دورہ انگلینڈ میں کس کا مفاد پوشیدہ ہے؟

—پاکستانی کھلاڑی انگلینڈ میں پریکٹس سیشن کے دوران

پاکستان کرکٹ ٹیم 3 ٹیسٹ اور 3 ٹی ٹوئنٹی کھیلنے کے لیے کرکٹ کی جنم بھومی انگلینڈ میں موجود ہے۔ قومی ٹیم کے انگلینڈ میں قیام کو تین ہفتے ہونے کو ہیں ،البتہ ابھی معاملہ تربیتی مشقوں اور پریکٹس تک ہی محدود ہے۔

وجہ سیدھی سی ہے،کوویڈ 19 یعنی کورونا وائرس کی عالمی وبا۔ جس کے دوران آئی سی سی ایونٹس کے انعقاد کا ابھی کوئی فیصلہ نہ ہوا لیکن  پی سی بی نے انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلق کو مضبوط کر نے کے لیے 29 کرکٹرز اور 14 آفیشلز کو خصوصی طیارے کے ذریعے دیار غیر روانہ کرنے کی حامی بھر لی۔ 

اگرچہ کورونا ٹیسٹ مثبت آنے پر خصوصی طیارے میں کئی کرکٹرز نہ جا سکے  لیکن  اس جہاز میں چیئر مین پی سی بی احسان مانی اور ان کی اہلیہ کو نشست مل گئی۔ 

یاد رہے پاکستان کرکٹ ٹیم کرکٹ کھیلنے اس انگلش سرزمین پر موجود ہے،جہاں کے کر کٹ بورڈ کو سیزن نہ ہو نے پر 300ملین پاونڈز کے خسارے کا سامنا تھا اور اسے  61 ملین پاؤنڈ کے امدادی پیکج کی جانب دیکھنا پڑاتھا۔ 

یہ وہ کرکٹ بورڈ ہے جس کے چیف ایگزیکٹو ٹام ہیریسن نے رضا کارانہ طور پر اپنی تنخواہ سے 25 فی صد کٹوتی کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان سے پہلے ویسٹ انڈیز کی ٹیم 3 ٹیسٹ کی سیریز کے لیے انگلینڈ میں قدم رکھ چکی تھی، البتہ اس دورے سے قبل اس خبر نے تہلکہ مچا دیا کہ ویسٹ انڈین بورڈ نے انگلینڈ کے دورے سے قبل انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ سے 3 ملین ڈالرز کی رقم لی ہے۔

تاہم بعدازاں ویسٹ انڈین بورڈ کے عہدیدار نے خلاصہ کیا کہ مالی مشکلات اور مسائل کے سبب انگلش بورڈ سے 3 ملین ڈالرز دورے کے عوض نہیں ،ادھار لیے گئے ہیں۔لیکن ایک بات تو یہاں طے تھی کہ ویسٹ انڈیز اور پاکستان ٹیم کا دورہ انگلینڈ انگلش بورڈ کے لیے مالی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے اسی لیے انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ نے خصوصی طیارے کے ساتھ بائیو سکیور ماحول کی شرائط کو پورا کیا، جو وقت کی بھی اہم ضرورت تھی۔

اگر یہ کہا جائے کہ سیریز شروع ہونے سے ایک ماہ قبل انگلینڈ پہنچنے والی ٹیم کے کھلاڑی قید تنہائی میں ہیں  تو غلط نہ ہوگا۔ 

لیکن سوال یہ ہے کہ دورہ انگلینڈ جہاں محض ایک درجن مقامی صحافیوں کو پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے کی اجازت ہے، جہاں تماشائیوں کو اسٹیڈیم میں داخلے کی اجازت نہیں ہے، مطلب کرکٹ ہو گی لیکن بند دروازں میں۔ 

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کرکٹ کی بحالی اور انگلش بورڈ کی مدد اصل مقصد تھا تو کچھ چیزوں کو مناسب انداز میں لے کر چلا جاسکتا تھا جس میں فی الحال تو کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی۔

ماضی میں اگر پی سی بی زمبابوے اور ورلڈ الیون کو پاکستان میں کرکٹ کی بحالی کے لیے مدعو کر نے پر ڈالرز کی برسات کر سکتا تھا تو اس بار پی سی بی نے انگلینڈ اینڈ ویلز کر کٹ بورڈ کو آئندہ سال پاکستان کے دورے کی یقین دہانی کا کیوں نہ کہا؟ 

