نئی پارٹی کی آمد آمد ہے

مریم نواز کو توقع ہے کہ بہت جلد عدالتیں انہیں باعزت بری کردیں گی، وہ اب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش مند ہیں۔

نواز شریف کو جیل سے نکال کر برطانیہ بھیج دیا گیا۔ (جو سوئے دار سے نکلے تو کوئے یار چلے )مریم نواز جیل سے ضمانت پر جاتی امرا منتقل کر دی گئیں ۔باد ِ نو بہار چلی اور گلوں میں رنگ بھرنے لگی ۔شہباز شریف کو بھی رہا کر دیا گیاکہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔ بیچارے حمزہ شہباز کے سوا شریف فیملی کا کوئی فرد نہیں رکھا گیا۔سو وہ کہہ سکتا ہے۔

جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں

 ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے۔

اس سارے معاملے میں کئی طرح کی داستانیں گلی کوچوں میں رسوا ہوچکی ہیں۔ہارون الرشید نے تویہاں تک کہہ دیا کہ نواز شریف ساڑھے چار سو ارب روپے دے کر ملک سے باہر گئے ہیں ابھی پچاس ارب اور دینے ہیں ۔محسوس یہی ہوتا ہے کہ مریم نواز کی مسلسل خاموشی کے پس منظر میں کوئی نہ کوئی معاہدہ ضرور موجود ہے ۔وہ بالکل خاموش تھیں ،حتی کہ ٹویٹ تک نہیں کررہی تھیں اور اچانک ایک دن نیب نے انہیں طلب کرلیا ۔یعنی معاہدے کی پاسداری نہیں کی گئی ، سو وہ میدان اتر آئیں۔

نیب کے دفتر کے باہر جو کچھ ہوا ، وہ ہم سب نے دیکھا اور آنکھیں بند کرلیں۔کسی نے کہا کہ لیزر گن سے مریم نواز پر قاتلانہ حملہ کیا گیا ۔کسی نے کچھ کہا ، کسی نے کچھ ۔ بے شک ویڈیو میں بلٹ پروف گاڑی پر زخموں کے کئی نشان ہیں ۔ونڈ اسکرین بھی کسی حد تک ٹوٹی ہوئی ہے۔

غالباً امکان یہی ہے کہ زخم پتھروں کے ہی ہیں ۔نون لیگ کی ایک گاڑی میں پتھر وں سے بھرے تھیلوں کی ویڈیو بھی موجود ہے۔یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ دو گروہوں کے تصادم میں دوسرا گروہ کس کا تھا ۔کیا پولیس نے سفید کپڑوں میں گاڑی پر پتھرائو کیا۔ کیا دونوں طرف سے نون لیگ والےخود تھے ۔

یعنی یہ واقعہ ایک ڈرامہ تھا۔کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ قصہ کیا ہے ۔نون لیگ کے کارکن بھی پوچھتے ہیں کہ آخر سوئی ہوئی شیرنی کو کیوں جگایا گیا۔ویسے مریم نواز تھیں بڑی محتاط۔کوئی ایسا جملہ ان کی زبان پر نہیں آیا جو ’’ووٹ کو عزت دو ‘‘کے بیانیہ کی طرف اشارہ کرتا ہو ۔

اگرچہ شہباز شریف پریس کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے مگر مریم نواز کے حق میں ضرور بیان دیا۔ سوچتے ہونگےکہ بے شمار پیشیاں ان کی اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کی ہو چکی ہیں ۔اس وقت نون لیگ کے یہ کارکن کہاں تھے جو مریم نواز کی پیشی کے موقع پر اچانک کہیں سے نکل آئے ۔

یہ خبر شہباز شریف اور حمزہ شریف کےلئے ہےکہ مریم نواز بدل گئی ہے یعنی ان کابیانیہ تبدیل ہو گیا ہے۔وہ بہت جلد اپنے کارکنوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کرنے والی ہیں ۔آغاز نون لیگ کے ایم این ایز اور ایم پی ایز سے ہوگا ۔اس کے بعد نون لیگ کے وہ لوگ بلائے جائیں گے جو گزشتہ انتخابات میں ہار گئے تھے ۔کیا مریم نواز نے ابھی سے انتخابات کی تیاریاں شروع کردی ہیں ۔یہ تو طے شدہ بات ہے کہ وہ اپنے وزیر اعظم بننے کا ٹارگٹ ہر حال میں اچیو کرنا چاہتی ہیں ۔

