کیا کرکٹ کی مقبولیت دیگر کھیلوں سے وابستہ کھلاڑیوں کے حوصلے پست کر رہی ہے؟

بائیس کروڑ آبادی والے ملک پاکستان کا قومی کھیل ویسے تو ہاکی ہے لیکن ملک میں ہر دوسرا شخص کرکٹ کی سحر میں مبتلا ہے، کرکٹ کا مقابلہ ہو تو شاید ہی کوئی ایسا پاکستانی ہو جو دلچسپی نہ رکھتا ہو، کبھی کوئی ہاکی تھامے نظر آجائے تو میچ کا سوال نہیں ہوتا۔ البتہ یہ ضرور پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا کہیں کوئی لڑائی ہوگئی۔

اور جب قومی کھیل کا یہ حال ہے تو پھر اسنوکر، ٹینس، ریسلنگ، کراٹے ، فٹبال اور دیگر کھیل سے وابستہ افراد پر کیا گزرتی ہوگی؟ کیا کبھی کرکٹ کی محبت میں اندھی عوام نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ گزشتہ دس سال کے دوران دیگر کھیلوں میں پاکستان نے کیا کیا کارنامے انجام دیے؟

کہیں کرکٹ سے محبت ، ملک میں دیگر کھیلوں سے تو عوام کو دور نہیں کررہی؟

اگر دوسرے کھیلوں سے وابستہ ایتھلیٹس سے بات کریں تو ان کا تو یہی خیال ہے کہ اسپورٹس کے معاملے میں کرکٹ ایک طرف اور باقی کھیل دوسری طرف، کرکٹرز کو سب کچھ مل جاتا اور دیگر کھیلوں والے ہمیشہ نظر انداز ہوجاتے۔

'2 مرتبہ ورلڈ چیمپئن بنا مگر 2 میچ کھیلنے والے کرکٹر کی ویلیو مجھ سے زیادہ ہے'

محمد آصف /فائل فوٹو

پاکستان کے لیے 2012 اور 2019 میں آئی بی ایس ایف ورلڈ اسنوکر چیمپئن شپ جیتنے والے محمد آصف کہتے ہیں کہ وہ دو مرتبہ ورلڈ چیمپئن بنے لیکن لگتا ہے کہ دو مرتبہ انٹرنیشنل میچ کھیلنے والے کرکٹر کی ویلیو ان سے زیادہ ہے جو کافی مایوس کن ہے۔

جیو نیوز سے گفتگو میں قومی اسنوکر اسٹار نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ دوہرے معیار کو بدلا جائے اور جو کھلاڑی بھی ملک  کے لیے اعزاز جیتے اس کو وہی عزت دی جائے جیسی کسی کرکٹر کو دی جاتی ہے۔ کرکٹرز کو تو تمام سہولیات بھی مل جاتی ہے لیکن دیگر کھیلوں کے ایتھلیٹس تو بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔

سعدی عباس/فائل فوٹو

پاکستان کے ٹاپ کراٹیکا سعدی عباس بھی محمد آصف سے متفق ہیں۔ 

سعدی نے جیو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ایک کرکٹر اگر سنچری اسکور کرتا ہے یا ہیٹ ٹرک کرتا ہے تو اس کو مدتوں یاد رکھا جاتا ہے، دوسرے کھیل میں تاریخی فتوحات بھی ہوجائیں تو اسے بھلادیا جاتا۔

سعدی عباس نے شکوہ کیا کہ دوسرے کھیل میں تو یہ حال ہے کہ پلیئرز اپنی جیب سے میڈیکل کراتے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ کرکٹ یا کرکٹرز سے مسئلہ نہیں بلکہ اعتراض اس دوہرے معیار پر ہے کہ جو دو مختلف کھیلوں سے وابستہ کھلاڑیوں کے ساتھ برتا جاتا ہے۔

