سہولت موجود ہے۔ صوبے میں اب تک 11ہزار 890 مریضوں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جن میں 521انتقال کر گئے ہیں۔ صوبے میں اموات کی شرح پانچ فیصد کے لگ بھگ ہے جو دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہے تاہم اسپتالوں میں مریضوں کے لئے بیڈز اور وینٹی لیٹرز کی گنجائش موجود ہے۔ 

سرکاری دستاویزات کے مطابق کورونا آئی سی یو کے لئے 140 بیڈز مختص ہیں جن پر 99مریض داخل ہیں اور ان کا علاج جاری ہے جبکہ41بیڈز خالی ہیں اسی طرح ہائی ڈیپنڈنسی یونٹس میں مجموعی طور پر 312بستر موجود ہیں جن پر 210 مریض داخل ہیں جبکہ 102 کی مزید گنجائش موجود ہے۔ 

صوبائی وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا کا کہنا ہے کہ اسپتالوں میں کافی گنجائش موجود ہے تاہم کسی بھی قسم کی ایمرجنسی کی صورت میں مزید بیڈز رکھنے کی منصوبہ بندی کی جا چکی ہے جبکہ صوبے میں وینٹی لیٹرز بھی دستیاب ہیں۔ 

انہوں نے جنگ کو بتایا کہ صوبے میں تین قسم کے انتظامات کئے گئے ہیں جن میں روزانہ کی بنیاد پر تبدیلی کی جاتی ہے۔ شدید ترین مریضوں کو آئی سی یوز منتقل کیا جاتا ہے جبکہ نسبتاً کم بیماروں کو ہائی ڈیپنڈنسی یونٹس میں رکھا جاتا ہے جبکہ معمول کے کورونا کے ابتدائی مریضوں کو آئیسولیشن میں رکھنے کا بندوبست کیا گیا ہے۔ 

اسپتالوں میں کافی گنجائش موجود ہے تاہم کسی بھی قسم کی ایمرجنسی کی صورت میں مزید بیڈز رکھنے کی منصوبہ بندی کی جا چکی ہے، صوبائی وزیر صحت خیبرپختونخوا

انہوں نے کہا کہ صوبے میں حالات کنٹرول ہیں لیکن عوام کو احتیاط کا مظاہر ہ کرنا ہوگا کیونکہ مریضوں کی تعداد میں اچانک بڑا اضافہ اسپتالوں کے لئے خطرناک ہوگا۔ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پشاور میں آئی سی یو کے 20بستر ہیں جن میں سے 19 پر مریض زیر علاج ہیں جبکہ ایک بستر خالی ہے یوں 95فیصد آئی سی یو میں مریض داخل ہیں، ہائی ڈیپنڈنسی یونٹ (ایچ ڈی یو) میں66بیڈز ہیں جن میں سے 65پر مریض زیرعلاج ہیں اور صرف ایک بستر خالی ہے یوں 98فیصد ایج ڈی یو مریضوں سے بھر ا ہوا ہے۔ 

اسپتال میں عام مریضوں کے لئے آئی سی یو میں 19بستر موجود ہیں جن میں سے 12پر مریض داخل ہیں جبکہ باقی ماندہ7 بستر خالی ہیں۔ ایچ ایم سی میں عام مریضوں کے لئے مجموعی طور پر 800بیڈز ہیں جبکہ ان میں380 پر مریض زیر علاج ہیں 420بستر خالی ہیں۔ اسپتال میں کورونا کے ابتدائی مریضوں کو قرنطینہ میں رکھنے کے لئے 42 بستر مختص ہیں جن میں17پر مریض داخل ہیں جبکہ25مزید مریضوں کی گنجائش موجود ہے۔ 

ایچ ایم سی پشاور میں کورونا مریضوں کے لئے 25وینٹی لیٹرز موجود ہیں جن میں سے19 مریضوں کے زیر استعمال ہیں جبکہ6 فی الحال خالی ہیں اسی طرح عام مریضوں کے لئے 19وینٹی لیٹرز دستیاب ہیں جن میں سے 12مریضوں کے زیر استعمال ہیں اور 7 خالی ہیں۔ خیبر ٹیچنگ اسپتال پشاور میں کورونا مریضوں کے لئے ہائی ڈیپنڈنسی یونٹ میں 57بیڈز مختص ہیں تمام پر مریض داخل ہیں کوئی بیڈ خالی نہیں۔ 

