گڈ گورننس اور بیڈ گورننس گڈمڈ

فوٹو: فائل 

عمران حکومت نے عالمی کورونا وبا سے 22 کروڑ پاکستانیوں کو زیادہ سے زیادہ محفوظ رکھنے، قومی معیشت کو مکمل ٹھپ ہونے سے بچانے اور یکدم پیدا ہوئی ملک گیر بے روزگاری کو ممکنہ حد تک قابو کرکے یقیناً اپنی حکومت کی پہلی عظیم کامیابی حاصل کی ہے، اس سے ان کی مایوس کن گورننس اور مجموعی کارکردگی پرعوام، میڈیا اور اپوزیشن کی سخت اور درست تنقید کا گراف بہت تیزی سے گرا ہے۔

اب انہوں نے گڈ گورننس کا بھی بڑا ہی عوام دوست فیصلہ کیا ہے، جو ان کا عوام کو جلد اور بہت ریلیف دینے والا اقدام بن سکتا ہے، لیکن فوری درستی کا متقاضی اناڑی پن یہ کیا کہ گڈ گورننس کے اس انقلابی اقدام کو اسٹیٹس کو کی بیڑی کے ساتھ باندھ دیا ، جو ایسے ہی چلنے دیا گیا جیسے پلان کیا گیا ہے تو اتنی جلد اور اتنا بڑا ڈیزاسٹر ہوگا کہ ایک تو کورونا کرائسز کی اسمارٹ مینجمنٹ سے جو واقعی عظیم کامیابی حاصل کی ہے وہ ناصرف یہ کہ ماند پڑ جائے گی بلکہ جو پروپیپل انقلابی فیصلہ کیا ہے اس کے شدت سے مطلوب اور گڈگورننس والے پہلو میں بھی ایسا ڈینٹ پڑے گا کہ اس کے انقلاب آفریں ہونے کے باوجود عوام کی سرکاری اداروں میں خواری اور انہیں مسلسل اذیت میں رکھنے کی موجودہ آلودہ پبلک ڈیلنگ کو ای گورننس سے بھی ختم کرنا محال ہی نہیں، اقتدار کے باقی بچے تین سال میں بھی ممکن نہ ہوگا۔

سرکاری نیوز ایجنسی اے پی پی کے حوالے سے قومی اخبارات میں شائع ہونے والی یہ خبر تو تازہ ہوا کا جھونکا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے عوام کو مختلف النوع سروسز فراہم کرنے والے اداروں کے روزمرہ آپریشنز کو عوام دوست، شفاف اور آسان بنانے کے لیے ان اداروں میں آئی ٹی کی اختیاریت (Adoption) سے بہتری لانے کا فیصلہ کیا ہے۔

خبر کے مطابق انہوں نے اس ضمن میں اپنے معاون خصوصی عثمان ڈار کی نگرانی میں تیار کیے گئے منصوبے کی منظوری دے دی ہے، یہ اتنا بڑا اور انقلابی فیصلہ ہے کہ اس خبر کی اشاعت کے بعد پہلا ’’آئین نو‘‘ اسی پر آنا بنتا تھا لیکن حالات حاضرہ میں طوفانی بارشوں میں ڈوبتے اور اس سے قبل بھی تیزی سے بنیادی سہولتوں سے محروم ہوتے کراچی کے شہریوں کی حالت زار، میڈیا کے لیے حالات حاضرہ میں اولین ہوگئی، سو گزشتہ ’’آئین نو‘‘ اسی بدستور توجہ طلب موضوع پر لکھے گئے کہ کراچی کے موثر حل کے لیے تو اب قومی مکالمہ ناگزیر ہوگیا ہے۔

سرکاری اداروں کی عوامی خدمات کی فراہمی کو جلد، شفاف اور رواں دواں کرنے کا فیصلہ تو یقیناً گڈ گورننس کی طرف بڑا قدم ہے، اور یہ ای گورننس سے ہی ممکن ہے لیکن یہ فیصلہ کرتے ہوئے بھی تحریک انصاف کی اناڑی، اپنے ہوم ورک کے بغیر الیکٹ ایبل کے کندھے پر سوار ہو کر اقتدار میں آنے والی حکومت نے اپنی عوام دوستی اور مکمل نیک نیتی کے ساتھ ای گورننس کے ڈیزائن کی حد تک بڑا ڈیزاسٹر کرد یا جو ریورس ایبل ہےجتنی جلدی ہو جائے بہتر ہے۔

