کارپٹ بیگرز

فوٹو: فائل

ریٹائرڈ بیوروکریٹ حالات کی سنگینی پر بولا ’’سابقہ حکومتوں میں بھی کارپٹ بیگرز تھے مگر اس حکومت میں کارپٹ فیصلہ ساز بن گئے ہیں، اسی لئے حالات خراب ہیں ،میں نے کہا، اچھا، تو وہ پھر بولا  میں کبھی کبھی عہدوں کی پروا کئے بغیر عام کھوکھوں اور ڈھابوں سے چائے بھی پی لیتا ہوں۔

 عام دکانوں پر جاتا ہوں، میلوں پیدل چلتا ہوں، مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ عام آدمی کی بات سنوں، غریب آدمی کیا کہتا ہے، متوسط علاقے میں اس لئے جاتا ہوں کہ ان کے خیالات سن سکوں، امیروں کی سوچ کا علم مجھے روزانہ کی بنیاد پر ہو جاتا ہے، میں نے محسوس کیا ہے کہ اس حکومت سے غریب اور متوسط طبقہ تو بہت تنگ ہے، امیر طبقہ بھی اپنے کاروبار کا رونا رو رہا ہے، شاید چند لوگ خوش ہوں، آپ کا میڈیا بھی تو حکومت سے شاکی ہے۔

یہ باتیں سننے کے بعد میں نے عرض کیا کہ پہلے میں یہ جانتا تھا کہ آپ مطالعہ بہت کرتے ہیں مگر آج اندازہ ہوا کہ آپ مشاہدہ بھی کرتے ہیں، آپ کا مشاہدہ درست ہے، ملک کے سبھی طبقات ناخوش ہیں، اراکین اسمبلی نالاں ہیں، وزیراعظم سے افسران کس قدر جھوٹ بولتے ہیں ایک مثال دیتا ہوں۔

 پچھلے آٹھ دس مہینوں میں کم از کم دو مرتبہ وزیراعظم کی توجہ سفیدے کے درختوں پر مرکوز کرانے کے باوجود کچھ نہیں ہوا۔ عرض کیا تھا کہ ہماری سڑکوں کے کنارے سفیدے کے درخت لگے ہوئے ہیں، ہمارے پاس پانی کی کمی ہے، یہ درخت کٹوا دیں۔ دوسری مرتبہ ملا تو بتانے لگے ’’درخت کٹ چکے ہیں ‘‘ عرض کیا نہیں، آپ کو جہلم، کھاریاں اور گجرات میں سفیدے کے درخت ملیں گے، پنڈی سے کلر کہار سفیدے کی قطاریں نظر آتی ہیں، آپ بتائیں کہ چکوال بارانی علاقہ نہیں؟ وزیراعظم نے اتفاق کیا اور کہا ’’چکوال میں سفیدے کا کیا کام، بس اب یہ درخت کٹ جائینگے ‘‘۔ 

چند روز پہلے براستہ جنڈ کوہاٹ روڈ کالا باغ گیا تو اندازہ ہوا کہ وزیراعظم کے احکامات پر عملدرآمد نہیں ہو سکا کیونکہ سڑکوں کے کنارے سفیدے کی قطاریں نظر آئیں، حالات کی سنگینی کا تذکرہ ایک قریبی دوست سے کیا تو وہ بولا ’’چند امیر گھرانوں کے بعض آوارہ لڑکے حکومت میں آگئے ہیں ‘‘ رہی بات میڈیا کی تو افسوس کہ پاکستان میں سب سے زیادہ خدمات انجام دینے والے میڈیا گروپ کے سربراہ میر شکیل الرحمٰن کو بلاوجہ بند کیا ہوا ہے۔

میر شکیل الرحمٰن کا اس مسئلے سے کوئی تعلق ہی نہیں بنتا، نہ وہ زمین الاٹ کرنے والے ہیں، نہ ہی زمین الاٹ کرانے والوں میں شامل ہیں بلکہ وہ تو صرف الاٹ شدہ زمین کسی سے خریدنے والے ہیں۔ 

میڈیا کے واجبات بھی ادا نہیں کیے جا رہے، اسی لئے میڈیا کارکن تنخواہوں سے محروم ہیں۔ میں نے پوری قوم کے سامنے وزیراعظم کی توجہ مبذول کرائی تھی کہ میڈیا کے کارکنوں کے گھروں میں بھی کھانا بنتا ہے، ان کے بچوں کی بھی ضروریات ہیں مگر افسوس اس پر کچھ نہ ہو سکا، میڈیا کارکنوں کی زندگیاں تنگ ہیں، بہت سے بیروزگار ہو چکے ہیں، تنخواہوں پر کٹ الگ، تنخواہیں مل بھی نہیں رہیں۔