اسپتال میں عام مریضوں کے لئے 11آئی سی یو بیڈز موجود ہیں جن پر 8مریض زیر علاج ہیں یوں آئی سی یو میں مزید تین مریضوں کی گنجائش ہے۔ کے ٹی ایچ میں عام مریضوں کے لئے مجموعی بستر 1225ہیں جن میں سے 342 پر مریض زیر علاج ہیں جبکہ883 بیڈز ابھی خالی ہیں۔ 

اسپتال میں کورونا مریضوں کے لئے آئیسولیشن کا بندوبست کیا گیا ہے جس کے لئے 20بستر مختص کئے گئے ہیں جن میں 10پر کورونا کے ابتدائی مریض زیر علاج ہیں جبکہ10 بستر خالی ہیں۔ صوبے میں کورونا مریضوں کے لئے 508 وینٹی لیٹرز مختص کئے گئے ہیں پرائیویٹ شعبے میں بھی 179 وینٹی لیٹرز کی دستیابی کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ 

حکومت عالمی اداروں کے تعاون سے مزید 120وینٹی لیٹرز خرید رہی ہے۔ لیڈی ریڈنگ اسپتال کے آئی سی یو میں کورونا مریضوں کے لئے 25بستر مختص ہیں جن میں 23مریض زیر علاج ہیں جبکہ 2بستر خالی ہیں اسی طرح ہائی ڈیپنڈنسی یونٹ میں مجموعی طور پر 80کورونا مریضوں کے داخلے کی گنجائش موجود ہے جن میں27مریض موجود ہیں جبکہ53 بستر خالی ہیں۔ اسپتال میں عام مریضوں کے لئے آئی سی یو میں 18 بستر موجود ہیں جن میں13 پر مریضوں کا علاج جاری ہے اور5 خالی ہیں۔ ایل آر ایچ میں کورونا مریضوں کے لئے 25وینٹی لیٹر موجود ہیں جن میں سے 19مریضوں کے زیر استعمال اور 6خالی ہیں اسی طرح عام مریضوں کے لئے 18وینٹی لیٹرز میں سے 9مریضوں کے زیر استعمال ہیں جبکہ9خالی ہیں۔ 

سیدو گروپ آف ٹیچنگ اسپتال سوات میں مجموعی طورپر آئی سی یو میں 25 بیڈز کا بندوبست کیا گیا ہے جن میں 16پر مریض داخل ہیں جبکہ9 خالی ہیں اسی طرح ایچ ڈی یو میں بھی 25 بیڈز ہیں تمام پر مریض داخل ہیں۔ سیدو اسپتال میں مجموعی طور کورونا مریضوں کے لئے 100 بیڈز مختص کئے گئے ہیں۔ 

علاوہ ازیں عام مریضوں کے لئے آئی سی یو میں چار بستر ہیں جن میں سے 2پر مریض موجود ہیں جبکہ 2خالی ہیں۔ سیدو شریف اسپتال میں 23وینٹی لیٹر کورونا مریضوں کے لئے مختص ہیں جن میں سے صرف ایک زیر استعمال ہیں جبکہ 22خالی ہیں اسی طرح عام مریضوں کے لئے چھ میں سے صرف ایک وینٹی لیٹر زیر استعمال ہے جبکہ پانچ دستیاب ہیں۔ مردان میڈیکل کمپلیکس 344بستروں پر مشتمل ہے جس میں 375مریض داخل ہیں یوں 31مریض گنجائش سے زیادہ ہیں کورونا کے عام مریضوں کے لئے 100بیڈز مختص ہیں جن میں 12مریض موجود ہیں جبکہ 88بستر خالی ہیں اسی طرح کورونا کے مریضوں کے لئے قائم آئی سی یو میں 16بیڈز موجود ہیں جن میں 13 پر کورونا مریضوں کا علاج جاری ہے جبکہ تین خالی ہیں ،ایچ ڈی یو میں 14بستر ہیں جن میں سے 12پر مریض داخل ہیں جبکہ2 تاحال خالی ہیں۔