اس بارے میں چیف ایگزیکٹو وسیم خان جو خود انگلینڈ سے آئے ہیں، نے برملا کہا کہ ایسی باتوں کا یہ وقت نہیں ہے۔ اطلاعات ہیں کہ دورے کے 150 ڈالر ڈیلی الاؤنس میں 88 ڈالر کا حصہ پی سی بی نے لفافے میں رکھ کر پورے دورے کے حساب سے کھلاڑیوں کے ہاتھوں میں لاہور ہی میں تھما دیا تھا۔ البتہ انگلینڈ میں کھلاڑی 62ڈالر سے محروم رہے اور  انہیں بتایا گیاکہ بائیو سیکور ماحول میں چونکہ کھلاڑی ہوٹل سے باہر قدم نہیں رکھ سکیں گے،لہٰذا پورے دورے کے دروان انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ ڈنر دے گا، جس کے باعث کھلاڑیوں کو یہ رقم نہیں مل پائے گی۔

اب یہاں سوال یہ ہے کہ دورے پر جہاں انگلش بورڈ صرف ایک لاکھ پاؤنڈ سیناٹائزر پر خرچ کر رہا ہے، اس نے ڈنر کا بھی حساب رکھ لیا اور پیسے کاٹ لیے۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے۔ دورے پر جانے والے 29 کھلاڑیوں میں سارے تو کھیل نہیں پائیں گے، ایسے میں ہوٹل کے کمروں میں قید ہمارے کھلاڑیوں کے لیے ڈیلی الاؤنس کی رقم بھی پوری نہ ملناکیا انصاف کے تقاضے پورے کرتا ہے۔

یاد رہے جب ہماری ٹیم ووسٹر پہنچی تو انہیں کہا گیا کہ وہ گراؤنڈ کا واش روم استعمال کر نے کے مجاز نہیں ہوں گے، اب ڈربی میں جس جگہ ہماری ٹیم کا قیام ہے، وہاں نہ تو سوئمنگ پول کی سہولت ہے اور نہ ہی جم رہائش کی جگہ پر موجود ہے۔ 

سوال یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ اس طرح کا سلوک ضرور اس وقت مناسب لگتا جب یہ دورہ ہماری مجبوری ہوتا لیکن افسوس ہم دوسروں کی مدد ایسے کر رہے ہیں جیسے ہم مجبور ہوں۔ 

کوویڈ 19کی صورتحال میں مان لیتے ہیں سفری سہولیات کے آگے بڑے معاملات ہیں لیکن یہ کیسے مان لیں کہ بھاری تنخواہ پر انگلینڈ سے آئے ہوئے چیف ایگزیکٹو وسیم خان انگلینڈ کے ماحول اور حالات نہیں جانتے؟ کیا اچھا نہیں ہوتا کہ وہ ان معاملات کو براہ راست خود دیکھتے  اور ایسے ماحول اور قیام کے انتظامات کو قومی ٹیم کے لیے یقینی بناتے جہاں سوئمنگ اور جم کی سہولیات میسر ہوتیں ناکہ یہ عذر پیش کر دیا جاتا کہ رہائش کے ساتھ منسلک گراؤنڈ میں یہ ساری سہولیات موجود ہیں۔ 

خیر یہ سوال وسیم خان سے تو بنتا ہی نہیں جنہوں نے مارچ 2020ء میں پاکستان سپر لیگ کی پریس کا نفرنس میں کورونا علامت ظاہر ہو نے والے انگلش کرکٹر کا نام صیغہ راز میں رکھا۔ حالاں کہ سب کی زبان پر الیکس ہیلز کا نام تھا لیکن یہی وسیم خان تھے،جنہوں نے کوویڈ 19 ٹیسٹ مثبت آنے والے پاکستانی کرکٹرز کے ناموں کا پریس کانفرنس میں نام لیتے ہوئے، تین مہینے قبل اپنی ہی بات کی نفی کردی۔ 

پھر کوویڈ 19 ٹیسٹ مثبت آنے والے کرکٹرز کو گھر بھیج دیا گیا اور انھیں دوسرے ٹیسٹ کے لیے گھروں سے نکل کر اسپتال جانے کو کہا گیا۔ کیا پیشہ ورانہ بورڈ اس انداز میں کام کرتے ہیں؟ خصوصی طیارے میں انگلینڈ ایک گروپ کو بھیج کر کہاں تھے وسیم خان جب کوویڈ 19 منفی آنے والے کرکٹرز نے انگلینڈ کا کمرشل فلائٹ میں سفر کیا؟

چلیں دوران سفر انہیں دوسری فلائٹ کے لیے ائیر پورٹ پر دیگر مسافروں کے ساتھ چلنا پڑا لیکن انگلینڈ پہنچ کر انہیں خصوصی کاؤنٹر پر امیگریشن کے مرحلے سے کیوں گزارا نہیں گیا؟ دو گھنٹے لائن میں لگنے والے کرکٹرز کو بائیو سیکور ماحول ایسے مہیا کیا جاتا ہے؟ یہ تلخ اور چیخ چیخ کر سوال کرتی حقیقتیں ہیں جو سیدھا اور آسان سوال زبان پر لا رہی ہیں کہ دورہ انگلینڈ میں کس کا مفاد پوشیدہ ہے؟

مزید خبریں :