حالات کے بارے سوچ ہی رہا تھا کہ بودی شاہ آگئے، عرض کیا کہ شاہ جی! آپ بھی فرمائیں جو فرمانا ہے۔ بیزاری سے کہے گئے جملے پر بودی شاہ پھٹ پڑا ’’فواد چوہدری نے تو ذرا سا بےنقاب کیا ہے ورنہ حالات اس سے بھی کہیں زیادہ سنگین ہیں، پتا نہیں ایک وزیر دوسرے وزیر کو تھپڑ مارتے مارتے کیسے رُک گیا، ملک پر گرپ کیا ہونی ہے، کابینہ پر گرپ نہیں، مشیروں کی فوج کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں، ایسے لوگ مشاورتوں کے ذریعے اقتدار میں ہیں جن کا عوام سے کوئی تعلق نہیں، بعض بریف کیس لے کر آئے ہوئے ہیں اور بعض مبینہ طور پر یہ کہتے ہیں کہ ہم اکیلے تو نہیں کھاتے، سب کو کھلاتے ہیں ہیں۔ 

کبھی مہنگائی سر چڑھ کر بولتی ہے تو کبھی پاور کمپنیوں کا مافیا کام دکھاتا ہے، مافیاز حکومت کا حصہ بن چکے ہیں، ملک میں کاریں مہنگی ہو گئیں، دو تین گھرانے کھاد اور کاروں کے چکر میں نوازے گئے۔ 

جو بیوروکریٹ پچھلے دور میں نوازے گئے تھے اب زیادہ نوازے گئے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں مخالف جماعت کے لیڈر کا کزن افسرِ اعلیٰ ہے مگر وہاں عملاً حکمرانی اسلام آباد سے ایک سینئر بیوروکریٹ کر رہا ہے، اس بیوروکریٹ نے وزیراعظم کے چند مشیروں اور ایک سول ادارے کے سربراہ کو ساتھ ملا رکھا ہے، جھوٹی سچی رپورٹیں آ جاتی ہیں۔ 

پنجاب میں عملاً حکومت نواز شریف دور کے پرنسپل سیکریٹری کر رہے ہیں، وہ اپنی جیل کا سارا غصہ نکال رہے ہیں، ان کے شاگردِ خاص ایسی جگہ پر ہیں جو تبادلے کرتے ہیں، عہدوں سے نوازتے ہیں، سارا کام ان کے ذریعے چل رہا ہے، اگر حکومت اہم عہدوں پر تعینات بیوروکریٹس کے وٹس ایپ چیک کروائے تو اسے پتا چلے گا کہ کزن کس طرح حکومت کا تمسخر اُڑا رہے ہیں۔ این ایچ اے کا ایک افسر اپنے وزیر کے میمز بناتا ہے، دو اور بیوروکریٹ بھائی شاید سارا دن اسی کام پر لگے رہتے ہیں، محکمہ صحت، لیبر اور لوکل گورنمنٹ پنجاب میں بھی یہی کام ہو رہا ہے۔ 

اس دور میں بھی (ن) کے ڈسے ہوئے بیوروکریٹس کی ترقیاں نہیں ہو سکیں، سندھ سے تعلق رکھنے والوں کی ترقیاں بھی خاص نہیں ہو سکیں، بیوروکریسی حکومتی احکامات کو ہوا میں اُڑا دیتی ہے، اس نے موجودہ حکومت کو ہوائی حکومت بناکے رکھ دیا ہے۔ ‘‘بودی شاہ کی باتیں آپ نے سن لی ہیں مگر فواد حسن فواد آج کل شاعری کر رہے ہیں۔ کورونائی موسم میں ان کی نظم کا ایک حصہ پیش خدمت ہے؎

کسی اندھے کنویں میں گم کسی آسیب کی آنکھیں

ہماری گھات میں ہیں

ہمارے دن بھی سورج کو ترستے ہیں

ہمارے شہر جیسے اک مسلسل رات میں ہیں

اور اب تو موت کا احساس ہڈیوں تک سرائیت کرگیا ہے

جو خود کو زندہ رکھنے پر مصر تھا

وہ اپنے سانس کی ڈوری سنبھلنے سے ذرا پہلے

کسی وینٹی لیٹر کی طرف نظریں جمائے

مرگیا ہے


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