انصاف کی تحریک اور سبطین خان

فوٹو:فائل

کل کے ایک اخبار میں یہ خبر تھی کہ ’’صوبائی وزیر جنگلات سبطین خان کے خلاف سابق ایم ڈی پنجاب منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن منظر حیات وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں۔

نیب ذرائع کے مطابق گوجرانوالہ میں 25لاکھ کی کمپنی کاغذوں میں ظاہر کی گئی اور چنیوٹ کا خزانہ مذکورہ کمپنی کے حوالے کر دیا گیا۔ چنیوٹ میں اربوں روپے مالیت کا 500میٹرک ٹن لوہا ہے۔ جولائی 2007میں میسرز ارتھ ریسورس پرائیویٹ لمیٹڈ کو ٹھیکہ دیا گیا۔

کمپنی کے پاس کان کنی کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود ایک ناتجربہ کار کمپنی کو ملی بھگت سے ٹھیکہ دے دیا گیا۔ پنجاب مائنز ڈیپارٹمنٹ نے بڈنگ میں کسی دوسری کمپنی کو شامل ہی نہ کیا۔ پنجاب مائنز نے بظاہر صرف 20فیصد کی شراکت پر رضا مندی ظاہر کی۔

یہ جوائنٹ وینچر اس حوالے سے غیرقانونی تھی۔ ملزمان کی جانب سے ایس ای سی پی کو منصوبے کی کبھی تفصیل نہ دی گئی۔ ملزم سبطین خان نے چنیوٹ کے اربوں کے وسائل 25لاکھ کی کمپنی کو دیے‘‘۔

حیران ہوں اس قدر غلط خبر کیسے شائع ہوئی۔ ’’اہلیانِ نیب‘‘ پر بھی حیرت ہے کہ انہوں نے ملزم کی طرف سے سبطین خان پر لگائے گئے الزام کو پھر قابلِ اعتنا سمجھ لیا ہے حالانکہ پہلے وہ عدالت سے خاصی ڈانٹ کھا چکے ہیں۔ قصہ اتنا ہے کہ جب سبطین خان وزیر معدنیات نہیں رہے تو یہ قصہ پروان چڑھا۔

یہ فائل جب منظر حیات نے سبطین خان کو بھیجی تھی تو انہوں نےاس پر چیئرمین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ سے رائے مانگی۔ ابھی جواب نہیں آیا تھاکہ 17نومبر2007کا دن آگیا۔پرویز الہٰی حکومت ختم ہوگئی۔ سبطین خان چلے گئے۔ اس کے بعد سارا معاملہ انہی افسروں نے کیایا نگراں حکومت نے۔

پی اینڈ ڈی نےمثبت رپورٹ بنادی ،جسے چیف سیکرٹری کو بھیج دیا گیا۔چیف سیکرٹری نے اپروول کےلئے فائل اس وقت کے وزیر اعلیٰ جسٹس اعجاز نثار کو بھیج دی۔جسٹس اعجاز نثار ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہے ہیں۔

اس وقت ان کے پرنسپل سیکرٹری یوسف نسیم کھوکھر تھے جو آج کل سیکرٹری داخلہ ہیں۔ وزیراعلیٰ نے یہ فائل سیکرٹری قانون فاروق احمد شیخ کو بھجوا دی انہوں نے بھی مثبت رپورٹ دے کر واپس وزیر اعلیٰ کو بھیج دی۔وزیر اعلیٰ نے اپروول دے دی اور فائل چیف سیکرٹری کوبھیج دی۔ پھر اسی روٹ سے ہوتے ہوئے فائل واپس منظر حیات کے پاس پہنچ گئی۔

اس نے دسمبر دو ہزار سات میں اُس فرم کے ساتھ ایگریمنٹ کرلیا۔پھر دوماہ 30جنوری 2008میں یہ ایگریمنٹ ریوائز کیا گیا۔ایک بار پھر مارچ 2008 میں یہ ایگریمنٹ دوبارہ ریوائز کیا گیا۔