 اسپتال میں عام مریضوں کے لئے آئی سی یو میں 7 بیڈز کی گنجائش رکھی گئی ہے جن میں 6 پر مریض موجود ہیں، ایک بستر خالی ہے۔

مردان میڈیکل کمپلیکس میں کورونا مریضوں کے لئے20وینٹی لیٹرز میں سے صرف تین زیر استعمال ہیں جبکہ 17 خالی ہیں اسی طرح عام مریضوں کے لئے 6وینٹی لیٹرز موجود ہیں جو سارے خالی ہیں۔ 

ایوب ٹیچنگ اسپتال ایبٹ آباد کے آئی سی یو میں 11بستروں میں سے 9پر مریض داخل ہیں جبکہ 2 خالی ہیں، عام مریضوں کے لئے اسپتال میں 8آئی سی یو بیڈز ہیں جن میں سے سات پر مریض داخل ہیں۔ ایوب ٹیچنگ اسپتال ایبٹ آباد 1250 بستروں پر مشتمل ہے جس میں 442مریض زیر علاج ہیں جبکہ 808 کی گنجائش موجود ہے۔ اسپتال میں کورونا کے ابتدائی مریضوں کی دیکھ بھال کے لئے 80بستر مختص ہیں جس میں 22مریض داخل ہیں جبکہ 58بستر خالی ہیں، کورونا مریضوں کے لئے 13وینٹی لیٹرز میں سے صرف دو زیر استعمال ہیں اور 11خالی ہیں۔ 

عام مریضوں کے لئے 12 وینٹی لیٹرز میں سے سات مریضوں کے لئے استعمال کئے جا رہے ہیں جبکہ پانچ خالی ہیں۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز اسپتال باجوڑ میں آئی سی یو کی سہولت میسر نہیں البتہ ہائی ڈیپنڈنسی یونٹ قائم کیا گیا ہے جس میں 10 مریضوں کی گنجائش ہے اور چار مریضوں کا علاج جاری ہے چھ بستر خالی ہیں۔ 

ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز اسپتال دیر بالا میں کورونا مریضوں کے لئے آئی سی یو کی سہولت موجود نہیں البتہ ایچ ڈی یو میں 10بستر موجود ہیں جن میں 8 پر مریض داخل ہیں جبکہ دو خالی ہیں اسپتال میں عام مریضوں کے لئے آئی سی یو سہولت بھی نہیں، اسپتال 216 بستروں پر مشتمل ہے جس میں 204 مریض داخل ہیں جبکہ 12 کی گنجائش موجود ہے۔ ڈسٹرک ہیڈ کوارٹر اسپتال کرک میں کورونا مریضوں کے لئے 15بستروں پر مشتمل آئی سی یو کی سہولت موجود ہے تاہم کوئی مریض داخل نہیں، ایچ ڈی یو میں 10مریضوں کی گنجائش ہے جس میں سات مریض داخل ہیں جبکہ تین بستر خالی ہیں، عام مریضوں کے لئے آئی سی یو میں سات بیڈز ہیں جن تمام پر مریض داخل ہیں مزید داخلے کی گنجائش نہیں۔ 

اسپتال میں عام مریضوں کے لئے 164 بستروں کی گنجائش ہے 139 مریض داخل ہیں اور25 بستر خالی ہیں۔ کورونا مریضوں کے لئے 5 آئیسولیشن بیڈز کا بندوبست بھی کیا گیا ہے جن پر تین مریض داخل ہیں دو بستر خالی ہیں۔ 