انہیں توقع ہے کہ بہت جلد عدالتیں انہیں باعزت بری کردیں گی۔ وہ اب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش مند ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں چاہتیں کہ عمران خان کی حکومت وقت سے پہلے ختم ہو۔ وہ چاہتی ہیں یہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے تاکہ زخم بھر جائیں اور آئندہ انتخابات میں انہیں فتح حاصل کرنے میں کوئی دشواری نہ ہو ۔

نیب کے دفتر کے باہر انہوں نے شو کرنا تھا کر لیا ۔اب اس کے بعدوہ بہت دھیرے دھیرے آگے بڑھنے کا ارادہ رکھتی ہیں ۔ جلسہ ، جلوس یا دھرنے کی سیاست نہیں کرنا چاہتیں ۔میڈیا میں بھی کم کم آنے کا خیال ہے ۔اطلاعات یہی ہیں کہ مستقبل کی پوری پلاننگ کر لی گئی ہے مگر ایک پلاننگ آسمانوں پر بھی ہورہی ہوتی ہے ۔ وہ کیا ہے ۔یہ زمین والے نہیں جانتے ۔

مریم نواز کےلیےکسی نے لکھا ہے۔’’شہباز شریف صاحب نے نون لیگ کو ٹھہرے پانی میں بدل ڈالا۔مریم نواز نے گھر سے باہر قدم رکھا تو سیاست کے جامد پانی میں ارتعاش پیدا ہو گیا۔ قیادت اِسی کا نام ہے۔ ‘‘

دوسری طرف سے وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے ’’مریم نواز نے اپنے والد کی طرح اداروں پر حملے کی روایت برقرار رکھی اور اپنے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ سجایا‘‘۔ایک سوال اور اٹھایاجارہا ہے کہ نیب آفس پرپتھراؤ،کار سرکار میں مداخلت اور نقص امن کے الزام میں گرفتار 58 ن لیگ کے کارکنوں کو جوڈیشل ریمانڈ پرجیل بھیج دیا گیا۔کیا مریم نواز کی گاڑی پرپتھرائو کرنے والے تمام لوگ نون لیگ کے ہی تھے۔

اگر ن لیگ نے کوئی سازش تیار کی تھی تو اتنے زیادہ لوگوں میں یہ سازش چھپی کیسے رہی۔اس کی خبر پہلے سرکاری اداروں تک کیوں نہیں پہنچی۔پھر ویڈیو ز میں دو گروہ دکھائی دے رہے ہیں مگردوسرے گروہ کا کوئی شخص گرفتار نہیں کیا گیا ۔

نیب کی پیشیوں پر بڑے بڑے لوگ جاتے رہے ہیں کبھی کچھ ایسا نہیں ہوا۔ ابھی کل وزیر اعلیٰ پنجاب پیش ہوئے ۔ بغیر پروٹوکول کےگئے۔ دو گھنٹوں کا انٹرویو دیا اور واپس آگئے۔ وہ بھی چاہتے تو وہاں پی ٹی آئی کے کارکنوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجود ہوتا مگر انہوں نے قانون کا احترام کرنے والے ایک شہری کی طرح جا کر انٹرویو دیا ۔

جن سوالوں کے جواب معلوم نہیں تھے وہ سوالنامہ ساتھ لے آئے کہ اگلی پیشی پر ان سوالات کے جوابات فراہم کر دئیے جائیں گے ۔بہر حال میرا خیال ابھی تک یہی ہے کہ شریف فیملی کےلئے اقتدار کا سورج شاید ہمیشہ کےلئے غروب ہوچکا ہے ۔ہوائیں کہہ رہی ہیں کہ کسی نئی پارٹی کی آمد آمد ہے ۔

بس لیڈر نہیں مل رہا ۔ قحط الرجال کا یہ عالم ہے کہ شاہد آفریدی اور ایاز صادق کے نام بھی زیر ِ غور رہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