اعصام الحق/فائل فوٹو

ٹینس اسٹار اعصام الحق نے اعتراف کیا کہ کرکٹ پاکستانی عوام کو جوڑتا ہے لیکن سارا فوکس کرکٹ کی جانب ہوجانے کی وجہ سے دیگر کھیل نظر انداز ہوجاتے ہیں، انہیں کرکٹرز سے کوئی پرابلم نہیں لیکن دیگر کھیلوں میں ملک کا پرچم بلند کرنے والے ایتھلیٹس بھی پذیرائی کا وہی حق رکھتے ہیں جو کرکٹرز کو ملتی ہے۔ 

 اعصام الحق نے کہا کرکٹ بورڈ کی تو براڈ کاسٹ رائٹس سے بھی آمد ہوتی ہے اور دیگر ذرائع امدن بھی ہیں جو دیگر کھیلوں کو میسر نہیں اس لیے مثبت ہوگا اگر پی سی بی بھی دوسرے کھیلوں کیلئے کچھ حصہ ڈالے۔

پاکستان کے کامیاب ترین ٹینس پلیئر نے مطالبہ کیا کہ حکومت اور اسپانسرز اب کچھ توجہ فٹبال، ٹینس، اسکواش اور ہاکی جیسے کھیلوں پر بھی دے ورنہ وہاں پلیئرز کی حوصلہ شکنی ہوگی۔

عدنان ذاکر/فائل فوٹو

پاکستان کے سابق انٹرنیشنل ہاکی پلیئر عدنان ذاکر کا کہنا تھا کہ ہاکی کی تباہی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر کوئی کرکٹ سے اتنا فوکسڈ ہے کہ ہاکی کو وقت ہی نہیں مل رہا جس کی وجہ سے اسپانسرشپ بھی نہیں ملتی ۔ 

عدنان ذاکر کا کہنا تھا کہ ہاکی مشکل ترین کھیلوں میں سے ایک ہے اور اس میں ٹاپ لیول پر جانے کے لیے  بہت کچھ وقف کرنا پڑتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ ہاکی پلیئرز کا خیال رکھا جائے ۔

'ہر وقت کرکٹ دکھائیں گے تو دوسرے کھیل کیسے فروغ پائیں گے؟'

خواتین کھلاڑیوں کا بھی یہی شکوہ ہے کہ پہلے ہی دیگر کھیلوں کو موقع نہیں ملتا اور سونے پر سہاگا یہ کہ خواتین کے کھیلوں کو تو بالکل بھی توجہ نہیں دی جاتی۔

سارہ محبوب/فائل فوٹو

پاکستان نمبر ون ٹینس پلیئر سارہ محبوب کا کہنا ہے کہ ٹی وی پر ہر وقت کرکٹ دکھائی جاتی، اس سے دوسرے کھیل کیسے فروغ پائیں گے؟ اور خواتین پلیئرز کو تو کوئی ویسے بھی نہیں توجہ دیتا ۔ 

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ہر کھیل میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والوں کیلئے یکساں پالیسی بنائی جائے۔

کراٹے چیمپئن کلثوم ہزارہ نے کہا کہ وہ جب سے کراٹے کھیل رہی ہیں، یہ دیکھا کہ کرکٹ کو ہی ویلیو ملتی ہے، اسپانسرز بھی کرکٹ کی طرف جاتے ہیں جس کی وجہ سے دوسرے کھلاڑیوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہیں۔ 

کلثو ہزارہ/فائل فوٹو

کلثوم ہزارہ نے کہا کہ اگر بغیر سپورٹ کے سب میڈل لاسکتے ہیں تو سپورٹ مل جائیں پھر کتنا کچھ حاصل کرلیں گے ۔

اس حوالے سے گفت گو میں پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے سربراہ جنرل عارف حسن نے بھی ماننا کہ کرکٹ پر زیادہ فوکس ہونے کی وجہ سے پاکستان میں دیگر کھیل متاثر ہورہے ہیں تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جب دیگر کھیلوں میں کوِئی پلیئر کامیابی حاصل کرے تو اس کی جارح مزاجی کے ساتھ پرموشن کی جائے اور اس پلیئر کو ہیرو بناکر پیش کیا جاتا رہے تاکہ مزاج میں تبدیلی آئے۔