باچا خان میڈیکل کمپلیکس شاہ منصور صوابی میں کورونا مریضوں کے لئے آئی سی یو میں 16بستر موجود ہیں جن پر ایک مریض داخل ہے جبکہ باقی 15بستر خالی ہیں اسی طرح ایچ ڈی یو میں 20بستر مختص ہیں جن میں سے 11پر مریض داخل ہیں جبکہ9 تاحال خالی ہیں۔ باچا خان میڈیکل کمپلیکس میں کورونا کے مریضوں کے لئے 16اور عام مریضوں کے لئے 10وینٹی لیٹرز موجود ہیں لیکن کوئی بھی زیر استعمال نہیں۔ 

ڈی ایچ کیو بٹگرام میں عام مریضوں کے لئے 110بستر موجود ہیں جن میں سے 94پر مریض داخل ہیں جبکہ اسپتال میں کورونا کے مریضوں کے لئے 10بیڈز مختص کئے گئے ہیں جن پر پانچ مریض داخل ہیں اور پانچ کی گنجائش موجود ہے۔ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال بٹ خیلہ ملاکنڈ میں 185 میں سے 88 عام مریض داخل ہیں جبکہ کورونا کے لئے20الگ بستر مختص کئے گئے ہیں جن پر 6مریض داخل ہیں اور 14بستر خالی ہیں۔

بلوچستان:

ملک کے نصف حصے پر محیط اور قدرتی معدنیات سے مالا مال صوبہ بلوچستان ہر شعبے میں دیگر صوبوں کی نسبت انتہائی پسماندہ ہے ۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے تعلیم صحت جیسے اہم نوعیت کے شعبوں کو مسلسل نظر انداز کرنے کی وجہ سے آج یہ شعبے بلوچستان میں عملا‘‘ مفلوج ہو چکے ہیں۔ 

معمولی نوعیت کے علاج و معالجے کیلئے بھی کوئٹہ سمیت صوبے بھر کے عوام کو ملک کے بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے اسی طرح اگر کوئی اپنے بچے کو معیاری و اچھی تعلیم دلوانا چاہئے تو صاحب حیثیت افراد اسے پنجاب سندھ اور کے پی کے بھجواتے ہیں۔ کورونا وائرس نے ا گر چہ پوری دنیا میں تباہی مچائی مستحکم و خوشحال ممالک بھی اس وائرس کا مقابلہ نہیں کر سکے جبکہ پاکستان انتہائی پسماندہ اور ترقی پذیر ملک ہے کورونا وائرس نے اگر چہ ملک کے دیگر صوبوں میں بہت زیادہ جانا نقصان کیا لیکن خوش قسمتی سے بلوچستان میں یہ اتنی تباہی نہیں کر سکا جس کے خدشات ظاہر کئے جا رہے تھے طبی ماہرین کے مطابق پھیلی ہوئی آبادیوں پر مشتمل صوبہ بلوچستان جس کی کل آبادی ایک کروڑ23لاکھ کے لگ بھگ ہے کوئٹہ کے علاوہ اندرون صوبہ آبادیاں منتشر ہیں جو سماجی فاصلے کی احتیاطی تدابیر پر پورا اترتی نظر آتی ہیں ۔

محکمہ صحت کے ذرائع نے جنگ کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ صوبے میں اب تک51افراد کورونا وائرس کی وجہ سے لقمہ اجل بن چکے ہیں جن میں سابق چیف جسٹس آف بلوچستان غلام مصطفی مینگل اور ان کی اہلیہ تین ڈاکٹرز ‘ ایک رکن صوبائی اسمبلی سید فضل آغا ‘ سابق صوبائی وزیر سردار مصطفی ترین ‘ایس پی چودھری مشتاق علی ‘دو سگے سینئر ڈسپنسرز بھائی ‘ ایڈیشنل سیکرٹری کے والد شامل ہیں کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعدادبڑھ کر 5224 ہو گئی ،اب تک 27301 افرادکے ٹیسٹ کئے گئے ہیں 22940افراد کی رپورٹ منفی آئی جبکہ مشتبہ افراد کی تعداد24530ہو گئی ہے جبکہ 2021 مریض کورونا وائرس سے صحت یاب ہو چکے ہیں۔ 

وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے تعلیم صحت جیسے اہم نوعیت کے شعبوں کو مسلسل نظر انداز کرنے کی وجہ سے آج یہ شعبے بلوچستان میں عملا‘‘ مفلوج ہو چکے ہیں۔