ایسے ہی چلنے دیا گیا تو اپوزیشن میڈیا اور پہلے سے عدم تعاون پر کمربستہ بیوروکریسی ملاوٹ شدہ گڈ گورننس کے اس ماڈل کو بھی آڑے ہاتھوں لے گی، سوابھی وقت ہے وزیراعظم اور ان کے معاون خصوصی، گورننس کے اس عجیب الخلقت ماڈل پر نظرثانی کرکے اس کی پریکٹس اور Adoption، پارٹی کمپونینٹ ’’ٹائیگر فورس‘‘ کی نگرانی میں کرنے کے فیصلے کو ترک کریں۔ 

اگر ای گورننس استعمال ہونے والے سافٹ ویئر میں بھی بابائوں اور ان کے کلرک اور کارندوں کے سائلین کو ٹال مٹول، اور ٹرخانہ روایتی حربے (جیسے سسٹم خراب ہے) اور جملہ منفی رویے ریکارڈ نہیں ہو سکتے اور ان پر ان کی سرزنش اور جواب طلبی ریکارڈڈ ڈیٹا کے مطابق نہیں ہوتی تو پھر یہ ای گورننس کیا ہوئی؟ 

عوام کی دفتروں میں خواری کو ختم کرنے والے اور متعلقہ عملے کی کارکردگی اور رویے ہر دو کا ریکارڈ رکھنے والے سافٹ ویئر کی صورت میں ای گورننس جیسی Sophisticatad سروس کی فراہمی کے ماحول میں کسی ’’فورس‘‘ کو ان پر سوار کرنے کا نتیجہ بہت منفی نکلے گا۔ 

ٹائیگر فورس کا شجرکاری، بارشوں میں ہونے والی تباہی میں عوام کی خدمت، تفریح گاہوں اور پبلک مقامات پر شہریوں کو بہتر استعمال کی رہنمائی (تربیت کے بعد) اور ایسے ہی کتنے فلاحی کاموں میں تو استعمال کیا جا سکتا ہے، سرکاری فرائض کی انجام دہی میں، حکمران جماعت کے ورکرز کی نگرانی اور پڑتال تو پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت (77-1972) کی گورننس کا ماڈل تھا جس پر سخت تنقید عوام، بیوروکریسی، اپوزیشن اور میڈیا کی طرف سے ہوئی تھی جس پر پی پی نے اپنی عوامی خدمات کے ڈیزائن میں بس اتنی تبدیلی کی تھی کہ ’’پیپلز گارڈ‘‘ کو کچھ کنٹرول کرلیا تھا، خصوصاً پولیس نفری کو ’’درست‘‘ کرنے کے معاملے میں کیونکہ پنجاب پولیس نے تو ہڑتال کردی تھی جو ملک میں پولیس کی پہلی اور آخری ہڑتال تھی، لیکن اقتدار کے پہلے سال میں پولیس کے علاوہ سرکاری اداروں خصوصاً قومیائے گئے میں ’’پیپلز گارڈ‘‘ نے نگرانی کے نام پر بڑا اودھم مچایا، بےچارے سرکاری ملازم دبک تو گئے، لیکن ادارے سیاسی رنگ میں رنگ کر برباد بھی ہوئے۔ 

جب بہت بدنامی اور تنقید ہوئی تو گارڈ کو تو پیچھے کردیا گیا لیکن پارٹی کے عہدیدار اور کارکن ان اداروں پر ایک غیر آئینی و غیرقانونی بلکہ غیراخلاقی اور بھونڈا چیک بنے رہے۔ 

موجودہ حکومت کی تو کابینہ اور رہنماؤں کو بھی تربیت اور گرومنگ کی ضرورت ہے، ٹائیگر فورس عمران لورزکہیں سچی مچی کے ٹائیگر نہ بن جائیں سو وزیر اعظم عمران اور ان کے معاون خصوصی عثمان ڈار غور فرمائیں۔ وما علینا الاالبلاغ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