پھر اسے محکمہ معدنیات کی سترہویں میٹنگ میں باقاعدہ اپرو کیا گیا۔یعنی ساری کارروائی کو قانونی جواز فراہم کئے گئے۔ مگر خبر میں لکھا ہوا ہےکہ ’’جولائی 2007ء میں میسرز ارتھ ریسورس پرائیویٹ لمیٹڈ کو ٹھیکہ دیا گیا‘‘جو بالکل غلط ہے۔ پھر یہ ایم ڈی منظر حیات کی ترقی ہو گئی اور وہ سیکرٹری معدنیات بن گیا۔یہ ترقی شاید اس وقت ہوئی تھی جب دوست محمد کھوسہ وزیر اعلیٰ تھے۔ پھر شہباز شریف وزیر اعلیٰ بن گئے۔

اس وقت منظر حیات نے بحیثیت سیکرٹری معدنیات شہباز شریف کو ایک لیٹر لکھاکہ میں یہ ایگریمنٹ کر چکا ہوں، اب ہمیں اس کے مطابق کام کرنے کی اجازت دی جائے۔ شہباز شریف نےاس معاملہ پر ایک کمیٹی بنادی جنہوں نے اس کیس کا جائزہ لیا اور پھر کمیٹی کی سفارشات کے مطابق وزیر اعلیٰ نےیہ ایگریمنٹ منسوخ کردیا۔

یہ ہے سارا کیس۔ اس میں کچھ بھی نہیں ہوا۔ یہاں ایک اہم سوال لوگ پوچھتے ہیں کہ جب کوئی واسطہ نہیں توپھرانہوں نے کس جرم میں تین ماہ جیل میں گزارے ہیں۔

تو اس کا جواب اتنا ساہے کہ اِس کیس کا جو بنیادی ملزم ہے وہ یہی منظر حیات ہے اس نے اپنی جان بچانے کےلئے سبطین خان پر الزام لگا دیا کہ انہوں نے مجھے کہا تھا ’’میں تمہیں چیف سیکرٹری لگوادوں گا تم یہ کام کرو ‘‘۔

وہ ابھی تک اس الزام کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا۔ویسے بھی یہ الزام بعید ازقیاس ہے کیونکہ یہ سارا معاملہ 2008کے انتخابات کے بعد شروع ہوا۔اس لئے یہ الزام بنتا ہی نہیں اس کی تین وجوہات ہیں۔

پہلی بات یہ کہ سبطین خان اس الیکشن میں ہار گئے تھے۔ دوسرا وہ قاف لیگ میں تھے اور قاف لیگ فارغ ہو گئی تھی۔ تیسرا پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت آچکی تھی۔ وہ سبطین خان کے سخت مخالف تھے ،ایسی صورت حال میں ایسے مجرم کے کسی ایسےبیان پر نیب یقین کرلے۔ میرا دل نہیں مانتا۔

خاص طور پر نیب لاہور جہاں شہزاد سلیم جیسا ایمان دار اور دیانت دار ڈائریکٹر جنرل موجود ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ خبر بھی غلط ہے کہ نیب نے منظر حیات کو وعدہ معاف گواہ بنا لیا ہے۔

ایک سوال اور میرے ذہن میں ابھرتا ہے کہ نیب نے اس وقت کے وزیراعلیٰ جسٹس اعجاز نثار، اس کے پرنسپل سیکرٹری یوسف نسیم کھوکھر، چیف سیکرٹری، سیکرٹری خزانہ، سیکرٹری پی اینڈ ڈی، سیکرٹری قانون فاروق احمد شیخ وغیرہ کو اس کیس میں کیوں نہیں طلب کیا جب کہ ان تمام لوگوں نے اُس کمپنی کے حق میں دلائل دیے ہیں جو فائل میں موجود ہیں۔

مجھے یہ سوچ کے حیرت ہوتی ہے کہ پنجاب گورنمنٹ کے وزیر سبطین خان انصاف کی تلاش میں ہیں۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار بھی جھوٹے الزام میں نیب کے دفتر میں انٹرویو دے آئے ہیں۔

جب اتنے بڑے لوگوں کو انصاف نہیں مل رہا تو عام آدمی کے ساتھ کیا ہوتا ہوگا۔ عمران خان کو اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہئے کیونکہ ان کی تمام سیاسی جدوجہد کا بنیادی مقصد انصاف کی ہی فراہمی ہے۔ انہوں نے اسی لئے اپنی پارٹی کا نام تحریک انصاف رکھا تھا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