صوبائی دارالحکومت کے علاوہ اندرون صوبہ معیاری سرکاری اسپتالوں ‘ ڈسپنسریز کا فقدان ہے جس کی وجہ سے اکثر مریضوں کوئٹہ کا رخ کرتے ہیں جبکہ صاحب حیثیت لوگ زیادہ تر علاج و معالجے کیلئے کراچی جاتے ہیں ۔ کوئٹہ کے نواحی علاقوں میں واقع فاطمہ جناح ٹی بی سینی ٹوریم چیسٹ اسپتال اور شیخ زید اسپتال میں کورونا کے مریضوں کا علاج و معالجہ کیا جا رہا ہے جبکہ کورونا وائرس کے ٹیسٹ کوئٹہ اور تفتان میں کئے جا رہے تھے کوئٹہ میں یہ سہولت صرف فاطمہ جناح ٹی بی سینی ٹوریم میں دستیاب تھی جہاں روزانہ سو سے ڈیڑھ سو افراد کے ٹیسٹ کئے جا رہے تھے جن کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی جبکہ ٹیسٹوں کا سلسلہ کئی روز تک معطل کئے رکھا ۔

جبکہ ایک دو تین روز سے شیح زید اسپتال میں جدید پی سی آر مشین نصب کر کے کورونا کے ٹیسٹ شروع کئے گئے ہیں ۔کوئٹہ میں بولان میڈیکل کمپلیکس میں 1062بیڈ ز ہے جس میں 30کورونا کے مریضوں داخل ہیں جبکہ 1032بیڈز عام مریضوں کیلئے مختص ہیں جبکہ بی ایم سی ہسپت میں میں 14وینٹی لیٹرز ہیں کوئی مریض وینٹی لیٹر پر نہیں ہے سول اسپتال میں 850بیڈز ہیں 30کورونا کے مریضوں کیلئےجس میں 26کورونا کے مریض داخل ہیں جبکہ 824بیڈز عام مریضوں کیلئے رکھے گئے ہیں۔

شہری مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں کہ او پی ڈیز کی سہولت بحال کی جائے لیکن محکمہ صحت نے ڈاکٹرز کی مشاورت کے بعد او پی ڈیز کو معطل رکھنے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے 

 سول اسپتال میں 15وینٹی لیٹرز ہیں بلوچستان چلڈرن اسپتال میں 132بیڈز ہیں جہاں 12کورونا وائرس کے مریض داخل ہیں جبکہ 120بیڈز عام مریضوں کیلئے ہےجبکہ 4وینٹی لیٹرز موجود ہیں ہیلپرز آئی اسپتال 120بیڈز پر مشتمل ہیں 50بیڈز کورونا مریضوں کیلئے مختص ہیں جہاں 50ہی مریض کورونا کے داخل ہیں 70بیڈز عام مریضوں کیلئے رکھے گئے ہیں شیخ زید اسپتال 210بیڈز پر مشتمل ہے جسے صرف کورونا کے مریضوں کیلئے مختص کیا ہوا ہے جہاں 50متاثرہ مریض داخل ہیں اس اسپتال میں 6وینٹی لیٹرز موجود ہیںفاطمہ جناح ٹی بی سینی ٹوریم چیسٹ اسپتالمیں170بیڈز ہیں جہاں 50مریض داخل ہیں جن میں 30مریض کورونا وائرس کا شکار ہیںفاطمہ جناح ہسپتا ل میں 14وینٹی لیٹرز ہیں جبکہ 140بیڈز دیگر مریضوں کیلئے رکھے گئے ہیں۔ 

مفتی محمود اسپتال کچلاک 50بیڈز پر مشتمل ہے ٹراما سنٹر 30بیڈز پر مشتمل ہیں جہاں 30ہی مریض داخل ہیں جبکہ 8وینٹی لیٹرز ہیںبے نظیر اسپتال 120بیڈز پر مشتمل ہے 10کورونا کے مریض داخل ہیں اس اسپتال میں کوئی وینٹی لیٹر نہیں ہیں جبکہ حکومت بلوچستان نے کورونا کی وبا باعث تین ماہ قبل بولان میڈیکل کمپلیکس ملحقہ کالونی میں 460بیڈز پر مشتمل آئسولیشن مرکز قائم کیا تھا جو تاحال فعال نہیں ہو سکا اس مرکز میں ایک بھی وینٹی لیٹر نہیں ہے اندرون بلوچستان کورونا وائرس سے نمٹنے کے انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں ضلع قلعہ عبداللہ ‘ ضلع کچھی تحصیل مچھ ‘ژوب ‘خضدار ‘ہرنائی‘مانجھی پور ‘اوستہ محمد ‘ جھل مگسی ‘دکی ‘ ڈیرہ مراد جمالی ‘سوراب ‘نوشکی ‘مستونگ ‘ہرنائی میں وینٹی لیٹرز دستیاب نہیں صرف ژوب میں ایک وینٹی لیٹر ہے جبکہ ان علاقوں میں اسپتالوں میں طبی عملہ موجود ہے نہ ہی کورونا کی روک تھام کیلئے اقدامات کئے گئے ہیں ۔مریضوں کو علاج و معالجے کیلئے کوئٹہ ریفر کر دیا جاتا ہے ۔

دوسری جانب کوئٹہ سمیت بلوچستان میں شرح اموات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ کوئٹہ کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال کے ایک ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنیکی شرط پر بتایا کہ پورے صوبے میں ڈاکٹرز خوفزدہ ہو کر عملا‘‘ کام چھوڑ چکے ہیں یا اکا دکا جونیئر ڈاکٹرز تعینات ہیں جس کی وجہ سے شوگر گردے دل اور دیگر امراض میں مبتلا مریض علاج و معالجے سے محروم ہو رہے ہیں اور آئے روز صوبے کے مختلف اضلاع میں دن میں کئی کئی جنازے اٹھ رہے ہیں مختلف اخبارات میں انتقال کے کالم نصف صفحات پر چلے گئے ہیں جس کی وجہ سے شہریوں میں خوف و ہراس میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ 

شہری مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں کہ او پی ڈیز کی سہولت بحال کی جائے لیکن محکمہ صحت نے ڈاکٹرز کی مشاورت کے بعد او پی ڈیز کو معطل رکھنے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے اگر اسپتال یونہی بند رہے تو کورونا سے تو شاید اتنی اموات نہ ہوں لیکن دیگر امراض کا مقابلہ نہ کرتے ہوئے ہزاروں افراد موت کی وادی میں چلے جائیں گے۔

اسلام آباد:

اگرچہ اسلام آباد کا شمار پاکستان کے ان سات بڑے شہروں میں نہیں ہوتا جو کورونا سے ہونے والی شرح اموات کے لحاظ سے سرفہرست ہیں لیکن اگر نئی دس لاکھ آبادی کے لحاظ سے اندازہ لگایا جائے تو یہ تیسرے درجے ضرور ہوتی ہے۔ یہاں تین جون تک فی ملین آبادی کے لحاظ سے 2610 کیسز ہو چکے تھے۔ 

اگر فی ملین کورونا سے ہونے والی اموات کا جائزہ لیا جائے تو اسلام آباد کا شمار پہلے 7شہروں میں ہوتا ہے۔ شہر میں 3جون تک فی ملین 26اموات ہوئیں جبکہ مالا کنڈ میں 31رپورٹ کی گئیں۔ 

ان میں پشاور سرفہرست رہا جہاں 50اموات (فی ملین) رپورٹ کی گئیں۔ اس حساب سے 25اموات کے ساتھ کراچی کا چوتھا نمبر ہے جس کے بعد راولپنڈی 26، لاہور 19کا نمبر آتا ہے اگر فی ملین ٹیسٹوں کا حساب لگایا جائے تو 21ہزار کی تعداد کے اعتبار سے اسلام آباد سب سے آگے ہے اور کورونا کے زیادہ کیسز کی ایک وجہ یہ بھی ہے جب ہم ٹیسٹ نہیں کراتے تو مریضوں کی صحیح تعداد بھی سامنے نہیں آتی جیسا کہ پنجاب میں دیکھنے میں آیا ہے۔ 4جون تک جن افراد کا ٹیسٹ کیا گیا۔

 ان کی تعداد 43500سے بڑھ چکی تھی جبکہ کنفرم کیسز کی تعداد 3544ہوگئی۔ جن میں 3201 ایکٹو کیسز تھے اور 302 صحت یاب ہو چکے تھے جبکہ 41اموات ہوئیں۔ اسلام آباد میں کنفرم کیسز کی بنیاد پر جو ہفتہ وار ڈیٹا مرتب کیا جاتا ہے اس کی بنیاد پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملک میں ٹیسٹوں کی گنجائش بڑھنے کے ساتھ ساتھ مریضوں کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ 

اگر فی ملین کورونا سے ہونے والی اموات کا جائزہ لیا جائے تو اسلام آباد کا شمار پہلے 7شہروں میں ہوتا ہے۔

دستیاب ڈیٹا کے مطابق اسلام آباد میں 10سے 16مارچ تک 4 کنفرم کیس رپورٹ ہوئے۔ 17سے 23مار تک 11، 24 سے 31مارچ تک 39کیسز سامنے آئے۔ اپریل کے پہلے ہفتے میں 38کیس رپورٹ ہوئے۔ یہ پہلا ہفتہ تھا جب مریضوں کی تعداد میں کمی دیکھنے میں آئی۔ 8اپریل سے 15اپریل تک 53کنفرم کیس رپورٹ ہوئے۔ 16 سے 23اپریل تک 69 رپورٹ ہوئے یعنی ان میں 16نئے کیسز کا اضافہ ہوا۔ 24اپریل سے 30اپریل تک یہ تعداد 69 سے 129تک پہنچ گئی جبکہ آنے والے ہفتے میں مزید 86کیس سامنے آئے جس کے نتیجہ میں یکم مئی سے 7مئی تک مجموعی تعداد 215 تک پہنچ گئی۔ 

اگلے تین ہفتوں میں کیسز کی تعداد 363 8سے 15مئی، 671، 16سے 23مئی اور پھر 997 مئی کے آخری ہفتے تک پہنچ گئی۔ اگر صوبوں کے حساب سے دیکھا جائے کہ کتنے بیڈز،مریضوں کے لئے ہر اعتبار سے میڈیکل سہولت آکسیجن وغیرہ سے لیس ہیں تو اسلام آباد اس اعتبار سے خودکفیل ہے۔ پمز اسپتال میں صرف 4جون کو 58مریض زیرعلاج تھے۔ 

جہاں تک وینٹی لیٹرز کے استعمال کا تعلق ہے اسلام آباد کے اسپتالوں میں 92وینٹی لیٹرز میں سے 12زیر استعمال ہیں جبکہ 80فارغ پڑے ہیں۔ قومی ڈیٹا کے مطابق ایسے مریضوں کی تعداد ہمیشہ زیادہ رہی ہے جنہیں وینٹی لیٹرز کے مقابلے میں آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر جو مریض آکسیجن پر تھے، ان کی تعداد 3مئی کو 111سے بڑھ کر 3جون تک 606ہوگئی لیکن بعدازاں جو مریض وینٹی لیٹرز پر تھے۔ ان کی تعداد 3مئی کو 36سے بڑھ کر 3جون تک 231تک پہنچ گئی۔ 

اسلام آباد میں فرنٹ لائن پر سرعمل ہیلتھ ورکرز اور ڈاکٹرز جو کورونا سے متاثر ہوئے ، 3جون کو ان کی تعداد 106ڈاکٹر ، 50نرسیں اور 61پیرا میڈکس اور دوسرا سٹاف تھی جبکہ 4جون کو پمز میں کنفرمڈ ہیلتھ ورکرز کی تعداد 130 سے متجاوز کر گئی۔ کیپٹل اسپتال میں 17پازیٹو کیسز تھے، جن میں 5ڈاکٹر اور 13سٹاف کے لوگ تھے۔